کرناٹک اسمبلی انتخابات کا اعلان

0

2023 کا انتخابی میلہ اپنے دوسرے مرحلہ میں داخل ہوگیا ہے۔ مئی کے مہینہ میںجنوب کی ریاست کرناٹک میں انتخاب ہونے ہیں۔ سال کے آخر میں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، میزورم اور تلنگانہ اسمبلیوں کیلئے ووٹ ڈالے جائیں گے۔لوک سبھا انتخابات سے پہلے ہونے والے یہ اسمبلی انتخابات نہ صرف اپوزیشن کیلئے سخت چیلنج ہیں بلکہ یہ بی جے پی کی جنگی حکمت عملی اور مہارت کا بھی بہت بڑا امتحان ثابت ہونے والے ہیں۔اسی سال کے آغاز میں شمال مشرق کی تین ریاستوں کیلئے ہوئے انتخاب میں بی جے پی نے بھلے ہی جیت کے پھریرے لہرائے ہوں لیکن ووٹوں کا تناسب بتارہاہے کہ اس کی زمین کھسکنی شروع ہوگئی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال کرناٹک میںبھی ہونی ہے۔
کرناٹک اسمبلی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے بتایاکہ ریاست میں پولنگ 10 مئی کو ہوگی اور نتائج 13 مئی کو آئیں گے۔ یعنی تمام 224 سیٹوں پر ایک ہی مرحلے میں پولنگ ہوگی اور تین دن کے اندر ووٹوں کی گنتی مکمل ہو جائے گی اور نتائج بھی آ جائیں گے۔ اگرچہ ای وی ایم کی وجہ سے انتخابی عمل آسان ہو گیا ہے لیکن پھر بھی 70-75نشستوں والی اسمبلی کیلئے بھی الیکشن کمیشن پولنگ اور ووٹوں کی گنتی کے درمیان کئی دنوں کا وقفہ رکھتا آیا ہے اور انتخابات کئی مراحل میں کرائے جاتے رہے ہیں لیکن اس بار کرناٹک میں ایک ہی مرحلہ میں ووٹ ڈالے جائیں گے اور نتائج بھی تیسرے دن ہی آجائیں گے۔بظاہر یہ خوش آئند نظرآرہا ہے لیکن اس میں بی جے پی کی کسی سیاسی حکمت عملی ہونے سے بھی انکار نہیںکیاجاسکتا ہے۔یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ انتخاب کا اعلان ہوتے ہی بی جے پی نے جیت کابھی دعویٰ کردیا ہے حالانکہ اب تک اس نے اپنے امیدواروں کا بھی اعلان نہیں کیا ہے۔
کرناٹک انتخاب ایک ایسے وقت میںہورہاہے جب بی جے پی کئی ایک مسائل سے گھری ہوئی ہے۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے بعد سیاسی صورتحال میںبھی کئی ایک تبدیلیاں آگئی ہیں۔ بی جے پی کو جہاں کانگریس کے بڑھتے اثر و نفوذ کامقابلہ ہے،وہیں راہل گاندھی کی پارلیمنٹ رکنیت ختم کرنے اور انہیں سرکاری بنگلہ سے بے دخل کرنے کے بعد عام ووٹروں کی ہمدردیاں بھی کانگریس کے ساتھ ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ادھر اڈانی کے معاملے پر بی جے پی کو سخت سوالات کا بھی سامنا ہے تو راہل گاندھی واقعہ کے بعد سے حزب اختلاف کی جماعتوں کے ایک ساتھ آنے کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔ایسے میں کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج ملک کی سیاست پر بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں۔کرناٹک میں بی جے پی کا مقابلہ کانگریس اور جے ڈی ایس سے ہے۔یہاںپچھلے 2018کے انتخابات میں کانگریس اور جے ڈی ایس نے مل کرحکومت بنائی تھی لیکن 14 مہینوں کے بعد ہی مخلوط حکومت کا تختہ پلٹ کرتے ہوئے بی ایس یدی یورپانے باغی کانگریس ارکان کی مدد سے بی جے پی کی حکومت بنائی۔ یہ الگ بات ہے کہ یدی یو رپا 2برس سے زیادہ وزیراعلیٰ نہیںرہ پائے اور ان کی جگہ بی جے پی نے بسوراج بومئی کو کرناٹک کی کمان دے دی۔اس دوران کرناٹک میں جو کچھ ہوا، وہ ہندوستان کی سیاسی اورمعاشرتی تاریخ کا بدنما داغ تو ہوسکتا ہے لیکن اس کی بنیاد پر بی جے پی کی جیت نہیں ہوسکتی ہے۔بومئی دور میں ہی حجاب کا معاملہ منظرعام پر آیا اور مسلم بچیوں کے سروں سے حجاب نوچ کر انہیں بے پردہ کرنے کی کوشش کی گئی، انہیںتعلیمی اداروں میںداخل ہونے سے روکا گیا اور ہزاروں ہزار مسلم بچیاں آج بھی کالج اورجامعات سے دور ہیں۔ مذہبی اور فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلی، ریزرویشن کے معاملے پر پست ترین سیاست کاریکارڈ بھی بنایاگیا۔ تعلیم و ملازمت میں ریزرویشن کے دو نئے زمرے متعارف کراتے ہوئے 1995میں مسلمانوں کیلئے مختص کوٹہ ختم کردیاگیا۔اسی دور میں بدعنوانی کے بھی کئی سنگین معاملے اجاگر ہوئے۔ ایک ٹھیکہ دار کی خودکشی کے بعد کرناٹک حکومت کے ایک وزیر کو استعفیٰ دینا پڑا۔بی جے پی کے ایک ایم ایل اے کے گھر سے8کروڑ روپے نقد برآمد ہوئے لیکن اس کے باوجود اس کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی معاملہ طول پکڑنے لگاتو اس کی گرفتاری کا ڈرامہ بھی رچاگیا۔
کرناٹک کی یہ سیاسی صورتحال اور بی جے پی کے خلاف عوامی غم و غصہ کو اگر اپوزیشن نے اپنے حق میں ہموار کرلیا تو کرناٹک اسمبلی انتخاب کے نتائج ملکی سیاست کو نیا رخ دے سکتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS