سلمان عبدالصمد
علامہ اقبال گرچہ اساسی طور پر اردو کے شاعر تھے، تاہم جہاں مختلف علاقائی زبانوں میں تراجم اقبال کاذخیرہ پایا جاتا ہے، وہیں عالمی زبانوں میں اقبال فہمی کے لیے وافر مواد موجود ہے۔ اسی بنیاد پر کبھی کبھی محسوس ہوتاہے کہ اقبال فہمی پر جو مواد غیر اردو زبان میں تیار ہے، اگر اس کا مطالعہ نہ کیا جائے تو تفہیم اقبال کا حق ادا نہیں ہوسکے گا اور شارحین اقبال، اقبال کی وسعت کو اپنے قابومیں کرنے میں ناکام نظر آئیں گے۔ پروفیسر عبدالرحیم قدوائی نے اقبال پر جن چند مضامین کے اردو تراجم جمع کیے، ان سے استفادے کے بعد مذکورہ مفروضے کو تقویت ملتی ہے کہ تفہیم اقبال کے باب میںدیگر زبان کے ناقدین ودانشوران کے مذعومات ومتعلقات سے استفادہ یک گونہ ضروری ہے۔ بلاشبہ ان مضامین کی قرأت سے فکری تصادمات ہوں گے۔جب اردو اور دیگر زبان میں لکھے گئے مضامین میں تصامات کا معاملہ پیش آئے گاتو جہاتِ اقبال متنوع ہوں گی ۔
اقبال شناسی کے لیے فکرکی گہرائی اور نظر کی گیرائی لازمی ہے۔ کیوں کہ انھوںنے جہاں تاریخی حوالوں کو تخلیقی پیراہن عطا کیا ہے وہیں انھوںنے اسلامی تلمیحات سے اپنی شاعری کو خوبصورت بنایا ہے ۔ اسی طرح اقبال نے احترامِ آدمیت کے مسئلے کو ایک فلسفیانہ رنگ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں احترام ِ آدمیت اورتعظیم ِ انسانیت ایک اہم موضوع بن جاتا ہے ۔ اقبال نے انسانی رفعت اور اس کی فکری بلندی کے لیے اپنی فکر کا معتدبہ حصہ وقف کردیا ہے۔ ظاہر ہے اقبال کی بلند خیالی ، تہہ دار فکراور تاریخی حوالوں کی تفہیم کے لیے جگر کاوی اور قلب سوزی ضروری ہے ۔
کلام ِاقبال کی بنیادی خصوصیت ارتفاعِ انسانیت اورمعراج ِآدمیت ہے۔ان کا شعری نقطۂ عروج احترامِ آدمیت سے مربوط ہے۔ اسی نقطے سے تصورِفر د کی شعاع نکلتی ہے اوراسی روشنی میں سماجی رویے تشکیل پاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس طرح فرد کے معاملات اور سماجی سروکار کے سہارے پوری کائناتِ انسانی اقبال کے موضوعات کی اساس بن جاتی ہے جس پر اقبال گہرائی سے غوروفکر کرتے ہیں۔
تصورِ انسان اور اس کی حقانیت کو اقبال نے جس شد ومد کے ساتھ موضوع بنایا، اس کی نظیرہم عصر شعرا وادباکے یہاں نہیں ملتی۔ اقبال انسانی سماج کے نوحہ گر ہی نہیں بلکہ وہ ارتفاعِ انسانیت کے راز ہائے سربستہ بھی منکشف کرتے ہیں۔ نوحہ گری میں عموماً یاسیت کی شمولیت ہوجاتی ہے۔آنکھیں آبدیدہ ہوتی ہیں۔ متاع ِگم گشتہ دل میں ہیجانی کیفیت اور ذہن ودماغ میں ہلچل مچادیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہیجانی کیفیت میں انسان غوروفکر کی کماحقہ صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ شاید اسی لیے اقبال نوحہ گری کے ساتھ ساتھ ایسی نغمہ ریز فضا بھی تیار کرتے ہیں جس میں ہیجانی کیفیت پیر پسارنے نہ پائے۔البتہ ذہن گدگدا جا ئے۔ اسلاف کی دی ہوئی میراث کے گنواں بیٹھنے کا افسوس ہوتا ہے ، تاہم اظہار ِافسوس کے ساتھ اس کی حصولیابی کے تئیں بھی اقبال ہمیں بیدار کرتے ہیں۔ کوتاہ بیں انسان پر آدمیت کا راز منکشف کرنے کے لیے اقبال جوطریقہ بروئے کار لاتے ہیں،اس کا ایک سرا تصورِفردسے جا ملتا ہے، جب کہ دوسرا انسانی سماج کی صلاح وفلاح سے۔ بایں طور اقبال انفرادی رویوں میں سماجی تانے بانے کو اس طرح پرو دیتے ہیں کہ فرداورسماج ایک اکائی کی صورت میں جلوہ گر ہو تا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ کلام ِاقبال کا مسلسل مطالعہ آدم ِخاکی کے لاشعور میں خودی کی عظمت وآفاقیت کی قندیلیں روشن کردے گا۔شعور ولاشعور میں خودی کی عظمتوں کا آشکار ہونایاپھر تغیر پذیری کی علامتوں کا منقش ہونا، انقلاب پسندی کا اشاریہ ہے ۔اس کا ردِ عمل اس طرح سامنے آئے گا کہ یاسیت وناامیدی کے جال خود بخود ہمیںکترے ہوئے نظر آئیں گے۔انقلابی سرد انگیٹھیاں گرما جائیں گی۔ خودی ، داخلیت کے پروں پر سوار ہوکر خارجیت کی فضا تک پہنچ جائے گی اور ایک ایسا عالم وجود میں آئے گا جس کا نقشہ ہمیشہ متفکر رہنے والے مفکر اقبا ل نے بنایا تھا۔ اقبال بلند خیالی ، فلسفیانہ اظہار وادغام کی دین ہے کہ دیگر زبان کے دانشوروں نے اپنے دانشورانہ اظہار کے لیے اقبال کو بھی اپنے مطالعے کا حصہ بنایا ہے اور فکرِ اقبال سے بھی کشف نور کیا ہے۔ پروفیسر عبدالرحیم قدوائی نے لکھا ہے :
’’یہ امر بڑا معنی خیز ہے کہ خود دانشورانِ فرنگ کی نگاہیں اقبال کے فکروفن کے جلوہ ہائے رنگا رنگ سے خیرہ ہوئیں۔ زیر مطالعہ تصنیف اسی نکتے کی تشریح اور تعبیر ہے کہ بعض باکمال مغربی اہل قلم نے اقبال کے فکر وفن کے متعدد پہلوؤں کو کس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہ مضامین تبرک یا رسمی خراج عقیدت کے زمرے میں نہیں آتے ہیںبلکہ اقبال فہمی کے باب میں وقیع اضافے ہیں۔ تقابلی ادب کے نقطۂ نظر سے بھی ان کی اہمیت اور افادیت اظہر من الشمس ہے۔ ادب کے طلبا کے لیے یقینا یہ امر انتہائی دلچسپی اور توجہ کا باعث ہوگا کہ ایک بالکل ہی مختلف ادبی تہذیبی اور فکری بشمول دینی روایت سے وابستہ افراد کس حد تک اقبال شناسی میں کامیاب رہے ہیں۔‘‘
(عبدالرحیم قدوائی، جلوۂ دانش فرنگ، اقبال پر تنقیدی مضامین کا ترجمہ ، ص 4)
یہ مفروضہ صداقت پر مبنی ہے کہ انگریزی زبان کے جو مضامین ’’ جلوۂ دانش فرنگ‘‘ میں موجود ہیں وہ ایک الگ تنقیدی مزاج سے واقف کرتے ہیں۔ کیوں کہ زبان کی تبدیلی سے بھی ناقدین کے اسلوب ورویے میں تبدیلی آتی ہے ۔ اس کے علاوہ تفہیم کے نئے نئے گوشے وا ہوتے ہیں۔ پیش نظر کتاب میں بشمول مقدمہ دس مضامین شامل اشاعت ہیں ۔ بنیادی طور پر چھ مضامین مغربی ناقدین کے ہیں جن میں سے تین مضامین این میری شمئل کے ہیں اور ایک ایک ای ۔ایم۔فارسٹر، آر۔اے۔نکلس، ہربرٹ ریڈ کے ہیں۔ ان کے علاوہ اسلوب احمد انصاری کا بہترین مضمون شامل ہے۔ ظاہر ہے ان تمام مضامین کا فردا فردا تذکرہ نہ مناسب ہے، اورنہ ہی ایک طالب علم کے پاس ہر ایک پر لب لشائی کی لیاقت ہوسکتی ہے۔ البتہ چند ایک مضامین پر گہری نظر ڈالی جارہی ہے ۔
ای۔ایم۔فورسٹر نے اپنے مختصر مضمون ’’ محمد اقبال ‘‘ میں جہاں اقبال سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا ہے ، وہیں فلسفۂ اقبال پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اقبال کے متصوفانہ فلسفے کی اہمیت اجاگر کی ہے۔ ساتھ ہی نطشے اور فکرِ اقبال کی مماثلت پر بھی اشارے کیے ہیں۔ ان تمام مباحث کے اتصال سے یہ مضمون باوجودیکہ مختصر ہے، وقیع ثابت ہوتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اپنے استحکام نفس اور خودی کے نظریے کو اقبال نے تصوف سے ہم آہنگ کردیا ہے۔ یہ اسی نظریہ کی کارفرمائی ہے کہ وہ ایک عظیم المرتبت شاعر ہیں۔ اس نظریے میں پوشیدہ امکانات کا اندازہ ان کے کلام کے ترجمے تک سے لگا یا جاسکتاہے۔ ان کا تصوف وہ تصوف نہیں جس کا منتہا وصالِ باری تعالیٰ ہے۔ اس معاملے میں اقبال کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے۔ ان کے خیال میں یہ ممکن ہے کہ ہم خداکا دیدار کرسکیں لیکن ہم ہرگز خدا میں فنا ہوکر خدا نہیں بن سکتے، کیوں کہ ہماری طرح خدا بھی ایک انا ہے اور اس نے ہم کو اپنے وجود سے نہیں بلکہ نیست سے تخلیق کیا ہے۔ اقبال کو وحدۃ الوجودکا نظریہ ناپسند ہے جو ہندوستانی فکر میں جابجاملتا ہے اور جو مثلاً ٹیگور کے کلام میں جاری وساری ہے۔ ‘‘
( ای ۔ایم ۔فورسٹر مشمولہ : جلوۂ دانش فرنگ، اقبال پر تنقیدی مضامین کا ترجمہ ، ص 9)
یہ سچی بات ہے کہ اقبال کے فلسفۂ تصوف کا رنگ دیگر شعرا سے مختلف ہے۔ کیوں کہ ان کا تصوف خودی سے جڑا ہوا ہے۔ رازِ دروں کا سلسلہ انھوں نے للہی جذبات سے ملایا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ذات کے اتحاد وادغام کا وہ فلسفہ اقبال کے یہاں نہیں ہے جو دیگر متصوفانہ نظریات رکھنے والے شعرا کے یہاں نظر آتا ہے۔ عقائد کے مدنظر ’ہمہ اوست‘،اقبال اور اسپنگلر کے خیالات ہوں یا دیگر صوفی نظریات،ہرجگہ پورا کا پورا معاملہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کا ہی سامنے آتا ہے۔ چناںچہ ان دونوں نظریات پر غورکرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ۔ فقط عین اور نفسیات کا فرق ہے ۔وحدۃ الوجود کے قائلین کا ماننا ہے کہ خدا اور انسان عین ہے ۔ تاہم وحدۃ الشہود کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ عین تو نہیں ، عینیت کا تعلق جو نظر آتا ہے وہ دراصل حقیقی نہیں ، بلکہ نفسیاتی ہے۔ انسانی عقل ودماغ بھی اسی کے مؤید ہے کہ انسان اور خدا میں غیر معمولی قربت ہوسکتی ہے ، جیسا کہ وجود اور شہود کے قائلین کا ماننا ہے ۔ یعنی اس حد تک دونوں باہم متفق ہیں ، بات صرف اتنی رہ جاتی کہ عینیت کا تعلق ہے یا نفسیا نیت کا۔وحدۃ الوجود پر غورکرنے سے یہ بات لازم آتی کہ جب وجود ایک ہی ہے توخدا اور بندہ میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے اس لیے خلود(حاشا ک اللہ ) انسانی ذات کو بھی میسر ہونا چاہیے ۔ یعنی جب ذات باری اور ذات انسانی میں کوئی فرق نہیں تو اللہ کی طرح ہی بقا انسان کو سزاوار ہونا ہے ، حالاںکہ وحدۃ الوجود کے قائلین بھی اس قول کی تائید نہیں کریں گے کہ انسان کو بقا مستلزم ہے ۔ اس لیے یہ کہنا چاہیے کہ دونوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں۔اختصار میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کل مراد لے لیتے ہیں تو وہاں وحدۃ الوجود کا فلسفہ سامنے آتا ہے اورجز مراد لینے سے شہود کا۔ تاہم اتنا ضرورہے کہ جب وحدۃ الوجود میں غلو کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو مطلب کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے۔آواگون، تناسخ ، حلول اور دیگر مشرکانہ عقائد اپنے بال وپر نکالنے لگتے ہیں۔ اسی غلو کی وجہ سے عیسائیوں کا عقیدۂ تثلیث بھی مضبوط ہوتانظر آتا ہے۔
آر۔اے۔نکلسن کا مضمون ’’ اسرارخودی‘‘ قدرے طویل ہے ۔ فارسی مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ جدو جہد، تزکیۂ قلب ، فکری مہمات ، ڈھلمل یقینی سے احتراز کا فلسفیانہ اظہار ہے۔ مضمون نگار نے جس انداز سے اس مثنوی پر رائے قائم کی ہے اور مسلمانوں کی نظریات کو سامنے رکھ کر جو تجزیہ پیش کیا ، وہ بہت خوب ہے ۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ مثنوی متصوفانہ ان جذبات وخیالات کے منافی ہیںجو فقط ماورائی طاقتوں کی امید پر جدوجہد کو فضول تسلیم کرے۔ ساتھ ہی ساتھ یہاں یہ بھی اندازہ ہوتاہے کہ اقبال نے خودی کے فلسفے میں نہ صرف فرد کو شامل رکھا بلکہ سماج کو بھی پیوست کردیا ہے۔ گویا فلسفۂ اقبال کی خودی میں ہیئت اجتماعیہ کا معاملہ ہے ۔
سماجی تشکیلات اور فردی تصورات کو تمام وکمال کے ساتھ الگ الگ بیان کرنا انتہائی دشوار گزار ہے۔سماجی بنت میں اگر فرد تانے کی حیثیت رکھتا ہے تو جماعت بانے کا مقام رکھتی ہے۔ا قبال کا فلسفۂ ’خودی‘ لفظی شعریات کی حد تک گرچہ تصورِ فرد کا احساس دلاتا ہے، تاہم اس کی جزئیات پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہو تا ہے کہ ’خودی‘ فقط فردِیت سے ہی نشو ونما نہیں پاتی ہے ۔ ’خودی‘ فرد ِ فرید کی ’خودی‘ نہیں ہیئت اجتماعیہ کی خودی بن کر سامنے آتی ہے۔ غور کرنے سے احسا س ہوتا ہے کہ اقبال نے کسی بڑے مجمع کور سمی طور پر مخاطب نہیں کیا کہ وہ اعلی ظرفی او رمستعدی سے کسی قابل ذکرمہم کے لیے تیار ہوجائے،بلکہ انھوں نے فردِ فرید سے ہم کلام ہو کر انفرادی طور پر’مہم ‘ کی دعوت دی ہے۔ انسانی نفسیات بھی یہی ہے کہ اگر فرد اً فرداً لوگوں سے مل کر بات کی جائے تو ہر ایک کے اندر احساس ِ ذمے داری کچھ زیادہ پیدا ہو تی ہے۔ اس طریقۂ کار میں ہر فرد کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ میرے اندر بھی کچھ خوبی ہے اور میں بھی کچھ کرسکتاہوں۔ بطور اکائی ہر فرد احساس ِ ممنونیت یا پھر احساس ذمے داری پر غوروفکر شروع کردیتا ہے ۔’ڈور ٹو ڈور‘مہم سازی کے کیا فوائد ہیں اور انسانی ذہن اس مہم سے کس قدر مانوس ومتاثر ہوتا ہے ، اس کا اندازہ موجودہ معاشرے میں اس نوع کی مہمات اور ان کے اثرات سے بآسانی کیا جاسکتاہے ۔
اسی طرح اقبال کا بھی معاملہ ہے کہ انھوں نے ’خودی‘ کا فلسفہ توپیش کیا، تاہم حقیقی معنوں میںیہ فردکا معاملہ نہیں،بلکہ فرد میں ہیئت اجتماعیہ کی روح پھونکنے کی بھرپور کوشش ہے۔اس طریقۂ کار سے ہر انسان بطور اکائی، احساسِ ذمے داری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یعنی خودی کے تناظر میں اقبال کے یہاں فرض، بحیثیت فرضِ کفایہ نہیں بلکہ فرض عین بن جاتا ہے کہ ہر انسان اپنے اندر چھپے جوہر کو تلاش کرے۔خودی میں ڈوب کر خدائی پیغامات پر عمل پیرا ہو۔ یعنی ڈور ٹو ڈور مہم کی کامیابی کا نتیجہ جس طرح اجتماعی پس منظر میں سامنے آتا ہے،اسی طرح اقبال کی خودی،انفرادی رویوں سے نکل کر،اجتماعی انسلاکات اور سماجی سروکار کا اشاریہ بن جاتی ہے۔
این میری شمئل کا مضمون ’’اقبال کے کلام میں شیطان کا کردار‘‘ انتہائی گھٹا ہوا مضمون ہے۔ اس میں انھوں نے شیطان کی مذہبی حیثیت ، دیگر مذاہب میں شیطان کے تصورات وحقائق اور اقبال کی نگاہ میں شیطان بطور استعارہ کو انتہائی خوب صورتی سے پیش کیا ہے ۔ اس مضمون کا طریقۂ نقد انتہائی موزوں ہے اور سیکھنے سکھانے کے تناظر میں عام ناقدین کے لیے انتہائی قابل قدر بھی ہے ۔ اس مضمون سے ایک اقتباس پیش ہے :
’’کلام اقبال میں شیطان سے متعلق اور مختلف عیسائی اور اسلامی تصورات ایک دلکش وحدت میں سمودیے گئے ہیں۔ ایک دلچسپ اطالوی مقالے میں اے ۔بوسانی نے اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے کلام اقبال میں شیطان کے کردار کے پانچ پہلو ؤں کی نشاند ہی کی ہے، ان کے بقول اقبال کے ہاں شیطان کے کردار کا پرومیتھی پہلو ملٹن سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے۔ پہودی اور اسلامی روایات کے مطابق شیطان خدا کی مخلوق ہے۔‘‘
(این میری شمئل،مشمولہ : جلوۂ دانش فرنگ، اقبال پر تنقیدی مضامین کا ترجمہ ،ص 49)
اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیطان کے حوالے جو باتیں پہلے کہی گئی تھیں ، انھیں ناقدانہ شعار کے ساتھ پیش کردیا ہے۔ حقائق اور تحقیق کو تنقید کا حصہ کیسے بنایا جانا چاہیے ، اس کا اندازہ مذکورہ مضمون سے بھی ہوتا ہے۔ الغرض’’ جلوۂ دانش فرنگ‘‘ میں شامل مضامین پر سرسری نظر ڈالنے سے کئی باتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں :
(۱) پروفیسر عبدالرحیم قدوائی نے مغربی ناقدین کے ایسے چھ مضامین کا ترجمہ پیش کیا جن سے کسی نہ کسی سطح پر فلسفۂ اقبال کے تمام تر سرے ملتے ہیں ۔ یہ مضامین جہاں اپنے آپ میں وقیع اور عالمانہ ہیں، وہیں پروفیسر قدوائی کی نظر انتخاب کے ضمن میں قابل قدر ہیں۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ انھوں نے سیکڑوں مضامین میں سے اگر ان چند مضامین کا ہی انتخاب کیا ہے تو اس کا جواز اقبال کے فلسفے میں پنہاں ہے۔ کیوں کہ ان مضامین زیر بحث لائے گئے فلسفوں کی بنیاد پر کسی حد تک اقبال کی لامتناہی فکرکا اشاریہ تیار کیا جاسکتاہے۔
(۲) ان مضامین کا انتخاب نہ صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ کلامِ اقبال سے پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کس قدر قریب ہیں، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ مغرب میں اقبال شناسی کی کیا روایت ہے اور کن مضامین سے اس روایت کی جھلکیاں سامنے آسکتی ہیں ۔ شاید انھوں نے شعوری کوشش کی ہے کہ مغربی ناقدین کے ایسے مضامین پیش کیے جائیں کے، جن میں مغربی ناقدین کی انفرادیت بھی ہو اورمشرقی ناقدین کے خیالات کی مماثلت بھی ۔ اگر’’ جلوۂ دانش فرنگ‘‘ میں اقبال کے تئیں مغربی ناقدین کے غیر مانوس نظریات پیش کیے جاتے تو اردو میں مغربی ناقدین کے مضامین وہ اہمیت نہیں ہوسکتی تھی ، جو فی الحال ہے ۔ کیوں کہ مشرقی ناقدین نے ان مضامین سے یہ سوچ کر بھی استفادہ کیا ہے کہ فلسفۂ خودی کے تناظر میں آخر مغربی ناقدین کیا سوچتے ہیں۔ یا پھر متصوفانہ معاملات کے تئیں مغربی ناقدین اقبال کو کس حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ظاہر ہے جب مشرقی ناقدین ان ترجمہ شدہ مضامین کو پڑھتے ہیں تو ذہنی وفکری تصادمات کے امکانات واضح ہوتے ہیں اور تقابلی مطالعے کا رجحان سامنے آتا ہے۔
(۳)ان مضامین کی قرأت کے بعد جہاں تقابلی تنقید کا عندیہ بھی ذہن میں پیدا ہوتاہے،وہیں مغربی طرزنقد کا انداز بھی معلوم ہوتا ہے ۔ گویا اس انتخاب میں پروفیسر عبدالرحیم قدوائی نے نہ صرف اقبال شناسی کے مسئلے کو سامنے رکھا ، بلکہ عمومی انداز نقد کو بھی پیش نظر رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان مضامین سے طریقۂ نقد کا ایک منفرد انداز بھی سامنے آتا ہے۔
(۴)یہ مضامین اس بات پر شاہد ہیں کہ ناقدانہ تجزیے میں غیر ضروری اقتباسات یا شعری استشہاد لازمی نہیں ہے۔ مغربی ناقدین متون سے الجھے اور معانی دریافت کیے لیکن اقبال کے چند اشعار کو ہی پیش نظر نہیں رکھا ، بلکہ انھوں نے اقبال کی فکر کو عمومی تناظر میں دیکھا اور سلجھے انداز میں متعدل محاکمہ کیا ۔
(۵)صحافتی یاپھر دیگر نثری چیزوں کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنا قدرے آسان ہے، تاہم عالمانہ مباحث اور فلسفیانہ مسائل کی منتقلی انتہائی پرخطرکام ہے ۔ کیوں کہ اس کام میں جہاں فکری مزاج ومعیار کو بھی منتقل کرنے کی ذمے داری ہوتی ہے،وہیں الجھاوے سے ترجمے کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کے تمام ترجمہ شدہ مضامین کی قرأت سے اندازہ ہوتاہے کہ نہ وہ کہیں فکری التباس کے شکار ہوئے اور نہ ہی انھوں نے اپنی اردو نثر میں جھول آنے دیا ۔ مترجم کی یہی وہ خصوصیت ہے ، جو فن کاری بن جاتی ہے ۔
جلوہ ٔ دانش فرنگ: اقبالیات اور تقابلی تنقید کا استعارہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS