سپریم کورٹ نے ایک بار پھر دہلی فسادات سازش کیس میں ضمانت کی درخواستوں کی سماعت کو موخر کر دیا۔آج یعنی 19 ستمبر کو جب سب کی نظریں عدالت عظمیٰ پر جمی تھیں کہ شاید پانچ برس سے قید شرجیل امام اور عمر خالد کو انصاف کی کوئی کرن دکھائی دے گی،تو اچانک یہ اعلان ہوا کہ سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ جج صاحب کی زبان سے یہ جملہ نکلا ’’آئٹمز 3،4،4.1 اور 5 پیر کو اٹھائے جائیں گے‘‘۔ گویا پانچ برس سے قید افراد کے بنیادی انسانی حق کو محض ایک ’’آئٹم نمبر‘‘ میں درج کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک انصاف محض کل کی امید پر ملتوی ہوتا رہے گا؟
یہ کوئی پہلا موقع نہیں۔ 12 ستمبر کو بھی یہی کہا گیا تھا کہ فائلیں رات کے ڈھائی بجے ملی ہیں اس لیے کارروائی ممکن نہیں۔ آج پھر یہی کہانی دہرائی گئی۔ یوں لگتا ہے جیسے عدالت ضمانت کی درخواستوں کو سننے کے بجائے ان پر تقویم کا کھیل کھیل رہی ہے۔ جسٹس بی آر گوائی خود کہہ چکے ہیں کہ ’’ضمانت اصول ہے،جیل استثنا‘‘۔ مگر دہلی فسادات کے ملزمان کے معاملے میں یہ اصول صرف کتابی جملہ بن کر رہ گیا ہے۔
اعداد و شمار چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں کہ نظام عدل نے اپنی روح کھو دی ہے۔ ملک کی جیلوں میں 3.75 لاکھ سے زیادہ زیر سماعت قیدی ہیں جو کل قیدیوں کا 74.2 فیصد ہیں۔ دہلی فسادات سے جڑے 695 مقدمات میں خود پولیس نے ملزمان کو بری کیا،صرف 19 مقدمات میں سزا ہوئی۔ 93 بریت کے فیصلوں میں عدالتوں نے صاف کہا کہ ایف آئی آرز جھوٹی تھیں، گواہ من گھڑت تھے اور شواہد فرضی۔ لیکن ان جھوٹے مقدمات کے باوجود عمر خالد اور شرجیل امام آج بھی پانچ سال سے قید ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے یا محض سیاسی انتقام؟
ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت بارہا مسترد کی اور کہا کہ انہوں نے ’’بڑے نظریے‘‘ کا حصہ بن کر سازش کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا احتجاج کرنا،تقریر کرنا اور آئینی حقوق کا دفاع کرنا ’’بڑا نظریہ‘‘ ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر جمہوریت خود سب سے بڑی سازش ٹھہرتی ہے۔ اور اگر عدالت اس منطق کو مانتی ہے تو یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ جمہوریت کا گلا گھونٹنے میں عدلیہ بھی شریک ہے۔
عمر خالد کے والد سید قاسم رسول الیاس نے بجا کہا کہ پانچ سال کی جیل نے ان کے بیٹے کی روح نہیں توڑی لیکن اصل سوال یہ ہے کہ عدالتی رویے نے ہندوستانی جمہوریت کی روح کو کہاں لا کر کھڑا کر دیا ہے؟ جب ملزموں کی ضمانت کی درخواستیں بار بار ملتوی ہوں،جب عدلیہ کے پاس فائلیں وقت پر نہ پہنچنے کا بہانہ ہو،جب قیدی برسوں بغیر ٹرائل کے سلاخوں کے پیچھے ہوں،تو صاف ظاہر ہے کہ صرف افراد نہیں بلکہ پورا عدالتی نظام قید ہو چکا ہے۔
یہ محض قانونی معاملہ نہیں، یہ جمہوریت کی ساکھ کا سوال ہے۔ اگر ضمانت کا اصول صرف طاقتوروں کیلئے ہے اور کمزوروں کیلئے جیل کا دروازہ ہی کھلا ہے تو یہ عدالت نہیں،طاقت کی بارگاہ ہے۔ دہلی پولیس پہلے ہی جھوٹی ایف آئی آرز اور جعلی گواہوں کے کھیل میں پکڑی جا چکی ہے،اب اگر عدالت بھی اپنی روشنی بجھا دے تو انصاف کا چراغ کہاں روشن ہوگا؟
سپریم کورٹ کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ محض ایک کیس نہیں،یہ پورے نظام عدل کی جانچ ہے۔آج عدالت نے ایک بار پھر فیصلہ ملتوی کیا ہے،مگر ملتوی دراصل انصاف ہوا ہے۔ پانچ برس سے قید ان قیدیوں کے ساتھ ساتھ آج عدلیہ بھی قید کر دی گئی ہے۔ اگر پیر کو بھی یہی تماشا دہرایا گیا تو یہ صرف چند قیدیوں کی قید نہیں رہے گی بلکہ پورا جمہوری نظام اپنی آزادی کھو دے گا۔ تاریخ پھر یہی لکھے گی کہ عدالت نے انصاف کو ملتوی کرتے کرتے قید کر دیا۔
edit2sahara@gmail.com