واشنگٹن، (یو این آئی): امریکی کانگریس کی رکن مارجوری ٹیلر گرین کا کہنا ہے کہہ سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کا تعلق اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کی مخالفت سے ہو سکتا ہے، اور یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا اب ان کی یا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زندگی کو بھی اسی طرح کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے منگل کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا ہے : “کینیڈی ایک عظیم صدر تھے جنہیں امریکی عوام میں بڑی مقبولیت حاصل تھی۔ انہوں نے اسرائیل کے جوہری پروگرام کی مخالفت کی ، اور پھر انہیں قتل کر دیا گیا۔”
انہوں نے مزید کہا: “کیا مجھے اب یہ محسوس کرنا چاہیے کہ میری زندگی خطرے میں ہے؟ اور صدر ٹرمپ کے بارے میں کیا خیال ہے جنہوں نے آج صبح ایران پر حملے جاری رکھنے پر اسرائیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے؟”
ان کے یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب ٹرمپ نے اسرائیل کو ایران پر مزید فضائی حملے کرنے سے خبردار کیا اور اسے جنگ بندی معاہدے کی “سنگین خلاف ورزی” قرار دیا۔
گرین نے ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے والے حالیہ امریکی فوجی حملوں پر بھی تنقید کی ہے اور ان جنگوں کو “غیر ملکی مفادات” کے لیے نہ ختم ہونے والی جنگیں قرار دیا ہے۔
انہوں نے ایک الگ پوسٹ میں لکھا ہے کہ : ” صرف حکومت کی تبدیلی، غیر ملکی جنگوں، اور فوجی صنعت کے منافع کے لیے امریکی فوجی مارے گئے ہیں اور جسمانی و ذہنی طور پر ہمیشہ کے لیے تباہ ہو چکے ہیں ۔ میں اس چیز سے تنگ آ چکی ہوں۔”
سرکاری تحقیقات کے مطابق، سابق امریکی میرین لی ہاروی اوسوالڈ کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، لیکن یہ قتل طویل عرصے سے قیاس آرائیوں اور سازشی نظریات کا موضوع رہا ہے۔
اپنی صدارت کے دوران، کینیڈی نے اسرائیل کی جوہری خواہشات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ 1963 میں، انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم داود بن گوریون پر زور دیا کہ وہ ڈیمونا جوہری تنصیب کے بارے میں شفافیت اختیار کریں، اور خبردار کیا کہ مسلسل راز داری امریکی حمایت کو “سنگین خطرے” میں ڈال سکتی ہے۔تاہم، اس تنازعے کو کینیڈی کے قتل سے جوڑنے کے لیے کوئی عوامی طور پر تصدیق شدہ شواہد موجود نہیں ہیں۔
گرین کے بیانات کو سیاسی مخالفین اور تجزیہ کاروں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن کا کہنا ہے کہ ان کے بیانات غیر مصدقہ دعووں کو طول دینے کا خطرہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کینیڈی کے قتل اور اسرائیل کی جوہری پالیسی کے درمیان تعلق کے حوالے سے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔