پہلی وحی کے حکم ’اقرأ‘ کے بعد کے پیغام کو پڑھنا ہے فرض

0

عقیدت اللہ قاسمی

گزشتہ سے پیوستہ
مذہب اسلام کی پہلی وحی کے پہلے لفظ اقرأ کے بعد پہلی ہی آیت کے دوسرے الفاظ میں کہاگیا ہے ’پڑھواپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ‘ یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے دینی ، بددینی، دین دشمنی ،کمیونزم ، سوشلزم، مادیت، دہریت، یہودیت، نصرانیت،ہندتو، سیکولرزم، کیپٹلزم اور جدیدت ،کفروشرک وغیرہ کا چشمہ لگاکر خود ان رنگوں میں رنگے جانے اور دل ودماغ کو ان کے ماحول میں ڈھالنے اور ان کے گندے وغلیظ تالابوں میں غوطہ زن ہونے کی بجائے اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا۔یعنی اپنے رب کی رضا جوئی کو اپنا مقصد حیات بنائو۔ اپنے مقصد تخلیق کو پہچانواور سمجھو اور اپنے اس رب کے اوامر ونواہی کو پیش نظررکھنے کی کوشش کرو اور اس خالق کی قدرت وخالقانہ کمال وعظمت کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اس غرض کی تکمیل کے لئے اس خالق کائنات کی حکمت وکاریگری میں غور کرو کہ اس نے کائنات کو کیسے بنایا اور اس میں کیا کیاپیدا کیا ہے؟ خالق کائنات کی ایک ایک تخلیق میں غور کرو،خوداس کی اطاعت وفرماںبرداری کرو، اس کی نعمتوں کی قدر کرو،ان میں غوروفکر کرو، ان نعمتوں کا احسان مانو، اس کا شکرکرو کہ اگر تم اس کا شکرادا کروگے تو بشارت سن لو کہ وہ اور زیادہ دے گا اور اس کی ناشکری کروگے ۔اس کی نعمتوں کی ناقدری کروگے، خود اس کی نافرمانی کروگے ، اس کے خلاف بغاوت کروگے ، اس کی خدائی میں کسی اور کی شریک مانوگے ، شرک کروگے یا خود اسی کو نہ مانوگے ،اس کے خالق ہونے کا انکارکروگے ، اس کو ناراض وخفا کروگے توسمجھ لو اس کی پکڑ بہت سخت ہے، اِنّ بطش ربک لشدید، اس کا سزا بھی سخت پائوگے۔اس کا عذاب ، عذاب الیم ہے، عذاب عظیم ہے،عذاب مہین ہے۔وہ ہرچیزپرقادرہے، وہ بہت سخت عذاب دینے والا ہے، بہت دردناک عذاب دینے والا ہے۔ ان اللہ علی کل شیٔ قدیر۔اس کی نعمتوں کی کوئی تعداد نہیں ہے، تم اس کی نعمتوں کوشمار بھی نہیں کرسکتے اور اس کے پاس کیسی کیسی نعمتیں ہیں تم ان سب کا تصوربھی پیش نہیںکرسکتے۔تم میں سے کسی کی آنکھوںنے ان سب کو دیکھا بھی نہیں ، تمہارے کانوں نے سنا بھی نہیں ،اس کے ساتھ ہی وہ کیسے کیسے عذاب میں مبتلا کرسکتا ہے، نہ تم اس کا تصورکرسکتے ہو اور نہ ہی سوچ کتے ہو،نہ سمجھ سکتے ہو۔
پہلی وحی کی اگلی آیت میں ارشاد ہے اس نے انسان کو ’علق‘ خون کے جمے ہوئے لوتھڑے سے پیدا کیا۔پہلی آیت میں مطلق لفظ’پیدا کیا‘۔فرمایا ہے ، یہ نہیں کہا کہ کس کو پیدا کیا، اس کا واضح مطلب ہے کہ وہ سب چیزوں کا ساری کائنات کا خالق ہے۔ اس لئے اس خالق کا نام لے کر پڑھو جو ساری کائنات کا خالق ہے اور اس کائنات کی تمام چھوٹی بڑی تخلیقات میں غوروفکر کرو کہ اس کی حکمت اور قدرت کتنی عظیم ہے اور اس کی حکمت وعظمت عظیم ہیں توخودوہ کتنا عظیم ہے ۔ اس کی عظمت کو سمجھو اور اس کو تسلیم کرو، پھرکائنات کی عام تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد اس آیت میں خاص طور سے انسان کا ذکر کیا کہ خود اپنے وجوداور اپنی تخلیق کے بارے میں غوروفکر کروکے اللہ تعالیٰ نے کس حقیر حالت سے تمہاری تخلیق کی ابتدا کرکے تمہیں پورا انسان بنایا؟علق ،علقہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں جماہوا خون ۔یہ وہ ابتدائی حالت ہے جومادہ منویہ جیسے حقیر قطرہ کے رحم مادر میں استقرار حمل کے بعد پہلے چند دنوں میں رونما ہوتی ہے ،پھر وہ گوشت کی شکل اختیار کرتی ہے اور اس کے بعد بتدریج اس میں انسان صورت بننے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو ان تمام حالتوں کے بارے میں غوروفکر کرو اور ظاہر ہے کہ غوروفکر کرنے کے لئے طرح طرح کے علوم کے حصول کی ضرورت ہوتی ہے اور تحصیل علم کے لئے تعلیم وتعلم کے انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔ہر علم کے ہر شعبہ کے ہرسبجیکٹ اور ہرفن کے ہر سطح کے اداروں کے قیام کی ضرورت ہے۔ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے پاس ان علوم کا وشعورہے اور جن کے پاس علوم ہے اداروں کے قیام کے لئے وسائل ہیں وہ طرح طرح کے کاروبار کریں گے،بنائیں گے۔ گورنمنٹ نے ایجوکیشن کا پرائیویٹائزیشن اور کمرشیلائزیشن کردیا ہے، لیکن مسلمانوں جیسے ناموں والے یہ نام نہاد دانشور تعلیمی اداروں کے قیام کی طرف توجہ نہیں دیں گے، لیڈر بنیں گے،اعلیٰ عہدے حاصل کرلیں گے لیکن تعلیمی ادارے کا روباری لحاظ سے خوددولت حاصل کرنے اور خالق کائنات کے پیغام کو سمجھنے کے لئے قائم نہیں کریںگے،نہ ایسے نصاب تیار کریں گے ، جن سے ان عصری وجدید علوم کے ذریعہ خالق کائنات کی نشانیوں کو سمجھا جاسکے۔ اس سلسلہ میں بھی غلاظت کا ٹوکرا مولویوںہی کے سرپر ڈال دیں گے کہ ساری زکوٰۃ تومولوی مدرسوں کے نام پر لے جاتے ہیں،پھر ہم اسکول ،کالج کہاں سے قائم کردیں؟گویا ساری دنیا میں ہر سطح کے جو اسکول ،کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہورہے اور چل رہے ہیں وہ سب زکوٰۃ ہی کے پیسے اور روپے سے قائم ہورہے اور چل رہے ہیں۔بھلا یہ لوگ خودجیتنے کے لئے ہیں،اپنے بھائیوں کو ناکام کرنے اور شکست سے دوچار کرنے کے لئے جوالیکشن کے میدان میں کودتے ہیں اور بے تحاشہ دولت بہاتے ہیں ،وہ دولت کہاں سے لاتے ہیں؟ اور شادیوں کے مواقع پرجودولت کی نمائش کی مقابلہ آرائی کرتے ہیں اس دولت سے ادارے قائم نہیں کرسکتے؟ جس کی آمدنی سے مزید دولت بھی حاصل کرسکتے ہیں ،چاہیں تورسوم بھی اداکرسکتے ہیں اور شوق بھی پورے کرسکتے ہیں۔ کاروباری نقطۂ نظرسے ضرورت ایسے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کی ہے جن میں جدید اور عصری علوم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا بھی انتظام ہو۔ پہلی وحی کی اگلی آیتوں میں ارشاد ہے ’ پڑھو کہ تمہارا رب بڑا کریم ہے ، جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایااور انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔‘کاش! یہ لوگ ان علوم کا ایسا صحیح استعمال کرتے جس سے دنیا کی بھی بھلائی ،نیکی اور خوشحالی وعزت وقوت حاصل ہوتی اور اللہ بھی راضی ہوتا اور عقبی وآخرت کی بھی کامیابی ،سرخروئی اور فلاح حاصل ہوتی۔٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS