خواجہ عبدالمنتقم
اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں ایک پرامن معاشرہ میں پر سکون زندگی گزاریں تو ہمیں اسکولوں کے نصاب میں تمام مذاہب کی اچھی باتوں کو شامل کرنا ہوگا۔ یہ عمل نہ صرف بچوں کی اخلاقی تربیت کرے گا بلکہ انہیں بہتر انسان بننے کی راہ دکھائے گا۔ دنیا کے تمام مذاہب اسلام، عیسائیت، ہندومت، بدھ مت، یہودیت،جین مت، سکھ مذہب وغیرہ انسانیت، محبت، امن، رواداری، سچائی، انصاف اور احترام جیسے بنیادی اخلاقی اصولوں کی تعلیم دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کے عقائد اور عبادت کے طریقے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ان کی اخلاقی تعلیمات میں بڑی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ آج کی دنیا میں جہاں نفرت، تعصب اور فرقہ واریت بڑھتی جا رہی ہے، وہاں اسکول کے نصاب میں ان تمام مذاہب کی اچھی باتوں کو شامل کرنا ایک مثبت اور تعمیری قدم ہو سکتا ہے۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے مذہبی حساسیت متاثر ہوسکتی ہے۔ مگرایسا نہیں ہے۔اگریہ تعلیمات غیر عقائدی (non-doctrinal) انداز میں، صرف اخلاقی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے دی جائیں تو اس سے اختلافات نہیں بلکہ اتحاد کو فروغ ملے گا۔
جہاں تک ہندو مت کی بات ہے اس میںقدیم بھارتی فلسفہ ’وسودھیوکٹم بکم‘ یعنی ’دنیا ایک خاندان‘ ہے کی بات کہی گئی ہے۔ جس طرح ہر ماں کے دل میں اپنی اولاد کے لیے خاندان کی بہبود مقدم ہوتی ہے، اسی طرح قانونی نظام بھی ایسا ہونا چاہیے کہ جس میں ہر ایک کو انصاف ملے۔ہندو مت میں بھی دیگر مذاہب کی طرح ہنسا، تشدد، جنسی بدکاری، چوری، جھوٹ، جھوٹی گواہی، غصہ، لالچ، غرور، تکبر، نا انصافی،بری صحبت، والدین کی نافرمانی وغیرہ کو پاپ مانا گیا ہے۔ گیتا میں کرشن جی کہتے ہیں: ’’کبھی کسی کو تکلیف نہ دو، سچ بولنے کو اپنا اصول بنا لو۔‘‘
اسلام تو وہ مذہب ہے جو ایک انسان کے قاتل کو پوری انسانیت کا قاتل قرار دیتا ہے اور ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا، اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی۔ اس کے علاوہ قرآنی آیات اور احادیث میں شامل فرمودات و دیگر مشمولات اس با ت کا معتبر ثبوت ہیں کہ اسلام میں بھی دیگر مذاہب کی طرح تشدد یا دہشت گردی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں خطبہ حجۃ الوداع میں حضور اکرمؐ کا یہ فرماناکہ مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں، اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اسلام میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ سب کے سب آدم کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک مرد اور ایک عورت سے یعنی آدم وحوا سے پیدا کیا ہے اور انہیں مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کردیا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کو پہچان سکیں۔اس طرح ہمارے نبی حضرت محمدؐکا پیغام اخوت سب کے لیے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نبیؐ کو خاتم النبیین اور ر حمۃ للعالمین کے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ آنحضرتؐ ہمیشہ نسلی امتیاز سے دور رہے اور سب کے ساتھ برابر کا سلوک کیا۔ آپؐ کی محفل میں شریک ہونے والے افراد کا تعلق تمام شعبوں اور تمام درجات کے لوگوں سے تھا۔نہ کوئی درجاتی تقسیم تھی، نہ کوئی تفریق۔
جہاں تک عیسائیت کی بات ہے بائبل میں تمام انسانوں سے یہ توقع کی گئی ہے کہ وہ سب انسانوں کے ساتھ انصاف کریں اور کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ کریں۔ جس طرح اسلام میں خدا تعالیٰ سے اپنے گناہ معاف کرانے کی بات کہی گئی ہے، اسی طرح عیسائیت میں بھی گنہگاروں کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ وہ خدا سے معافی طلب کریں۔
سکھ مذہب کا تصور بنیادی طور پر ’سیوا ‘ یعنی عملی طور پر خدمت خلق سے وابستہ ہے۔ گردواروں میں لنگر کا انتظام ایک ایسی سماجی خدمت ہے جو یقینی طور پرتعریف کے قابل ہے۔ اس لنگر میں تمام لوگ،خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا سماج کے کسی بھی طبقے سے ہو، شریک ہوکر اپنا پیٹ بھر سکتے ہیں یا اسے تبرک سمجھ کر کھا سکتے ہیں۔ گردواروں کے دروازے خدمت خلق کے لیے چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔
یہودیت میں انصاف رسانی کے عمل اور اصول نصفت کے اصولوں کی پابندی کوعالمی پیمانے پر انسانیت کے جو پیمانے ہیں ان کا حصہ مانا گیا ہے۔ Hebrew Bible میں انسانوں کی زندگی کے تقدس اور انسانی وقار کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ تورات میں مستعمل تزے ڈیک (Tzedek ) اصطلاح سے بھی یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو اور کسی بھی طرح کا تعصبانہ عمل نہ کیا جائے۔
جین مت میں انصاف کے تصور کی بنیاد، بنیادی طور پر اہنسا یعنی عدم تشدد اور کرم یعنی انسان کے اعمال اور کردار پر ہے۔اس مت کی بنیاد انسانوں کے ساتھ ہمدردی، رحم دلی اورمساوات جیسے اخلاقی اصولوں پر ہے۔
پارسی (زرتشتی) مذہب میں انصاف رسانی کوزندگی کا ایک لازمی جز مانا گیا ہے اور اس کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر پارسی کا یہ فرض ہے کہ وہ صحیح راستے پر چلے، کبھی جھوٹ نہ بولے، تمام لوگوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے، بھائی چارے کا مظاہرہ کرے تاکہ سماج میں امن وسکون قائم رہے۔ پارسی مذہب میں ’اشا‘ نامی اصول کو ایک بنیادی اصول مانا گیا ہے۔ ’اشا‘ سے مراد ہے حق، انصاف اوراعتدال۔ اگر اس اصول کو صدق دلی سے عملی جامہ پہنایا جائے تو کسی کے ساتھ بھی ناانصافی کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔
بدھ مت میں بھی انصاف کا تصور کرم (اعمال )کے اصول پرمبنی یعنی انسان جیسا کرے گا، اس کا اسے ویسا ہی پھل ملے گا۔ بدھ مت میں اس بات پر بھی کافی زور دیا گیا ہے کہ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے ساتھ بھی ہمدردانہ رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ نشہ آور اشیا استعمال نہ کرنے، جنسی جرائم سے دور رہنے اور ہمیشہ سچ بولنے کی بھی تلقین کی گئی ہے۔
یہ تمام مثبت اور پیغام رساں معلومات نصاب میں کہانیاں شامل کرکے بھی طلبا تک پہنچائی جا سکتی ہیں جیسے حضرت یوسفؑ کی سچائی، گوتم بدھ کی ہمدردی، کرشن جی کی دانائی، حضرت عیسیٰؑ کی قربانی۔
اس ضمن میں ہمارے اساتذہ اور دانشور بھی اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ اساتذہ کوطلبا کو یہ نصیحت کرنی چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کریں اوراپنے قول وفعل کے ذریعہ کوئی بھی ایسی حرکت نہ کریں جس سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوں۔ہمارے دانشوروں اور مذہبی رہنماؤں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ یہ پیغامات گھر گھر تک پہنچائیںاور انہیں تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کی سفارش کریں۔ڈاکٹر رادھا کرشنن نے بھی اپنی کتاب ’Hindu view of Life‘ میں اس دور کے حالات کے مدنظر دانشوران قوم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی کہ انہیں سماج میں بہتری لانے کے لیے آگے آنا چاہیے۔ فروری 2011کی بات ہے کہ جب سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجو نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں لیکچر دیتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ دانشمندان قوم تو کسی سماج کی آنکھیں ہوتی ہیں اور اگر کسی سماج میں دانشمندوں کا فقدان ہو تو یہ سمجھئے کہ وہ سماج اپنی بینائی سے محروم ہوچکا ہے۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]