خواجہ عبدالمنتقم
کچھ ریاستوں میں عدلیاتی ونیم عدلیاتی اداروں، محکمۂ پولیس وغیرہ میں اردو الفاظ کی جگہ ہندی یا علاقائی زبانوں کے الفاظ استعمال کرنے کی ہدایات وقتاً فوقتاً جاری کی جاتی رہی ہیں مگر تاہنوز ان ریاستوں میں بھی ان الفاظ کا استعمال برابر جاری ہے۔ جس طرح روم کی تعمیر ایک دن میں نہیں ہوسکتی تھی، اسی طرح روم کا انہدام بھی ایک جھٹکے میں نہیں ہوسکتا۔ ویسے بھی ایسا کرنا قرین مصلحت نہیں چونکہ آئین کی دفعہ 351جو ہندی زبان کو فروغ دینے سے متعلق ہے خود اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ دوسری زبانوںمیںاستعمال ہونے والی تراکیب، اسلوب اور اصطلاحات کو اپناتے ہوئے اور سنسکرت ودوسری زبانوں سے الفاظ اخذ کرکے ہندی کو مالا مال کیا جائے۔
اگر سرکاری زبان کے فروغ کے لیے نیک نیتی سے ایسا کرنا ضروری ہو تو اس میں کوئی ہرج بھی نہیں مگر ایسا کرتے وقت یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اردو اور قانون کے مابین اٹوٹ رشتہ ہے اور اس رشتہ کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اترپردیش کے جوڈیشیل سروس کے امتحان میں اردو کا پرچہ ہوا کرتا تھا اور امیدوا روں کو لازمی طور پر اردو سیکھنا پڑتی تھی جس سے جج بننے کے بعد انہیں اردو پڑھنے اور قانونی اصطلاحات کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی تھی۔ آج انہیں ان دستاویزات کو پڑھنے اور اردو اصطلاحات کو سمجھنے میں کافی دقت پیش آتی ہے اور دوسروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
یاد رہے کہ کوئی بھی زبان جو کسی بھی دور حکومت میں دفتری یا قانونی زبان رہی ہو وہ کبھی نہیں مٹ سکتی۔یہی کہانی ہے اردو کے عدلیہ سے ناقابل انقطاع رشتے کی جو کئی صدیوں تک خاص کر انیسویں اوربیسویں صدی میں لازم و ملزوم کے طور پر قائم رہا۔ متذکرہ بالا تقریباً دو صدیوں کے درمیان تکمیل شدہ دستاویزات کو جب تک ملک میں کوئی بھی نظام حکومت قائم رہے گا تب تک دستاویزی شہادت کے طور پر پیش کیا جاتا رہے گا اور ایک وقت آئے گا جب ان دستاویزات کو پڑھنے اور سمجھانے والے لوگ بمشکل تمام مل پائیں گے۔ اس وقت بھی یہ قبیلہ، جسے بیک وقت قانون، اردو، ہندی،انگریزی اور قانون پر عبور حاصل ہو ایک عنقا قبیلے کی شکل اختیار کرچکا ہے جبکہ اردو میں تحریر کی گئیں دستاویزات مثلاً وصیت،بیعنامہ، تولیت نامہ، ہبہ نامہ، رہن نامہ، گروی نامہ، پٹہ نامہ، تقسیم نامہ، شراکت نامہ، وقف نامہ، حقیت نامہ (Title deed) جیسی اہم دستاویزات کو دستاویزی شہادت کے طور پرہمیشہ پیش کیا جاتا رہے گا۔ کیاان دستاویزات کو پڑھنے، سمجھنے اور ان کے صحیح ترجمہ وتعبیر کے لیے مترجمین ومعبرین کی ضرورت نہیں پڑے گی؟ اسی طرح مغلیہ یا برطانوی ادوار حکومت میں جاری فرمانوں، احکامات، فیصلہ جات اور تکمیل شدہ مالگزاری دستاویزات کو متعلقہ حقوق کو ثابت کرنے کے لیے عدالتوں میں پیش نہیں کیا جائے گا؟ لہٰذا ہندی کے ساتھ ساتھ ا ن اردو اصطلاحات کا کسی حد تک استعمال جاری رہنا چاہیے۔
مغلیہ دور میں اس طرح کی دستاویزات ابتداً فارسی میں لکھی جاتی تھیں۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ دستاویزات اردو کے ارتقاء کے دوران فارسی و اردو یعنی ملی جلی زبان میں لکھی جانے لگیں۔ اس کے بعد وہ دور آیا جب یہ دستاویزات صرف اردو میں لکھی جانے لگیں لیکن اردو میں لکھی جانے والی دستاویزات میں بھی بیشتر الفاظ عربی و فارسی کے ہی رہے اور آج بھی ہماری عدالتوں میں مدعی، مدعا علیہ، عرضی، عرضی دعویٰ، جواب دعویٰ، جواب الجواب، عدالت، شہادت، شکایت، سماعت، تفتیش، تعمیل، تکمیل، مسل، دریافت، ترمیم، استغاثہ، بیع نامہ، رہن نامہ، منظوری، خارج، حکم، فیصلہ، ہدایت، نقشۂ مرگ، فرد مقبوضگی آلۂ جرم، فرد مقبوضگی پارچات خون آلود وغیرہ جیسے سیکڑوں الفاظ عدالتوں اور ہندوستان کی مختلف زبانوں میں آج بھی استعمال کیے جارہے ہیں اور پولیس عملے کو اس ضمن میں پولیس ٹریننگ مراکز میں باقاعدہ تربیت بھی دی جاتی ہے۔
انیسویں و بیسویں صدی میں ایک طویل عرصے تک ہندی بیلٹ میں عدلیہ وعاملہ کی واحد زبان اردو تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سبھی لوگ اپنے بچوں کو اردو میڈیم سے تعلیم دلانا چاہتے تھے تاکہ وہ کوئی باوقار ملازمت حاصل کرکے عصری قومی دھارے میں شامل ہوکر ایک خوش حال زندگی گزار سکیں۔ 1872میں اودھ کے چیف کمشنر نے یہ رپورٹ دی تھی کہ اس وقت صوبے میں ہندوؤں کی آبادی مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی لیکن سرکاری اسکولوں میں 22074طلبا اردو، فارسی یا عربی پڑھ رہے تھے جب کہ ہندی یا سنسکرت پڑھنے والے طلبا کی تعداد صرف4959 تھی۔
وقت بدلتا ہے،سرکاری زبانوں کی نوعیت بدلتی ہے اور پرانی اصطلاحات کو ضرورت اور قانونی احکامات کے تحت بدلنا پڑتا ہے لیکن اردو کو،جو کئی صدیوں تک عملی طور پر عدلیہ کی زبان رہی ہے اور عدل گستری کی بھی، کبھی یکتا تو کبھی دیگر زبانوں کے ساتھ، کس طرح نظراندازکیاجاسکتا ہے؟ حال ہی میں مدھیہ پردیش کے پولیس محکمہ نے کچھ اردو الفاظ کی جگہ ان کے ہندی مترادف الفاظ استعمال کرنے سے متعلق ہدایات جاری کی ہیں جنہیں مختلف اخبارات میں جن شکل میں شائع کیاگیا ہے، ان پر نظر ڈالنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ اردو اصطلاحات کے ہندی مترادفات کے انتخاب کے وقت ان کی قانونی نوعیت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا ہے۔ کچھ ہندی الفاط کا انتخاب اس بنیاد پر صحیح ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ عام لوگ اب ان اصطلاحات یا الفاظ کو سمجھنے لگے ہیں جیسے عدالت کے لیے نیا یالے،حلف نامے کے لیے شپتھ پتر، معقول کے لیے اچت، امداد کے لیے سہائتا، گواہ کے لیے ساکشی، گزارش کے لیے پرارتھنا، حاضر کے لیے اپستتھ،اضافے کے لیے وردھی،،ملزم کے لیے آ روپی اور فیصلے کے لیے نرنے،حالانکہ آج بھی بیشتر لوگ عدالت، حلف نامہ، گواہ، حاضر،ملزم اور فیصلہ ہی کہتے ہیں لیکن کچھ اردو الفاظ و اصطلاحات کے لیے جو الفاط رکھے گئے ہیں وہ بظاہر درست نہیں ہیں جیسے ’ گرفتاری‘ کے لیے ’ابھی رکشا‘ رکھا گیا ہے جبکہ ابھی رکشاحراست یعنی custodyکے لیے استعمال ہوتا ہے۔حراست اور گرفتاری دو الگ اصطلاحات ہیں اور دو مختلف صورتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔اسی طرح ’حکمت عملی‘ کے لیے ’وویک انوسار‘ الفاظ رکھے ہیں جو کسی حد تک صحیح ہیں مگر ان سے بات پوری نہیں ہوتی۔اگر اس کے ساتھ ’کارریہ ودھی ‘جوڑ دیا جاتا تو بہتر ہوتا چونکہ حکمت عملی سے مراد وہ لائحہ عمل ہے جو متعلقہ شخص اپنی پسند و عقل و فہم کے مطابق ا ختیار کرتا ہے۔ اسی طرح ’مرگ‘ کے لیے ’اکال موت‘ الفاظ رکھے گئے ہیں۔ مرگ سے صرف موت مراد ہے نہ کہ سمے پورو موت۔کچھ ایسی قانونی اصطلاحات بھی ہیں جووہ نظر نہیں آتیں جو ان کے عام معانی ہیں لیکن قانون کے نقطۂ نظر سے ان میں فرق کرنا ضروری ہو جاتا ہے مثلاً Instrument ایک عام آلہ ہو سکتا ہے اور دستاویز الحاق(Instrument of Accession) بھی۔ دریں صورت جب بھی اردو اصطلاحات کی جگہ ہندی اصطلاحات رکھنی ہوں تو یہ کام ایسی کمیٹی کے ذریعے کیا جانا چاہیے جو ایسے افراد پر مشتمل ہو جنہیں حقیقتاً متعلقہ زبانوں اور قانون کی اچھی جانکاری ہو۔ فرد واحد،خواہ وہ کتنا بھی قابل ہو، ایک سے زیادہ ماہرین کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]