نئی دہلی: دہلی فسادات پر دائر دہلی پولیس کی چارج شیٹ کو یکطرفہ، متعصبانہ، اور خاص ذہنیت کی تکمیل پر مبنی اور قانون کی خلاف ورزری قرار دیتے ہوئے جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ جمعیۃ متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے تمام ممکنہ قانونی طریقے اختیار کرے گی۔ اس کے لئے وکلاء کی ٹیم تشکیل کردی گئی ہے۔یہ بات جمعیۃ کے جاری بیان میں کہی گئی ہے۔
انہوں نے سی اے اے کے خلاف تحریک چلانے والوں کی اندھادھند گرفتاریاں اور دہلی فسادات میں یکطرفہ کارروائیوں پر الزام لگایا کہ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ لاک ڈاؤن کے درمیان بھی خاص طور پر مسلم اقلیت کے خلاف اپنے خفیہ ایجنڈے کو پورا کرنے کے لئے ارباب سیاست کی طرف سے پولیس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ کرونا کے خوف سے لوگ جب گھروں سے باہر نکلنے کا حوصلہ بھی نہیں کرپارہے تھے، اس وقت سی اے اے کے خلاف تحریک چلانے کے الزام میں بے گناہ مظلوم مسلمانوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ افسوس کہ سابق بیوروکریٹ ہرش مندر جیسے انسانی حقوق کے کارکن اور شاہین باغ میں لنگرلگا کر کھانہ تقسیم کرنے والے ایک انسانیت نواز سکھ ڈی ایس بندراکو بھی پولیس کے ذریعہ ملزم بنا یا گیا ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ پورے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ پولس کا کیا رویہ رہتا ہے اس کو سمجھنے کیلئے تلنگانہ ہائی کورٹ کا حالیہ تبصرہ کافی ہے،قابل ذکر ہے کہ تلنگانہ ہائی کورٹ نے ایک پی آئی ایل کی سماعت کرتے ہوئے پولس کو لاک ڈاؤن کے دوران مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ مقدمات درج کرنے پر پھٹکار لاگاتے ہوئے حیدرآباد پولس سے سوال کیا کہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیوں کے خلاف سب سے زیادہ مقدمات مسلمانوں کے خلاف ہی کیوں درج کئے گئے کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی نہیں کی۔ سماعت کے دوران بینچ نے مشاہدہ کیا کہ لاک ڈاؤن کے دوران پولس کا اس اقلیت کے ساتھ ظالمانہ سلوک تھا۔
مولانا نے دعوی کیا کہ ہندوستان میں کہیں بھی فساد ہو وہ فساد نہیں بلکہ پولیس ایکشن ہوتا ہے۔ دہلی میں بھی پولیس کا یہی کردار ہے اور تمام حکومتوں میں ایک چیز مشترک نظر آتی ہے کہ حملہ بھی مسلمانوں پر ہوتا ہے اور مسلمان مارے بھی جاتے ہیں اور انہیں کے مکانات و دکان کو جلایا جاتا ہے اور سنگین مقدمات لگاکر گرفتار بھی کیا جاتا ہے۔ دہلی میں بھی پولیس اور سیکورٹی ایجنسیاں ملک سے غداری یو اے پی اے اور طرح طرح کے سنگین مقدمات کے تحت گرفتار کر رہی ہے اور گرفتار کیے گئے مسلمانوں کے خلاف متعصب میڈیا ٹرائل کرکے مسلمانوں کے خلاف ماحول بنارہا ہے۔ مولانانے کہاکہ اس فساد میں جن53لوگوں کی موت ہوئی تھی، ان میں مسلمانوں کی تعداد38بتائی جاتی ہے جو پولس کے سایہ میں فسادیوں کے ہاتھوں انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل ہوئے، لیکن پولیس نے ان میں سے چند ہی لوگوں کے معاملے میں تحقیقات کی ہے اور باقی لوگوں کے قتل کی ذمہ داری نامعلوم فسادیوں کے سر ڈال دی گئی ہے۔ اس کے برعکس آئی بی افسر انکت شرما اور کانسٹبل رتن لال کی موت کے معاملے میں درجنوں مسلمانوں کو نامزد کر کے چارج شیٹ بنائی گئی ہے۔