او بی سی تنازع کا عدالتی تصفیہ

0

ریاست مغربی بنگال کی نئی او بی سی فہرست کو لے کر جو آئینی اور عدالتی بحران پیدا ہوا تھا،وہ اب سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد بظاہر کسی حل کی طرف بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ کلکتہ ہائی کورٹ کی جانب سے 17 جون 2025 کو جاری کردہ حکم امتناعی نے نہ صرف ریاست کی ایگزیکٹیو اتھارٹی کو چیلنج کیا،بلکہ لاکھوں طلبا و ملازمت کے خواہش مند افراد کو ایک ایسے قانونی بھنور میں دھکیل دیا،جہاں ان کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہوگیا تھا۔ اس سارے معاملے میں جو سب سے اہم بات ابھری ہے،وہ یہ ہے کہ آئینی اداروں کے درمیان اختیارات کی حدود کا تعین اور سماجی انصاف کی روح کو زندہ رکھنے کی ذمہ داری کس کے سر ہے۔

کلکتہ ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں مغربی بنگال حکومت کی جانب سے جاری کردہ نئی او بی سی فہرست کو اس بنیاد پر کالعدم قرار دیا کہ اس کی پشت پر کوئی قانون سازی نہیں تھی اور بظاہر مذہب کو واحد بنیاد بنایا گیا۔ 2024 کے اس فیصلے کے تحت 2010 کے بعد جاری کیے گئے تمام او بی سی سرٹیفکیٹس کو غیر موثر قرار دے دیا گیا،جس سے اندازاً پانچ لاکھ افراد براہ راست متاثر ہوئے۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق مسلم برادری سے تھا،جنہیں اب تک او بی سی کے طور پر تسلیم کیا جاتا رہا۔ اس کے بعد جب ریاست نے ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا تو ہائی کورٹ میں اس کے خلاف توہین عدالت کی عرضی داخل کی گئی اور عدالت نے فوری طور پر نوٹیفکیشن پر بھی روک لگا دی۔

اس پیچیدہ صورتحال میں سپریم کورٹ کی مداخلت فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ 28 جولائی 2025 کو چیف جسٹس آف انڈیا، جسٹس بی آر گوائی کی قیادت میں بنچ نے کلکتہ ہائی کورٹ کے حکم امتناعی پر فوری طور پر روک لگا دی۔ بنچ نے دوٹوک انداز میں کہا کہ پہلی نظر میں یہ حکم مکمل طور پر غلط ہے۔ عدالت نے اندرا ساہنی کیس 1992 کا حوالہ دیتے ہوئے یاد دلایا کہ نو رکنی آئینی بنچ پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ پسماندہ طبقات کی شناخت ایگزیکٹیو ہدایات کے ذریعے بھی کی جاسکتی ہے۔ گویا، سپریم کورٹ نے نہ صرف ریاستی حکومت کے حق میں فیصلہ دیا،بلکہ آئینی اصولوں کی بالادستی اور ایگزیکٹیو کے اختیارات کو تسلیم کرنے کی مثال قائم کی۔

یہ فیصلہ مغربی بنگال کے تعلیمی اور روزگار کے منظرنامے میں خاصی تبدیلی لانے والا ہے۔ محکمہ تعلیم کے مطابق ریاست میں انجینئرنگ داخلہ امتحان کے نتائج تاخیر کا شکار تھے اور ہائر سیکنڈری نتائج کے باوجود کالجوں میں داخلے ممکن نہیں ہو پارہے تھے۔ کالجوں میں داخلے کیلئے آخری تاریخ کو بڑھایا گیا، جبکہ اساتذہ کی بھرتی کے امتحانات میں بھی غیر یقینی پیدا ہو چکی تھی۔ وکیل کپل سبل اور کلیان بنرجی نے سپریم کورٹ کے سامنے دلیل دی کہ محض او بی سی نوٹیفکیشن کے اسٹے کی وجہ سے 40 ہزار اساتذہ کی بھرتی،9 لاکھ طلبا کے داخلے اور متعدد ترقیاں رک گئی ہیں۔ ایسے میں عدالت عظمیٰ کی مداخلت نہ صرف آئینی توازن کی بحالی ہے بلکہ سماجی انصاف کی سمت ایک ٹھوس قدم بھی۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اس پورے قضیہ میں فریق مخالف کے وکیل رنجیت کمار نے ریاست پر سنگین الزامات عائد کیے، تاہم عدالت نے ان کی دلیل کو قبول نہیں کیا۔ اس کے برعکس،چیف جسٹس نے کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک نئی بنچ تشکیل دینے اور چھ سے آٹھ ہفتوں میں فیصلہ نمٹانے کی ہدایت دی۔ ساتھ ہی یہ عندیہ بھی دیا کہ اس معاملے کی اگلی سماعت دو ہفتوں بعد ہوگی،جہاں مزید دلائل اور جوابات کا جائزہ لیا جائے گا۔

سیاسی سطح پر بھی اس فیصلے کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ ممتا بنرجی اور وزیر تعلیم برتیا باسو نے اسے ریاست کی اخلاقی فتح قرار دیا ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ ایک بار پھر او بی سی ریزرویشن کی ضرورت اور آئینی حیثیت کو سپریم کورٹ نے تسلیم کیا۔ یہ بات واضح ہوگئی کہ پسماندہ طبقات کی ترقی کیلئے ایگزیکٹیو اختیارات کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ آئینی طور پر مضبوط بنیاد رکھتا ہے۔

یہ مسئلہ صرف مغربی بنگال تک محدود نہیں بلکہ ملک بھر میں او بی سی ریزرویشن کی پالیسی،اس کی تشکیل،اس کے اطلاق اور عدالتی جائزے کے دائرے میں ایک مثال بن گیا ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ نہ صرف لاکھوں طلبا اور امیدواروں کیلئے ایک نئی امید بن کر آیا ہے بلکہ یہ پیغام بھی دے گیا کہ جمہوریت صرف ووٹ سے نہیں،انصاف سے بھی مضبوط ہوتی ہے۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS