ہندوستان کی معاصر اقتصادی تاریخ میں اگر کسی اقدام نے گائوں کے کچے راستوں سے لے کر شہروں کی بلند عمارات تک یکساں طور پر اپنی گونج پیدا کی ہے تو وہ ہے ’’پردھان منتری جن دھن یوجنا‘‘۔ یوم آزادی 2014 پر لال قلعہ کی فصیل سے وزیراعظم نریندر مودی نے جس اسکیم کا اعلان کیا،اس نے ابتدائی دنوں میں جیسے ایک انقلاب کی صورت اختیار کرلی۔ صرف افتتاحی دن 1.5کروڑ بینک کھاتے کھولے گئے اور اگلے گیارہ برسوں میں یہ تعداد بڑھتے بڑھتے 55.44کروڑ تک جا پہنچی،جن میں 56 فیصد خواتین کے نام پر کھولے گئے کھاتے ہیں۔ ان کھاتوں میں جمع رقم 2.5لاکھ کروڑ روپے سے تجاوز کر چکی ہے،جو کہ کاغذ پر ایک شاندار کامیابی کا ثبوت ہے۔
لیکن ہر کامیابی کی چمک کے پیچھے کچھ سائے بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح جن دھن اسکیم کی تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔اگر مالی شمولیت کا خواب اتنے بڑے پیمانے پر شرمندہ تعبیر ہوا ہے،تو پھر سوال یہ ہے کہ ملک کی معیشت میں وہ انقلابی بہتری کیوں نظر نہیں آ رہی،جس کا وعدہ کیا گیا تھا؟
سچ یہ ہے کہ لاکھوں افراد،جن کے نام پر کھاتے کھولے گئے، وہ نہ صرف ان سے ناواقف ہیں بلکہ ان کی مالی حالت میں کوئی خاطرخواہ بہتری نہیں آئی۔ دیہی علاقوں میں کھولے گئے کئی کھاتوں میں برسوں سے کوئی لین دین نہیں ہوا، جنہیں اب غیر فعال یا Inactive Accounts کہا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں،یہ کھاتے نہ صرف حکومت کے دعوئوں کو مشکوک بناتے ہیں بلکہ سائبر مجرموں کیلئے ایک آلہ کار بھی بن چکے ہیں۔
یہ ایک المناک تضاد ہے کہ جن دھن یوجنا جیسے فلاحی پروگرام، جن کا مقصد غریبوں کو مالیاتی نظام میں شامل کرنا تھا،وہی آج بدعنوانی اور فریب کا آلہ بن چکے ہیں۔ دیہی باشندے،جن کی ناخواندگی،تکنیکی لاعلمی اور معاشی پسماندگی نے انہیں پہلے ہی محرومیوں کے شکنجے میں جکڑ رکھا تھا،اب سائبر مجرموں کیلئے تر نوالہ بن چکے ہیں۔ ایک طرف ان کے نام پر جعلی لین دین ہوتے ہیں اور دوسری طرف وہ خود اپنی لاعلمی کی قیمت چکاتے ہیں،کبھی اپنی زمین بیچ کر قرض چکاتے ہیں تو کبھی پولیس اور عدالتوں کے چکر کاٹتے ہیں۔
ریزرو بینک کے ’’مول ہنٹر‘‘(MuleHunter) آپریشن کی رپورٹ کے مطابق،صرف بینک آف انڈیا کے تحت غیر فعال جن دھن کھاتوں سے 147 کروڑ روپے کی مالی دھوکہ دہی کی جا چکی ہے،وہ بھی محض چھ ماہ کے عرصے میں۔ مزید برآں، گزشتہ مالی سال میں13,516ڈیجیٹل فراڈز کے ذریعے 520 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف عددی نہیںبلکہ ان کروڑوں امیدوں کی شکست کی کہانی سناتے ہیں جنہیں جن دھن اسکیم کے ذریعے جگایا گیا تھا۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ بینکنگ سسٹم میں شامل کروڑوں شہری جو مالی شمولیت کی اصطلاح سے بھی ناآشنا ہیں،ان کے نام پر کھاتے کھولے گئے اور آج وہی کھاتے دھوکہ دہی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ حکومت نے اگرچہ باضابطہ طور پر ان کھاتوں کو بند کرنے کا اعلان نہیں کیا،لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ بینکوں کو ایسے کھاتوں کی فہرست تیار کرنے اور انہیں ختم کرنے کی ہدایت دی جا چکی ہے۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ابتدائی دنوں میں جن دھن یوجنا کوJAM یعنی جن دھن،آدھار،موبائل کے طور پر پیش کیا گیا، جس کا مقصد ڈیجیٹل معیشت کی بنیاد مضبوط کرنا اور فلاحی اسکیموں کی شفاف ترسیل کو یقینی بنانا تھا۔ لیکن آج،ان ہی تین ستونوں کے سہارے فراڈ کا ایک مافیا پروان چڑھ رہا ہے۔
یہ تمام تر صورت حال اس امر کی متقاضی ہے کہ حکومت محض اعداد و شمار کی بازی گری سے گریز کرے اور اس حقیقت کا سامنا کرے کہ ’’بینک کھاتے کھولنا‘‘ اور’’مالی شمولیت‘‘ دونوں ایک جیسے عمل نہیں ہیں۔ اگر کوئی کھاتہ برسوں سے غیر فعال ہے تو یہ صرف ایک عددی خانہ پری کرنے سے زیادہ کچھ نہیں،بلکہ نظام کی خامی کا بین ثبوت ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اب دعوئوں اور نعروں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرے۔ ہر کھاتے دار کو اس کے حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں تعلیم دی جائے،بینکنگ انفرااسٹرکچر کو دیہی علاقوں میں مزید مضبوط کیا جائے اور سب سے بڑھ کر،فراڈ سے نمٹنے کیلئے سخت قانون سازی کے ساتھ ساتھ مؤثر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔بصورت دیگر،جن دھن یوجنا جیسی عظیم اسکیمیں صرف انتخابی ہتھیار بن کر رہ جائیں گی اور مالی شمولیت کا خواب، فریب کی تلخ حقیقت میں بدل جائے گا۔