ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
عالمی برادری کی توجہ ان دنوں یوکرین پر جاری روسی جارحیت کی طرف مرکوز ہے اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل اٹھا رہا ہے۔ اسے خوب معلوم ہے کہ روسی ملٹری آپریشن کے نتیجہ میں جو انسانی، اقتصادی اور سیکورٹی مسائل کے چیلنجز دنیا کو درپیش ہیں ان کے پیش نظر فلسطینیوں کے مسائل کی طرف دنیا کی توجہ بہت کم مبذول ہوپائے گی اور اسی لئے اسرائیل موجودہ حالات سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے تیزی کے ساتھ اپنے آبادکاری اور توسیعی ارادوں کو بروئے کار لانے میں مصروف عمل ہے۔ اسرائیل کے اس سامراجی پلان کے خلاف فلسطینی عوام ہمیشہ کی طرح پوری جرأت سے کھڑے ہوکر ان کی فوج اور پولیس کا مقابلہ کرتے ہیں اور اپنی جان و مال کا نذرانہ اس راہ میں پیش کر رہے ہیں۔ رمضان جیسے مقدس مہینہ میں اب تک کئی فلسطینی نوجوان اور بچے اسرائیلی فوج اور پولیس کی گولیوں کا شکار ہوکر جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ مغربی ممالک اور اس کے صحافیوں کو گرچہ یوکرین معاملہ کی وجہ سے ان دنوں ایک بہانہ ملا ہوا ہے کہ جنگ کی ہولناکی انہیں اتنی فرصت ہی میسر نہیں ہونے دیتی کہ وہ فلسطین کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم کو دور کرنے یا فلسطینیوں کی قربانیوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا حق ادا کر سکیں۔ لیکن اس پورے معاملہ کا سچ یہ ہے کہ دراصل یوکرین پر جاری جارحیت نے مغرب کے چہرہ سے دوغلے پن کے اس نقاب کو الٹنے میں مدد کی ہے جو کئی دہائیوں سے اس پر پڑا ہوا تھا۔ خود بین الاقوامی قانون کی رو سے مسجد اقصیٰ ایک مقبوضہ علاقہ مانا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سی مغربی حکومتیں برسہا برس تک اپنے دوہرے معیار کی بنا پر فلسطینی عوام کے تئیں منصفانہ موقف اختیار کرنے سے گریز کرتی رہی ہیں۔ اگر ان مغربی ملکوں نے قضیہ فلسطین پر یوکرین معاملہ جیسی حق پسندی کا ثبوت دیا ہوتا تو آج ہزاروں فلسطینی جانیں بچ جاتیں اور مشرق وسطی کا پورا خطہ امن و سلامتی کا گہوارہ ہوتا۔
مسجد اقصیٰ کے ساتھ جو بدسلوکی اور بے حرمتی اسرائیل اور صہیونی انتہا پسندوں کے ذریعہ روا رکھی جا رہی ہے اس کا آغاز 1967 میں ہوا تھا۔ اس برس محض چھہ دنوں کے اندر اسرائیل نے عرب کی متحدہ فوج کو جن میں بطور خاص مصر، شام اور اردن شامل تھے کو بری طرح شکست دے دی تھی اور مصر و شام اور اردن کی زمینوں کے علاوہ خود مشرقی پروشلم یا شہر قدس کو اپنے قبضہ میں کر لیا تھا۔ اس جنگ میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست کا ایسا نفسیاتی اثر عربوں پر پڑا کہ انہوں نے دوبارہ پھر کبھی اسرائیل کا مقابلہ بطور متحد محاذ کے کرنا گوارہ نہیں کیا اور اس طرح عرب۔ اسرائیل معاملہ صرف اسرائیل۔ فلسطین معاملہ بن کر رہ گیا۔ اسی جنگ نے مصر کے انقلابی صدر جمال عبدالناصر کی عرب قومیت کا خاتمہ بھی ہمیشہ کے لئے کر دیا۔ تب سے فلسطینی عوام ہی اسرائیلی جارحیت کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں جبکہ عرب حکمراں اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی خاطر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں لگ گئے ہیں۔ بہر کیف مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی زیادتیوں کی تاریخ کی طرف لوٹتے ہیں۔ قبلہ اول کے ساتھ سب سے مذموم حرکت 1969 میں کی گئی تھی۔ اس سال واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ صہیونیوں نے اللہ کے اس مقدس گھر کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ اسلام سے اس کا رشتہ کاٹ کر یہودیت سے جوڑ دیا جائے لیکن وہ اپنی اس کوشش میں ناکام ہوگئے۔ اس کے بعد بدنام زمانہ اسرائیلی لیڈر اور سابق فوجی جنرل ارئیل شیرون نے ستمبر 2000 میں مسجد اقصیٰ کے اندر اپنے جوتوں سمیت گھسنے کی قابل مذمت حرکت کی تھی اور مسجد اقصیٰ کی حرمت کی پامالی کا مرتکب قرار پایا تھا۔ یہ واقعہ اس اعتبار سے مزید باعث تکلیف ہے کہ اس کے بعد کئی نمازیوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ ہر طرف غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی۔ جرأت مند فلسطینی عوام نے ارئیل شیرون کی اس گستاخانہ حرکت پر سخت احتجاج کیا تھا اور اپنے گہرے ایمانی جذبہ کا ثبوت دیتے ہوئے ہر طرح کی قربانیاں پیش کی تھیں اور عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کرانے میں مکمل طور پر کامیاب ہوگئے تھے۔ اس پرامن عوامی تحریک کو فلسطین کی تاریخ میں ’اقصیٰ انتفاضہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دراصل 1967 سے اسرائیلی اتھارٹی لگاتار یہ کوشش کرتی آ رہی ہے کہ مسجد اقصی اور اس کے قرب و جوار کے علاقہ کو خالص یہودی رنگ میں رنگ دیا جائے اور اسلام سے اس کا رشتہ منقطع کر دیا جائے۔ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بند ایجنڈہ کے تحت تدریجی طور پر کیا جا رہا ہے اور اسی لئے پولیس اور فوج کی نگرانی میں صہیونی شدت پسند روزانہ دو بار مسجد اقصیٰ میں گھس جاتے ہیں اور نمازیوں پر حملے بھی کرتے ہیں۔
اسرائیل نے 1980 میں شہر قدس کو باضابطہ طور پر یہودی زمین قرار دے کر یہ اعلان کر دیا تھا کہ قدس ہی اسرائیل کی واحد اور ابدی راجدھانی کہلائے گی۔ البتہ عالمی برادری نے اسرائیل کے اس اقدام کو مسترد کر دیا تھا اور آج بھی بین الاقوامی قانون میں یروشلم یا مشرقی قدس کو مقبوضہ علاقہ ہی مانا جاتا ہے۔ اس قانون کی رو سے اسرائیل کو یہ حق نہیں ہے کہ اس علاقہ میں کوئی تصرف کرے۔ لیکن اس نے مغرب بالخصوص امریکہ کی حمایت میں کبھی اس قانون کی پاسداری نہیں کی اور مسلسل فلسطینی زمین پر یہودیوں کو بسانے اور فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اسرائیل نے ٹرمپ کے زمانہ میں سب سے بڑی جیت تب حاصل کر لی تھی جب اس امریکی صدر نے پہلی بار وہ کر دیا تھا جو اس سے پہلے کسی صدر نے نہیں کیا تھا۔ ٹرمپ نے یہودی لابی کو خوش کرنے کے لئے مشرقی یروشلم پر اسرائیلی موقف کی حمایت کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ کو وہاں منتقل کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا۔ لیکن عالمی برادری کی بھاری اکثریت نے اس امریکی اقدام کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ خود بہت سے یہودی مذہبی رہنما اور روحانی پیشوا بھی مسجد اقصی سے متعلق صہیونی موقف کی تائید نہیں کرتے ہیں اور یہودی انتہا پسندوں کو منع کرتے ہیں کہ وہ اپنی موہوم تمنا یعنی ’جبل ہیکل‘کی طرف چڑھ کر نہ جایا کریں۔ انصاف پسند یہودی روحانی پیشواؤں کے بقول ایسا کرنا یہودیوں کے لئے حرام ہے۔ دراصل بعض یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ’جبل ہیکل‘مسجد اقصیٰ کے نیچے ہے لیکن یہودیوں کے مذہبی رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد اس بات سے انکار کرتی ہے اور اسی لئے وہ 1967 میں قدس پر اسرائیلی قبضہ کے بعد سے ہی ‘‘جبل ہیکل’’ کے علاقہ میں داخلہ سے یہودیوں کو روکتے رہے ہیں۔ یہودی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ ہیکل کی تلاش میں مسجد اقصیٰ میں گھس آنا قانون طہارت کی صریح خلاف ورزی ہے کیونکہ مذہبی نقطٔ نظر سے اس کی تحدید نہیں کی جاسکتی کہ ہیکل ثانی کس جگہ واقع ہے۔ چونکہ ہیکل کی تحدید ممکن نہیں ہے اس لئے اس بات کا پورا امکان ہے کہ یہودی اپنے مذہبی جوش میں سب سے مقدس مقام کی حرمت کی پامالی کا ارتکاب کر بیٹھیں گے۔ یہودی روحانی پیشوا حال کے دنوں تک یہودیوں کو ‘‘جبل ہیکل’’ کی طرف چڑھ کر جانے سے روکتے رہے ہیں۔ 2014 میں یہودیوں کے ایک سفاردی یہودی رہنما نے اپنے ہم مذہبوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو یہودی مسجد اقصیٰ میں گھس کر اس کی حرمت کو پامال کرتے ہیں وہ بنی اسرائیل کی خوں ریزی کے اولین ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ عربوں کو ناحق اشتعال دلاتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایسے یہودی اس شخص کے مانند ہے جو آگ پر تیل ڈالنے کا کام کرتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان روحانی پیشواؤں کی باتوں کا کوئی اثر انتہا پسند یہودیوں پر ہوتا ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ اس کے برعکس 2013 میں اہرام سنٹر فار پالیٹیکل اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی ایک تحقیق کے مطابق 59 فیصد یہودی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ حرم شریف کی موجودہ صورت کو بدل کر یہودی رنگ میں رنگ دیا جائے۔ شہر خلیل میں حرم ابراہیمی کے ساتھ ایسا کیا بھی جا چکا ہے۔
مذہبی مقدسات کے ساتھ بے حرمتی کا مسئلہ صرف مسجد اقصیٰ یا حرم شریف تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ عیسائیوں کی عبادتگاہوں کے ساتھ بھی یہی سلوک جاری ہے۔ اس برس ایسٹر یا عید الفصح کے موقع پر عیسائیوں کو ان کے مقدس ترین گرجا گھر میں داخل ہونے سے روک دیا گیا اور اسی لئے ان کا معروف ترین گرجا گھر جسے ’قیامہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے عابدوں سے محروم رہا اور اب وہاں وہ چہل پہل بھی نہیں رہتی ہے جو 1967 سے قبل دیکھنے کو ملتی تھی۔ ایسا کرنا عبادت کی آزادی کے قطعاً منافی ہے لیکن اسرائیل کی یہ من مانی تب تک جاری رہے گی جب تک اس کو بین الاقوامی قوانین پر کاربند ہونے کے لئے مجبور نہ کیا جائے۔ اور اس کا امکان تبھی ہوسکتا ہے جب مغربی ممالک اپنے دوہرے معیار سے توبہ کریں اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق اقدام کریں۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا تب تک ہر معصوم کی موت اور ہر انسان کی مذہبی آزادی کی راہ میں رکاوٹ کے لئے اسرائیل کے ساتھ ساتھ مغربی دنیا بھی برابر کی ذمہ دار مانی جائے گی۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں