جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک مشترکہ وراثت: پروفیسر محمدقطب الدین

0

پروفیسر محمدقطب الدین

جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام 29 اکتوبر 1920کو علی گڑھ میں عمل میں آیا اور پھر 1925میں علی گڑھ سے دلّی منتقل کردیاگیا۔یہ کوئی ایسا زمانہ نہیں تھا جہاں مسلمانوں کی تعلیم کا بندوبست نہ ہو بلکہ ایک طرف علی گڑھ کالج تھا جسے برٹش حکومت کی سرپرستی میں یونیورسٹی بنانے کی جدوجہد جاری تھی تو دوسری طرف مایۂ ناز دینی ادارہ دیوبند۔ بلاشبہ علی گڑھ کالج نئی نسل کو عصری تعلیم اور مغربی تہذیب و تمدن سے متعارف کرانے میں مشغول تھا اوراسے انگریزی حکومت کا مالی و علمی تعاون حاصل تھا ۔اُدھر دیوبند تحریک اور اس کا مدرسہ تھا جس کی بنیاد ہی خالص دینی تعلیم اور انگریزی کی ہر چیز سے نفرت پر رکھی گئی تھی ۔

اُدھر گاندھی جی اور مولانا محمد علی جوہر ؒ کی سرپرستی میں برطانوی حکومت کے خلاف عدم تعاون اور ترکِ موالات کی تحریک نے زور پکڑنا شروع کردیا تھا جس کے نتیجے میں آزادی کے متوالے طلبا و اساتذہ نے ان اسکولوں،کالجوں اور اعلیٰ تعلیم گاہوں سے نکل جانے کاعزم مصمم کرلیا جنھیں انگریزی حکومت کا تعاون حاصل تھا۔اس ردعمل کے اثر سے علی گڑھ کالج بھی نہ بچ سکا۔بالآخر ایک متبادل اور علی گڑھ و دیوبند کے امتزاج کے طور پر شیخ الہند مولانامحمود حسن ؒ کے مبارک ہاتھوں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا جو اعلیٰ عصری تعلیم کے لیے ایک آزاد دانش گاہ تھی جس کے نظام عمل پر اسلامی چھاپ اور قوم کی ترقی اور وطن پرستی کا عنصرغالب ہو۔اس ادارے نے اپنے مقصد کے مطابق مسلمانانِ ہند کے مستقبل کی تشکیل کی اور وطن عزیز کے لیے مرمٹنے کا جذبہ پیداکیا ،یہ علی گڑھ اور دیوبند کا سنگم ثابت ہوا اور بقول شیخ محمد اکرام :’’جو اپنی کوتاہیوں کے باوجود علی گڑھ اور دیوبند کے درمیان مل کر کام کرنے والوں کا آج سب سے بڑا مرکز ہے۔(موجِ کوثر۔ ص: 204 )

جامعہ کے اغراض و مقاصد مسیح الملک محسن اعظم حکیم اجمل خاںؒ نے یوں بیان کیے: ’’باوجود دیگر مصروفیات اور دیگر ہجوم کارکے ہم نے اپنا ملّی فریضہ سمجھا کہ اس جامعہ کی بنیاد رکھ دیں اور اپنی جدید تعلیم کے وہی مقاصد رکھیں جن کی طرف ہم اشارہ کرچکے ہیں یعنی ایسے مسلمان پیدا کرنا جو مذہب سے صرف واقف ہی نہیں بلکہ اس پر سختی سے عامل بھی ہوں۔جو اپنے ماضی سے بخوبی آشنا اور اپنے مستقبل سے آگاہ ہوں ۔جو دنیا میں اپنے اور اپنی قوم کے وجود کی اصلی حیثیت جانتے ہوں اور اپنے مذہب کے مبلغین کی صف میں ایک مفید فرد کی حیثیت سے شامل ہوسکیں۔وہ جدید علو م سے ضرور واقف ہوں لیکن نمونہ ہوں اسلامی طرزِ زندگی کا ۔وہ اپنی روزی کمانے میں کسی کے دست نگر نہ ہوں اور ایک خوددار مسلمان کی طرح زندگی بسر کرسکیں۔۔۔‘‘ (اوراقِ پریشاں۔مرتبہ: رضیہ سلطان۔ ص: 265 )

جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام گویا ہندوستان میں اس وقت کے تعلیمی وسماجی اور تہذیبی دنیا میں ایک ایسا انقلاب تھا جس کے اغراض و مقاصد ہم عصر تعلیم گاہوں سے بالکل منفرد تھے۔جس میں ایک طرف اسلامی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے عصری علوم پر دسترس حاصل کرنے کی تلقین تھی تو دوسری جانب وطن پرستی اور قومی اتحاد کا درس کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔جامعہ کو اپنی جان سے بھی عزیز رکھنے والے اور اس کی تعمیر وترقی میں ہر طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنے والے ڈاکٹر ذاکرحسینؒ نے 1946 میں جامعہ کی سلور جبلی کے موقع پرجامعہ کے مقاصد کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے لکھا تھا:’’جامعہ کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی آئندہ زندگی کاایسا نقشہ تیار کرے جس کا مرکز اسلام ہو اوراس میں ہندوستان کی قومی تہذیب کا وہ رنگ بھرے جو عام انسانی تہذیب کے رنگ میں کھپ جائے۔ اس کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ مذہب کی سچی تعلیم ہندوستانی مسلمانوں کو وطن کی محبت اور قومی اتحاد کا سبق دے گی اور ہندوستان کی آزادی اور ترقی میں حصہ لینے پر آمادہ کرے گی اور آزاد ہندوستان دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر دنیا کی زندگی میں شرکت اور امن و تہذیب کی مفید خدمت کرے گا۔۔۔جامعہ کا دوسرا مقصدیہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی آئندہ زندگی کے اس نقشے کو سامنے رکھ کر ان کی تعلیم کا ایک مکمل نصاب بنائے اور اس کے مطابق ان کے بچوں کو جو مستقبل کے مالک ہیں ،تعلیم دے۔علم محض روزی کی خاطر جو ہمارے ملک کی جدید تعلیم کااصول ہے اور علم محض علم کی خاطر جو قدیم تعلیم کا اصول تھا ،جامعہ دونوں کو بہت تنگ اور محدود سمجھتی ہے۔وہ علم کو زندگی کی خاطر سکھانا چاہتی ہے جس کے وسیع دائرے میں مذہب،حکمت ا ور صنعت ،سیاست اور معیشت سبھی کچھ آجاتاہے۔(ذاکر صاحب۔ مرتبہ : ضیاء الحسن فاروقی ۔ص:106)

جامعہ ملیہ اسلامیہ اپنے اعلیٰ مقاصد کو لے کر آگے بڑھا اور ابھی چار سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ 1924میں خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا۔نتیجہ کے طورپر ہندوستان میں بھی تحریک ِ خلافت کی کوئی وقعت نہ رہی اور جامعہ کا مالی تعاون بند ہوگیا۔اب قریب تھا کہ جامعہ دم توڑدے اور بانیانِ جامعہ کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے۔مگر اس کے کچھ طلبا ، اساتذہ اوراراکین نے ہمت سے کام لیا اور ذاکرصاحب جو اس وقت جرمنی میں زیر تعلیم تھے ،ان کو حالات سے باخبر کیاگیا۔ذاکر صاحب اور ان کے رفقا نے ہر حالت میں جامعہ کو زندہ رکھنے کی ٹھان لی اور وطن واپسی کے بعد اسے مالی بحران سے نجات دلانے اور اس کے مقاصد کی تکمیل میںانھوں نے رات دن ایک کردیے۔

جامعہ نے ہندوستان کی تعلیمی ،سیاسی اور تہذیبی زندگی پر ایک گہری چھاپ چھوڑی ہے اور اس طویل سفر میں سخت ترین آزمائشوں سے دوچار اور عجیب کشمکش کے دور سے گزری مگر ان تمام ہمت شکن ماحول میں اور فرقہ وارانہ نفرت و تشدد کی تیزو تند آندھیوں کے بیچ تعلیم و تربیت ، تعمیر و ترقی ،اتحاد و اتفاق اور باہمی محبت و خیرسگالی کے دیے جلاتی رہی ۔اس کا دروازہ بلا کسی امتیاز کے ہر کسی کے لیے کھلا ہے اور ہندوستانی و بیرون ہند کے طلبا اس کے چشمۂ علم و معرفت سے فیض یاب ہوکر انسانیت کی خدمت کررہے ہیں۔جامعہ نے علوم و فنون کے ہر شعبہ میں ایسے ماہرین پیدا کیے جو ملک و قوم کے لیے نیک نامی کا سبب بنے ۔ اس عظیم درس گاہ نے ہندوستانی عوام کوتعلیمی و تربیتی اور تہذیبی ہر اعتبار سے بے حدمتاثرکیا اور اس کے عظیم کام کو تعلیمی حلقوں میں نہ صرف ملک بلکہ بیرونِ ملک میں بھی مقبولیت حاصل ہوئی ۔

جامعہ عہد حاضر کی ایک جدید طرزکی یونیورسٹی کی حیثیت سے دنیا بھر میںمشہور ہے اور ملک و قوم کی بلاتفریق مذہب وملت ان ضرورتوں کو پوراکرنے میں مصروف ہے جن کا خواب مولانا محمد علی جوہر ؒ،شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ،حکیم اجمل خانؒ،ڈاکٹر ذاکر حسینؒ،گاندھی جی اور دیگر ہمدردانِ قوم وملت نے دیکھا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ہزار مشکلات اور نامساعد حالات کے باوجودیہ اَب تک سرگرم عمل ہے۔ملک و قوم کی خدمت ہی جامعہ کی ترقی اور اس کے بقا کی ضامن ہے،کیوں کہ بقول ڈاکٹر ذاکرحسینؒ :’’اگر جامعہ ملک و قوم کی ضرورت کو پوری نہیں کرتی تو وہ نہیں چلے گی اور نہ وہ اس کی مستحق ہوگی۔لیکن اگر وہ کوئی مفید خدمت کررہی ہے تو قانونِ قدرت اسے زندہ رکھے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اسے فنا نہیں کرسکے گی۔‘‘(ذاکر صاحب،ضیاء الحسن فاروقی ۔109)

جامعہ نہ صرف ایک تعلیمی ادارہ ہے بلکہ یہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و وراثت اور اتحاد و اتفاق کی بہترین علامت بھی ہے جس کی حفاظت اور اسے پروان چڑھانا سماج کے ہرفرد کی ذمے داری ہے۔

(مضمون نگار شعبۂ عربی ،جے این یو میں استاذ ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS