انصاف، احتسا ب اور اعتماد

0

انصاف اگر اندھا ہو تو شاید قبول کیا جا سکتا ہے، لیکن جب انصاف بہرا ہو جائے،چیختی صدائوں کو سننے سے انکار کر دے، طاقت کے قدموں میں لرزنے لگے اور کمزور کی فریاد کو کاغذی کارروائی میں گم کر دے تو پھر آئین محض ایک رسمی کتاب اور عدلیہ صرف ایک خالی عمارت بن کر رہ جاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں ہندوستانی عدلیہ کے حوالے سے یہی اندیشے عام شہری کے ذہن میں پختہ ہوتے جا رہے ہیں، اس پس منظر میں چیف جسٹس آف انڈیا، جسٹس بی آر گوائی کی میلان(اٹلی) میں کی گئی تقریر ایک روشن چراغ کی مانند دکھائی دیتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ روشنی محض تقریر تک محدود رہے گی یا واقعی اندھیروں کو چیرنے کی طاقت رکھتی ہے؟
جسٹس گوائی نے ’’ملک میں سماجی و اقتصادی انصاف کی فراہمی میں آئین کا کردار: ہندوستانی آئین کے 75 سال‘‘ کے موقع پر بین الاقوامی قانونی برادری سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ ’بلڈوزر جسٹس‘ یعنی ریاستی طاقت کا وہ ماڈل جو شہریوں کو سزا سنائے بغیر ہی ان کے مکانات اور جائیدادیں منہدم کرتا ہے، آئینی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گھر محض اینٹوں اور گارے کا مجموعہ نہیں بلکہ برسوں کی محنت، خوابوں، امیدوں اور تحفظ کی علامت ہوتا ہے اور ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر فرد کے وقار، تحفظ اور مادی بھلائی کی ضامن بنے۔
ان کے ان بیانات کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے انہدامات کے سلسلے میں اہم ہدایات جاری کیں جن میں واضح طور پر کہا گیا کہ پیشگی نوٹس، قانونی کارروائی کی تکمیل اور شہری کو صفائی کا موقع دیے بغیر کوئی مکان نہیں گرایا جا سکتا۔ عدالت نے خبردار کیا کہ اگر ریاستی ادارے ان ہدایات کی خلاف ورزی کریں گے تو وہ مجرمانہ توہین کے مرتکب سمجھے جائیں گے۔ یہ فیصلہ بلاشبہ قانون کی حکمرانی اور شہری آزادی کے حق میں ایک تاریخی قدم ہے۔

لیکن مسئلہ صرف فیصلے دینے کا نہیں، ان پر عمل درآمد اور ان کے محافظوں کی دیانت داری کا ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ مہینوں میں عدلیہ کے اندر ہی ایسے دو واقعات سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس ادارے کی غیرجانبداری اور اخلاقی وقار پر گہرے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ایک طرف الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو کا وہ بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے مبینہ طور پر کہا کہ ملک کو اکثریتی طبقے کے مطابق چلنا چاہیے جو آئینی سیکولرازم، مساوات اور اقلیتوں کے تحفظ کے اصولوں سے صریح انحراف ہے۔ یہ تبصرہ نہ صرف جمہوریت کے اصولوں کی تذلیل تھی بلکہ اس کرسی کی حرمت کے بھی خلاف تھا جس پر بیٹھ کر فیصلے قوموں کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔

دوسری جانب دہلی میں جسٹس یشونت ورما کی سرکاری رہائش گاہ پر آگ لگنے کا واقعہ جس کے بعد بڑی مقدار میں جلی ہوئی کرنسی نوٹوں کی موجودگی کے ثبوت سامنے آئے، عدلیہ کی اندرونی شفافیت پر ایک گہرا دھبہ بن کر ابھرا ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ اور درجنوں گواہوں کے بیانات اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ معاملہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ مالی بدعنوانی، غفلت اور عدالتی منصب کی بے توقیری کی سنگین علامت ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جہاں جسٹس ورما کے خلاف مواخذے کی کارروائی برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے، وہیں جسٹس یادو کے خلاف 50ارکان کے دستخط سے راجیہ سبھا میں دائر کی گئی شکایت پر نہ کوئی کارروائی ہوئی، نہ ہی تحقیقاتی کمیٹی بنی۔
یہ دوہرا معیار عدلیہ کی اخلاقی بنیادوں کو کھوکھلا کرتا ہے۔ اگر ایک جج کے فرقہ وارانہ تبصرے پر آنکھیں موند لی جائیں اور دوسرے کے خلاف فوری عدالتی قدم اٹھایا جائے تویہ سمجھنامشکل نہیں ہے کہ عدل کا ترازو کس کے ہاتھ میں ہے؟

چیف جسٹس گوائی نے اپنی تقریر میں درست کہا کہ آئین محض ایک گورننس کا ضابطہ نہیں بلکہ ایک انقلابی عہد اور ہر طرح کی معاشرتی اور اقتصادی نابرابری کے خلاف مزاحمت کا اعلان ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ آئین کی سب سے بڑی آزمائش اس وقت ہوتی ہے جب اس کی محافظ خود عدلیہ اپنی داخلی صفائی سے گریز کرے۔ کیا یہ تضاد نہیں کہ ایک طرف سپریم کورٹ قانون کی حکمرانی پر خطبہ دے اور دوسری طرف اس کے اپنے ادارے میں تعصب، بدعنوانی اور جانبداری کے الزامات کی فہرست طویل ہوتی جائے؟
یہ لمحہ فکریہ ہے۔ کیونکہ اگر عدلیہ کی دیانت پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا تو پھر اس ملک کی ہر عمارت ریت کی دیوار ثابت ہوگی۔ سوال یہ نہیں کہ چیف جسٹس نے کیا کہا، سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنی تقریر کے الفاظ کو نظام عدل میں اتارنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپنے منصب کی حرمت کی حفاظت کیلئے خود اپنی صفوں میں موجود سیاہ دھبوں کو مٹانے کیلئے تیار ہیں؟

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS