مفتی محمداصغر علی
اسلام کاپہلاکلمہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے ۔ کسی کے مسلمان ہونے کامطلب یہ ہے کہ وہ اس کلمہ پر ایمان رکھتا ہے ۔اسی طرح اگر کوئی کافر، داخل اسلا م ہوناچاہتاہے تو اسے بھی اسی کلمہ کی دل سے تصدیق کرنا اور زبان سے اقرار کر نا اور اس پر ایمان لانا ضروری ہوگا ۔تو گویا اسلام کی شروعات’’ لا‘‘سے ہوئی ، جس کامعنیٰ ہے’’ نہیں‘‘ ۔ یعنی انسان اپنے دل کے سارے اوہام فاسدہ کوحرف ’’ لا‘‘ کے ذریعہ سے کھرچ کر صاف کرڈالے ، اس کے بعد دل کی تختی پر یہ نقش ثبت کرے کہ کائنا ت میںکوئی ذات ، عبادت کے لائق نہیں ، صرف ایک ہی ذات ہے جو لائق عبادت ہے، وہی ذات واجب الوجود ہے،وہی خالق ومالک ہے ، اسی نے کائنات کو وجود بخشا ہے اور اسی کے دم سے یہ سارا سنسار جگمگارہاہے ، یہ ساری کائنات اسی کے حکم کے تابع ہے ، بغیر اس کے اذن کے درخت کا کوئی پتاحرکت نہیں کرسکتا ۔اور اسی ذات کانام ’’اللہ ‘‘ ہے۔
جب انسان نے ’’لا ‘‘کی تلوار سے اپنے دل کے تمام بتوں، اصنام اورتمام معبودان باطلہ کاسر قلم کردیا تو اب اپنے اس پاکیزہ قلب میں اللہ کی وحدانیت ، اوررسو ل اللہ ﷺکی رسالت کی حقیقت وکیفیت کوبسائے ،اور مکمل شرح و بسط اور ایمان ویقین کے ساتھ کہے؛ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِکہ اللہ کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں اور محمد( ﷺ )اللہ کے رسول ہیں ۔
اسلام عمارت کی مانند ہے : حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛ بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلیٰ خَمْسٍ الخ( بخاری ومسلم ) اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم ہے ؛
(۱) اس حقیقت کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، (کوئی عبادت اور بندگی کے لائق نہیں )اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ،(۲) نماز قائم کرنا،(۳)زکوٰۃ ادا کرنا،(۴)حج کرنا ،(۵) رمضان کے روزے رکھنا ۔ اس حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے استعارہ کے طور پر اسلام کو ایک ایسی عمارت کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو چند ستونوں پر قائم ہو۔اور بتلایا کہ یہ عمارت اسلام ان ستونوں پر قائم ہے۔
توحید سب ارکان سے مقدم :ابن ماجہ میں حضرت ام ہانی ؓ سے مروی ہے؛ وہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ُ سے نہ تو کوئی عمل بڑھ سکتاہے اور نہ یہ کلمہ کسی گناہ کو چھوڑ سکتاہے ۔ کسی عمل کا اس سے نہ بڑھ سکنا تو ظاہر ہے کہ کوئی عمل ایسا نہیں ہے جو بغیر کلمہ طیبہ پڑھے کارآمد ہوسکتاہو۔نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ غرض ہر عمل ایمان کا محتاج ہے ۔ اگر ایمان ہے تو وہ اعمال بھی مقبول ہوسکتے ہیں، ورنہ نہیں ۔ اور کلمہ طیبہ جو خود ایمان لاناہے ، وہ کسی عمل کا محتاج نہیں ۔ اسی وجہ سے اگر کوئی شخص فقط ایمان رکھتاہو ایمان کے علاوہ اس کے پاس کوئی عمل صالح نہ ہو تو وہ کسی نہ کسی وقت ضرور انشاء اللہ جنت میں داخل ہوگا۔اور جو ایمان نہ رکھتاہو وہ کتنے ہی پسندیدہ اعمال کرلے نجات کے لئے کافی نہیں ہے ۔
جیسے کسی مکان اورتعمیر میںدرمیانی ستون سب سے اہم ہوتاہے ۔ اسی طرح نیک اعمال کے قیام کے لئے سب سے پہلے توحید (ایمان )کا ہوناضروری ہے ۔لہٰذا ایک شخص لاکھ نماز، روزہ ، زکوٰۃ، حج اور دیگر نیکیوں کا ذخیرہ جمع کر لے؛ مگر اس کے اندر اگر توحید نہیں ہے تو یہ سارے اعمال بیکار ہیں ۔
اول الذکر حدیث شریف میں اسلام کو محل کے ساتھ تشبیہ دینے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مذہب اسلام کی حقیقت لوگوں کو حسّی طور پر سمجھادیاجا ئے کہ جس طرح کسی گھر اور کسی محل میں داخل ہونے کے لئے کوئی راستہ ہوتاہے ۔اسی طرح اسلام بھی ایک محل کی مانند ہے اور اس میں داخل ہونے کے لئے ایک راستہ ہے اور وہ ہے ؛کلمہ طیبہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ یعنی اس بات کی گوہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد(ﷺ) اللہ کے رسو ل ہیں۔
لہٰذا ایک ساٹھ ستر سالہ شخص جس کی پوری زندگی کفر میں گزری ہواور وہ بفضل خدا اسلام کے محل میں داخل ہونا چاہتاہو بالفاظ دیگر مسلمان ہونا چاہتاہو تو اس کے لئے فقط ایک ہی راستہ ہے کہ پہلے وہ اپنی زبان سے خلوص دل کے ساتھ کلمہ طیبہ کا اقرا ر کرے ۔جب وہ اس کلمہ کی تصدیق کرے گا تو مسلمان ہوجائے گا اور اسلام کے محل میں داخل ہوجائے گا۔اس کے برخلاف ایک شخص نماز پڑھتاہے ، روزہ رکھتاہے ،(جیسے الیکشن کے موقع پر غیر مسلم لیڈرا ن اوربہت سے غیر مسلم ، مسلمانوںکو دیکھادیکھی روزہ رکھتے ہیں ) یاکوئی اسلامی لباس کا اہتمام کرتاہے ، بلکہ بعض ختنہ بھی کرالیتے ہیں ،مگر وہ داخل اسلام ہر گز نہیں ہوسکتے تاآںکہ وہ اس کلمہ طیبہ کا اپنی زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرلیں ۔
اسلام سے نکلنے کے بہت سے راستے: یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اسلام میں داخل ہونے کا فقط ایک راستہ یعنی ’کلمہ طیبہ‘ کی تصدیق ہے۔ مگراسلام سے نکلنے کے بہت سے راستے ہیں ۔کیونکہ توحید و رسا لت( کلمہ طیبہ) کی تصدیق کا مطلب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ایمانی کو قبو ل کرتے ہوئے اسلام کو اپنا دین بنانااور پورے مجموعہ دین کو تسلیم کرتے ہوئے ساری ایمانیات پر ایمان لے آناہے ۔
انتہائی افسوس کا مقام :ہمارے معاشرہ میں کم از کم دیندار اور شر یف النفس طبقہ نماز چھوڑنا ، شراب پینا وغیرہ کوگناہ سمجھتاہے (مگر اب و ہ بھی دھیرے دھیرے کم ہورہاہے )لیکن زبان کی بے احتیاطی کو کوئی گناہ تصور نہیں کرتا ۔ جبکہ حدیث میں ہے کہ بہت سے لوگ اسی زبان کی وجہ سے جہنم میں ڈالے جائیں گے ۔چنانچہ ہمارے یہاں بہت سے مسلمان مذاق میں ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جو صریح کفر یہ ہوتی ہیں ۔مثلاً رمضان میں ایک بے روزہ دار مسلمان سے کہاگیا ؛ بھائی! آپ جوان ہیں روزہ رکھئے؛ تو اس نے کہا ؛ روزہ وہ رکھے جس کے گھر میں کھانے پینے کی چیزیں نہ ہوں۔اسی طرح ایک شخص اپنے گھر میں ٹی وی دیکھ رہاتھا اتنے میں مسجد میں اذان پکار دی گئی ،جس سے اس کو خلل ہوا، اور اس نے تحقیر آمیز میں کہد یا ؛ کیا بکواس شروع ہوگئی یا یہاں کی زبان میں کہہ دیا؛ کیا بمڑی شروع ہوگئی۔ اسی طرح آپسی جھگڑے میں ایک فریق نے کہا بھائی !ہم آپس میں قرآن و سنت کے ذریعہ فیصلہ کرلیں گے ۔تودوسرے فریق نے (نعوذ با اللہ)کہدیا؛ ہٹاؤ قرآن حدیث کو، ہم قرآن وحدیث کو نہیں مانتے ۔ تو ایسا کہنے والا شخص خارج اسلام سمجھاجائے گا۔ حالانکہ ان تمام مذکورہ واقعات میں کفریہ بکنے والا کلمہ توحید کا قائل و مصدق بھی ہے مگر اس نے چونکہ اسلام وقرآن اور ایمانیات و ضروریات دین کی تحقیر کی ہے اس لئے اسے خارج اسلام قرار دیاجائے گا۔
تمام انبیاء کی بعثت اسی کلمہ کے ساتھ: چنانچہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدز کریاصاحب ؒنے لکھاہے کہ کلمہ طیبہ جس کو کلمہ توحید بھی کہاجاتاہے ۔جس کثرت سے قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں ذکر کیاگیاہے ۔شاید ہی کسی دوسری چیز ذکر کی گئی ہو ۔اور جبکہ اصل مقصود تمام شرائع اور تمام انبیاء علیہم السلام کی بعثت سے توحید ہی ہے ؛تو پھر جتنی کثرت سے اس کا بیان ہو قرین قیاس ہے ۔کلام پاک میں مختلف ناموں سے اس پاک کلمہ کو ذکر کیاگیا ہے ۔چنانچہ کلمہ طیبہ ،قول ثابت ،کلمہ تقویٰ ،مقالید السمٰوات والارض ،( آسمان و زمین کی کنجیاں )وغیرہ کے الفاظ سے ذکر کیاگیا ہے ۔ ا مام غزالی ؒ نے احیاء میں نقل کیا ہے کہ یہ کلمہ توحید ہے، کلمہ اخلاص ہے ، کلمہ تقویٰ ہے ،کلمہ طیبہ ہے ،عروۃ الوثقیٰ ہے ،دعوۃ الحق ہے ، ثمن الجنہ ہے ۔ qq