بس دیکھتے رہیے، 2024 کے آنے تک!: صبیح احمد

0

صبیح احمد

دونوں طرف لگی ہے آگ برابر۔ اپوزیشن اور برسراقتدار دونوں ہی اتحادوں نے 2024 کے لوک سبھا الیکشن کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیا ہے۔ اپنی اپنی اتحادی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے دونوں ہی گروپوں نے 18 جولائی کو دہلی اور بنگلورو میں بڑے پیمانے پر میٹنگیں کیں۔ حالانکہ برسراقتدار این ڈی اے بالخصوص بی جے پی کے لیڈروں نے نفسیاتی دبائو بنانے کیلئے اپوزیشن اتحاد کی پٹنہ میٹنگ کا مذاق اڑانے کی کوشش کی تھی لیکن اس میٹنگ کی کامیابی نے خود این ڈی اے کو نفسیاتی دبائو میں مبتلا کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی خفت کے ازالہ اور طاقت کے مظاہرہ کے لیے انہوں نے اپوزیشن کی بنگلورو میٹنگ کے دن یعنی 18 جولائی کو ہی دہلی میں وزیراعظم مودی کی قیادت میں میٹنگ رکھ لی۔ بہرحال بی جے پی نے بھی اپنے نئے پرانے سبھی اتحادیوں کو منانے کی کوششیں شروع کر دیں اور پارٹی صدر جے پی نڈا نے آناً فاناً اپنے ناراض اور نئے دوستوں کو خط بھیجنا شروع کر دیا۔ ادھر چھوٹی چھوٹی علاقائی پارٹیوں نے بھی دھیرے دھیرے اپنے پتے کھولنے شروع کر دیے ہیں۔ گزشتہ اتوار (16 جولائی) کو اس سلسلے میں 2 اہم واقعات رونما ہوئے۔ راج بھر نے جہاں این ڈی اے میں باضابطہ شمولیت اختیار کرلی، وہیں کانگریس نے مرکز کے آرڈیننس کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کر کے اپوزیشن اتحاد کی ایک اہم کڑی مضبوط کرلی ہے۔ او پی راج بھر کی سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی اور جینت چودھری کے راشٹریہ لوک دل کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں اور کجریوال کی عام آدمی پارٹی کے حوالے سے بھی تذبذب برقرار تھا، لیکن اب تینوں ہی کھل کر میدان میں آ گئے ہیں۔ راج بھر نے جہاں این ڈی اے کا دامن تھام لیا ہے، وہیں جینت چود ھری نے بنگلورو میں ہونے والی اپوزیشن اتحاد کی دوسری میٹنگ میں شرکت کے لیے حامی بھر کرکے تمام قیاس آرائیوں پر روک لگا دی ہے۔ کانگریس کے اعلان کے بعد اب کجریوال بھی اپوزیشن خیمے میں شامل ہوگئے ہیں۔
جہاں اپوزیشن پارٹیوںکی بنگلورو میں دوسری میٹنگ ہوئی، وہیں برسراقتدار بی جے پی نے بھی اپنے پرانے اور نئے اتحادیوں کے ساتھ18 جولائی کو دہلی میں میٹنگ کی۔ اگرچہ این ڈی اے کی میٹنگ پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کے آغاز سے صرف 2 دن پہلے ہوئی، لیکن اس کا مقصد اجلاس کے دوران فلور کوآرڈی نیشن نہیں تھا بلکہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل این ڈی اے کے اتحادیوں کے درمیان بہتر تال میل پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ وزیراعظم نریندر مودی کی موجودگی والی این ڈی اے میٹنگ کو حکمراں اتحاد کی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی بی جے پی کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ مودی حکومت کے دوسرے دور میں پہلی بار اس پیمانے پر این ڈی اے کی میٹنگ ہوئی۔ 2024 کے عام انتخابات میں بی جے پی سے لڑنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی صف بندی کے ساتھ زعفرانی پارٹی نے بھی اپنے سابقہ حلیفوں کے ساتھ نئے سرے سے بات چیت اور این ڈی اے میں نئی جان پھونکنے کی کوشش میں اپنے موجودہ اتحادیوں کے ساتھ رشتے کو مزید مضبوط کرنا شروع کر دیا ہے۔
ایکناتھ شندے کے زیر قیادت شیو سینا کے علاوہ میٹنگ میں حصہ لینے والے این ڈی اے کے اتحادیوں میں بہار کی کئی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ شمال مشرقی علاقے سے کئی برسراقتدار اتحادی بھی شامل ہیں۔ ان میں بہار سے چراغ پاسوان کی قیادت والی ایل جے پی(رام ولاس)، اپیندر کشواہا کی راشٹریہ لوک سمتا پارٹی، سنجے نشاد کی نشاد پارٹی کے ساتھ انوپریہ پٹیل کے زیر قیادت اپنا دل(سونی لال)، ہریانہ سے جے جے پی، آندھرا پردیش سے پون کلیان کی قیادت والی جن سینا، تمل ناڈو سے اے آئی اے ڈی ایم کے، تمل مانیلا کانگریس اور انڈیا مکل کالوی منیترا کژگم، جھارکھنڈ سے آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹس یونین (اے جے ایس یو)، میگھالیہ سے کونراڈ سنگما کی این سی پی، ناگالینڈ سے این ڈی پی پی، سکم سے ایس کے ایف، زورمتھنگا کی میزو نیشنل فرنٹ اور آسام سے اے جی پی شامل ہے۔راج بھر اور چراغ پاسوان کی باضابطہ این ڈی اے میں واپسی ہوگئی ہے۔
فعال سیاست میں حال ہی میں اپنا قدم پیچھے ہٹانے کے بعد بنگلورو میں منعقد ہونے والی اپوزیشن جماعتوں کے دوسرے مشترکہ اجلاس میں شرکت کرنے کے سونیا گاندھی کے فیصلے کا مقصد ان کے اتحاد کی کوششوں کے بارے میں کانگریس کی سنجیدگی کااشارہ دینا لگتا ہے۔ سونیا کی موجودگی اہم ہو سکتی ہے اگر حزب اختلاف کی جماعتیں گروپ کو ایک رسمی ڈھانچہ دینے پر سنجیدگی سے عمل کریں۔ سونیا گاندھی کا زیادہ تر اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ بہترین تال میل ہے۔ جہاں تک اپوزیشن اتحاد کی کنوینرشپ کا معاملہ ہے، اس حوالے سے سونیا گاندھی کی موجودگی کافی اہم ہوسکتی ہے۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ کانگریس قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتی ہے اور متحدہ اپوزیشن کیمپ کا محور بنی رہنا چاہتی ہے۔ 2004 میں اپوزیشن کیمپ کو مضبوط قیادت فراہم کرنے والی سونیا گاندھی کا کرشمہ مختلف سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں ایک بار پھر کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے۔ بنگلورو میٹنگ میں ممتا بنرجی کی شرکت کو لے کر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا تھا، لیکن وہ بھتیجے ابھیشیک بنرجی کے ساتھ میٹنگ میں شامل ہوئیں۔ اپنا دل(کرشنا پٹیل گروپ) نے بھی میٹنگ میں شرکت کی۔ پٹنہ میٹنگ میں مرکز کے دہلی آرڈیننس کے خلاف کانگریس کی حمایت کی شرط رکھے جانے کے بعد دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال کے حوالے سے بھی غیر یقینی کی صورتحال بنی ہوئی تھی لیکن آرڈیننس کے خلاف کانگریس کے موقف کے سامنے آنے کے بعد عام آدمی پارٹی بھی اپوزیشن اتحاد میں شامل ہو گئی ہے۔
ایسے میں اگر اپوزیشن تمام سیٹوں پر مشترکہ امیدوار کھڑا کرنے پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اسے کانگریس اور سونیا گاندھی کی بڑی کامیابی تصور کیا جائے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ سونیا گاندھی کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ پٹنہ اجلاس کے بعد اچانک کانگریس اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں اہم کردار میں نظر آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس نے نہ صرف اس اجلاس کو اپنی حکمرانی والی ریاست میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا بلکہ سونیا گاندھی کو اس کے مرکز میں لا کر کھڑا کردیا۔ کانگریس کو یہ طاقت ہماچل پردیش اور کرناٹک کے اسمبلی انتخابات سے ملی ہے۔ ملک کے مسلم ووٹروں نے جس طرح مختلف انتخابات میں کانگریس کو اپنی متفقہ حمایت کا اشارہ دیا ہے، اس سے یہ مانا جا رہا ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس مضبوط پوزیشن میں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ووٹوں کے دیگر دعویداروں نے کانگریس کے ساتھ آنے کو اپنے مفاد میں سمجھا ہے۔ یہ فیکٹر اپوزیشن اتحاد کے قیام میں کارگر دکھائی دے رہا ہے۔ ان حالات کے درمیان کانگریس اپوزیشن اتحاد کے محور کے طور پر ابھر سکتی ہے جس سے نہ صرف کانگریس مضبوط ہوگی بلکہ 2024 کی لڑائی کو بھی دلچسپ بنا سکتی ہے۔
ادھر بی جے پی بھی اپنے خیمے کو مضبوط کرنے میں جی توڑ کوشش کر رہی ہے۔ این ڈی اے اپنے ناراض اتحادیوں کو منانے میں مصروف ہے اور میٹنگ کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ فی الحال تو دونوں خیموں میں اس بات کی دوڑ لگی ہے کہ کس اتحاد میں چھوٹی بڑی کتنی پارٹیاں شامل ہیں۔ اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ کس پارٹی میں کتنا دم ہے یا کون سی پارٹی کتنا ووٹ لا سکتی ہے یا دلا سکتی ہے۔ ابھی نمبر گیم چل رہا ہے۔ جیسے جیسے الیکشن کے دن قریب آتے جائیں گے، پھر ’آیا رام-گیا رام‘ کا دور بھی شروع ہوگا۔ بس دیکھتے رہیے، 2024 کے آنے تک!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS