عبیداللّٰہ ناصر
ایک بار پھر ایک طاقتور ملک نے پڑوس کے کمزور ملک کو دبانے نہیں بلکہ ہڑپ کر لینے کے لیے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اکیسویں صدی کی مہذب دنیا میں پھر خوگر اسکندری کا مظاہرہ ہو رہا ہے اور دنیا ساحل کی تماشائی بنی ہوئی ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد تشکیل ادارہ اقوام متحدہ جس پر عالمی امن اور استحکام قائم رکھنے کی ذمہ داری ہے، ’ٹکر ٹکر دیدم دم نہ کشیدم‘ کی مثال بنا ہوا ہے کیونکہ اس کی تشکیل میں ہی بنیادی خرابی ہے۔ انجینئرنگ ڈیفیکٹ ہے۔اس نے دنیا کو شروع میں ہی طاقتور اور کمزور دو طبقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ پانچ بڑے طاقتور ملکوں کو سیکورٹی کونسل کے رکن بنا کر ان کے ہاتھوں میں ویٹو کا اختیار دینا اور ان کے سامنے جنرل اسمبلی کے ڈیڑھ سو سے زائد ملکوں کا بے بس ہونا اس جمہوریت کا مذاق اڑانا نہیں تو اور کیا ہے جس کی بنیاد ہی اکثریت سے فیصلہ کرنے کے اصول پر قائم ہے۔ روس اور یوکرین کے سلسلہ میں بھی وہی ہو رہا ہے جو اقوام متحدہ کی تشکیل کے دن سے لے کر آج تک ہوتا رہا ہے۔ دنیا کا ہر ملک چاہتا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ نہ ہو لیکن روس کے پاس ویٹو کا اختیار ہے، اس لیے یہ قرارداد ڈھیر ہوگئی۔ جنرل اسمبلی میں معاملہ جائے گا، سبھی ملک روس کے خلاف اپنی بھڑاس نکالیں گے لیکن پوتن کا ہاتھ پکڑنے کی جرأت کسی میں نہیں ہوگی۔اقوام متحدہ عراق کی تباہی کا خاموش تماشائی بنا رہا، فلسطین کو لے کر اسے سانپ سونگھ ہی چکا ہے اور اب یوکرین اس کی کم مائیگی،بے بسی اور اور اس کے اذکار رفتہ ہوجانے کا ایک اور جیتا جاگتا ثبوت بن گیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد امید تھی کہ اب جنگ کو مسائل کے حل کا ذریعہ نہیں سمجھا جائے گا۔ یوروپ میں اس جانب خاصی پیش رفت بھی ہوئی لیکن ایشیا افریقہ اور اب وسطی ایشیا میں جنگ اپنے منحوس پنکھ پھیلائے ہوئے ہے۔
افغانستان میں اس وقت کے سوویت یونین کی احمقانہ مہم جوئی کا منطقی انجام اس کے بکھراؤ کی شکل میں سامنے آیا تھا۔ وسطی ایشیا کے وہ تمام ملک جو سوویت یونین کا حصہ تھے، الگ اور آزاد ملک بن گئے تھے۔ عالمی سطح پر اس تبدیلی کا اثر سرد جنگ کے خاتمہ کی امید تھی حالانکہ سوویت یونین کے بکھراؤ اور وارسا معاہدہ کے خاتمہ کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکی قیادت والے فوجی معاہدہ ناٹو کو بھی ختم کر دیا جائے مگر انکل سام نے یہ نہیں کیا اور دنیا دو بلاکوں کے بجائے ایک ہی بلاک کے شکنجہ میں آگئی۔ جمہوریت لانے کے نام پر امریکہ نے کیا کیا، نہیں کیا، عراق، افغانستان، مصر وغیرہ اس کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں۔سوویت یونین تو تاریخ کے صفحات میں گم ہو گیا۔ روس اس کا وارث تو بنا لیکن وہ معاشی طور سے اتنا کمزور اور کھوکھلا تھا کہ کئی دہائیوں تک تو وہ اپنے عوام کی ضروریات پوری کرنے میں ہی لگا رہا لیکن پوتن کی قیادت میں روس نے کروٹ بدلی، عالمی امور میں وہ سرگرم کردار ادا کرنے لگا، اس نے عراق میں صدام حسین، لیبیا میں معمر قذافی جیسے اپنے حلیفوں کا زوال تو برداشت کرلیا لیکن شام میں وہ بشارالاسدکی حمایت میں سینہ سپر ہوگیا۔ اس سے قبل انہوں نے بہت بے دردی سے آزادی کی تحریک کو کچل دیا۔ یہی نہیں سوویت یونین کو زندہ کرنے کا خواب بھی ان کی آنکھوں میں مچل رہا ہے۔ جارجیا، آرمینیا اور بیلاروس کو وہ ہڑپ ہی کرچکے ہیں اور اب اگلا نشانہ یوکرین ہے کیونکہ یوکرین نے پوتن کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے خلاف جھکنے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکہ بھی یوکرین کو بھڑکائے ہوئے ہے، وہ اسے ناٹو میں شامل کرنا چاہتا ہے جبکہ پوتن صاف کر چکے تھے کہ وہ اپنی سرحد تک ناٹو کی شکل میں امریکہ کو نہیں آنے دیں گے۔یہ سمجھ پانا مشکل ہے کہ امریکہ یوکرین کو ناٹو میں شامل کر کے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے، اگر اس کا مقصد روس کے گلے پر ہاتھ رکھنا ہے اور بظاہر یہی مقصد ہے بھی تو پوتن کو بھی حق ہے کہ وہ روس کے دفاع کے لیے امریکہ کو اپنی سرحدوں سے دور رکھیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یوکرین بڑی طاقتوں کی مقابلہ آرائی کا میدان بن گیا ہے اور جیسا کہ پرانی کہاوت ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی کی قیمت گھاس ادا کرتی ہے، وہی یوکرین کے ساتھ ہو رہا ہے۔
پوتن کی یہ شکایت جائز ہے کہ امریکہ اور یوروپی ممالک ناٹو کے ذریعہ بالٹک ملکوں میں اپنی فوجی موجودگی بڑھا رہے ہیں جو اس زبانی معاہدہ کی خلاف ورزی ہے جو امریکہ نے سوویت یونین کے بکھراؤ کے وقت اس سے کیا تھا یعنی روس کو امریکہ اور یوروپی ملکوں نے یقین دلایا تھا کہ ناٹو کی توسیع بالٹک منطقہ میں نہیں کی جائے گی لیکن ایک کے بعد ایک نو آزاد یہ ملک ناٹو کا حصہ بنتے گئے اور امریکہ کھلے عام وعدہ خلافی کرتا رہا۔ لیکن پوتن نے جس طرح آرمینیا، جارجیا اور بیلاروس کو ہڑپ کرلیا، وہ صورت حال یوکرین کے سامنے نہ آئے اس لیے یوکرین بھی ناٹو میں شامل ہونے کی کوشش کرتا رہا۔2008 میں یوکرین کی حزب اختلاف نے ناٹو میں شامل ہونے کا منصوبہ پیش کیا تھا، امریکہ نے تبھی اس کی حمایت کی تھی لیکن اس وقت یوکرین کے صدر وکٹر یانو کو وچ نے اس کی مخالفت کی تھی کیونکہ وہ روس کے قریبی سمجھے جاتے تھے۔ پوتن نے اسی وقت ہی یوکرین کوایسی کسی مہم جوئی کے خلاف آگاہ کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کوئی بھی ملک اس طرح خود کو دشمنوں کے نرغہ میں نہیں پھنسا سکتا ۔
یہاں تک تو پوتن حق بجانب تھے لیکن اس خطرہ کے سدباب کا جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے، اسے کسی بھی طرح حق بجانب نہیں قرار دیا جا سکتا، یہ ان کی سفارت کاری کی زبردست ناکامی ہے، وہ اپنے پڑوسی ملکوں کو اعتماد میں کیوں نہیں لے سکے؟ ظاہر ہے جارجیا، آرمینیا اور بیلاروس کے سلسلہ میں ان کی پالیسی کے خلاف دوسرے پڑوسی ملکوں کو ہوشیار ہو ہی جانا تھا۔ ایک آزاد، خود مختار ملک ہونے کے ناطے یوکرین کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کا خود تعین کرے جس میں اس کا ناٹو میں شامل ہونے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ کوئی پڑوسی ملک کسی دوسرے پڑوسی پر یہ حکم نہیں چلا سکتا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ پوتن اپنی سفارتی ناکامی سے دنیا کو تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر دھکیل رہے ہیں جسے کسی بھی قیمت پر حق بجانب قرار نہیں دیا جا سکتا۔اگر امریکی صدر جو بائیڈن بھی جارج بش یا ڈونالڈ ٹرمپ کی طرح طاقت کی زبان استعمال کرتے تو دنیا تیسری جنگ عظیم ہی نہیں ایٹمی جنگ کی بھٹی بن جاتی۔ پوتن نے بائیڈن کو بڑی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ افغانستان سے اپنے فوجیوں کی ایک طرفہ واپسی کے فیصلہ سے امریکہ کی ایک بڑی لابی ان سے پہلے سے ہی ناراض چل رہی ہے، یوکرین کے معاملہ میں انہوں نے بھلے ہی تدبر، حکمت عملی اور دور اندیشی سے کام لیا اور دنیا کو جنگ کی تباہی سے بچا لیا ہے لیکن امریکہ کی یہ لابی اسے ان کے خلاف پروپیگنڈہ کا ہتھیار بنائے ہوئے ہے۔ چین پہلے ہی ان کے لیے درد سر بنا ہوا تھا، روس نے بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دیا ہے۔ چین اور روس مل کر امریکہ کو عالمی امور میں سنگین مشکلات میں مبتلا کر رہے ہیں۔ویت نام سے لے کر عراق اور پھر افغانستان تک جہاں بھی امریکی فوجوں نے مداخلت کی انہیں ہزیمت ہی کا سامنا کرنا پڑا۔ بائیڈن یہ اچھی طرح سمجھ رہے ہیں لیکن اپنے عوام کو خاص کر اپنے سیاسی مخالفین کو مطمئن کر پانا ان کیلئے مشکل ہو رہا ہے، روس پر سخت معاشی پابندیاں لگا کر وہ ان کا منھ بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
روس پر جو معاشی اور تجارتی پابندیاں لگیں گی، اس کا اثر دنیا کے سبھی ملکوں کی معیشت پر پڑے گا، خاص کر تیل اور گیس کی قیمتوں میں زبردست اچھال ہوگا۔ عالمی خام تیل کی قیمت ایک سو بیرل سے اوپر پہنچ چکی ہے جو گزشتہ سات برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستان میں جاری اسمبلی انتخابات کے بعد عوام کی جیب پر بھاری بوجھ پڑنے والا ہے۔روس کی مہم جوئی کے فوری بعد ہی ہندوستان میں حصص بازار بری طرح متاثر ہوا ہے، سینسیکس اور نفٹی میں تقریباً پانچ فیصد کی گراوٹ درج کی گئی تھی جس کا مطلب ہوتا ہے اربوں روپے کا ایک دن میں خسارہ۔ یہ تو ابتدائی اثرات ہیں اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو صرف روس ہی نہیں پوری دنیا اس کی معاشی قیمت ادا کرے گی۔ کورونا کی تباہ کاری کے بعد دنیا نے سانس لینا شروع کیا تھا، معاشی سرگر میاں پٹری پر آ رہی تھیں کہ ایک دوسری تباہی دروازہ پر پہنچ گئی ہے۔
بیشک حالات کافی الجھے ہوئے ہیں لیکن سفارتکاری کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر روس کی دفاعی فکر مند یوں کا ازالہ کر دیا جائے، بالٹک علاقہ میں خاص کر یوکرین کو ناٹو میں شامل نہ کر کے اس کی توسیع کو روکا جائے اور مانسک معاہدہ کی پابندی کی یقین دہانی کرائی جائے تو حالات کو معمول پر لایا جا سکتا ہے کیونکہ مسئلہ کی جڑ میں امریکہ کی ناٹو کو توسیع دینے اور روس کی سوویت یونین ٹائپ کا نظام واپس لانے کی کوششیں ہی ہیں،مگر ’بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟‘اقوام متحدہ ہی یہ کر سکتا ہے بشرطیکہ روس اور امریکہ چاہیں اور اپنی توسیع پسندی سے زیادہ عالمی امن اور استحکام کو ترجیح دیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]