معاملہ حجاب کا نہیں غلبے اورخود سپردگی والی سوچ کا ہے

0

عبدالسلام عاصم

وارانہ تعلق جب محبت کے بجائے نفرت سے متعارف ہونے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ بین فرقہ سوچ میں اپنے لیے غلبے اور دوسروں کیلئے خود سپردگی کے جذبات نے ذہنوں کو بُری طرح ہائی جیک کر لیا ہے۔ تازہ حجاب ایپی سوڈبھی اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔ تدریسی انتظامیہ اور طالب علموںکا تعلق ویسے تو علم سے ہے لیکن اِس معاملے نے اُن کے بباطن انسانی رشتے کو بظاہر الگ الگ فرقوں، نظریوں اور ترجیحات میں بانٹ کر انتہائی مخدوش بنادیا ہے۔
حجاب کی مخالفت اور موافقت کرنے والوںسے وابستہ دونوں حلقوں میں جذباتی لوگ بدقسمتی یا غیر دوراندیشی کی وجہ سے ہاں میں ہاں ملانے سے آگے سوچنے سے قاصر ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تلے نظر آتے ہیں۔ اِس معاملے نے دونوں طرف اُن لوگوں کو بھی صف بند کر دیا ہے جن کی اپنے اپنے فرقوں سے وابستگی مبنی بر عقیدہ کم اور بائی ڈیفالٹ زیادہ ہے۔حالات کی شدت کا یہ عالم ہے کہ بیچ بچاؤ کرنے والا ذرا بھی غیرمحتاط قدم اٹھائے تو وہ خود خطرے میں پڑ سکتا ہے کیونکہ معاملہ اب تفہیم کا نہیں رہ گیا۔ اس کی دوٹوک وجہ یہ ہے کہ دونوں ہی طرف کے ووکل ذمہ داران غیر سائنسی ایپروچ سے کام لے رہے ہیں۔ ورنہ حجاب کی وجہ سے نہ یونیفارم کی ضابطہ شکنی ہو رہی ہے اور نہ حجاب اتروانے کی ضد چھوڑ دینے سے ایسی کوئی تاریکی پھیل جائے گی جو علم کی روشنی کو ہی نگل جائے۔
اس قضیہ سے دونوں حلقوں کے دستبردار ہو جانے سے البتہ یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ جو حجاب خود اپنے فرقے میں عام نہیں وہ دوسرے فرقے کے لوگوں کیلئے بھی بہ کثرت توجہ کا مرکز کبھی نہیں بن پائے گا۔ہماری بین فرقہ توجہ کا مرکز اعلیٰ تعلیم اور اس سے زمانے کو فیض پہنچانے کی دوڑ ہونی چاہیے۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حجاب کرنے والیوں کے ذہن کو بچپن سے کنڈیشنڈ کیا گیا ہے، اُن لوگوں کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے اس اخذ کردہ نتیجے کی بنیاد پر یکطرفہ کارروائی شروع کریں۔ اس سے دونوں طرف بے ہنگم ضد بڑھے گی اور نتیجہ کسی کیلئے کم تو کسی کیلئے زیادہ افسوسناک ہوسکتا ہے۔
باوجودیکہ درونِ ملک فرقہ وارانہ منافرت کی وجہ سے آلودہ ماحول میں ایک حد تک اطمینان بخش بات یہ دیکھی جارہی ہے کہ سوشل میڈیا پر دونوں طرف کے کچھ لوگ بہ انداز دیگر بھی سوچنے اور اظہار خیال کرنے لگے ہیں۔ وہ غالب کے طرف دار نہیں بلکہ پوری طرح سخن فہم ہیں۔یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔ اس سے پہلے ایسے کسی اتفاقی واقعہ اور ناگہانی سانحہ کو مصلحت خداوندی مان کراچھے خاصے لوگ بھی غور وفکر کے تمام تقاضوں سے دستبردارہوجاتے تھے۔ حالانکہ واقعات اور سانحات پر غور کی توفیق عطا کرنے میں فطرت نے کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں کی۔ واقعات کو صحیح طریقے سے دیکھنا، سمجھنا اور نتیجہ نکالناغور و فکر سے ہی تعلق رکھتا ہے لیکن یہ کوشش کبھی کبھی اُن لوگوں کو بھی کسی امکانی نتیجے تک نہیں پہنچا پاتی جو نامساعدات کو اعمال کا نتیجہ سمجھنے کے بجائے مقدر مان لیتے ہیں۔وطنِ عزیزکی دونوں ملتیں اِس وقت کم وبیش اسی صورتحال کے انتہائی افسوس ناک مرحلے سے گزر رہی ہیں۔
ہمارے ایک مدرس بندھے ٹکے اصولوں کے تحت مرتب کتابیں پڑھاتے وقت اکثر اسباق کی تفہیم میں ایک جملہ ادا کرتے تھے کہ ’’ خدا سے ڈرو مت محبت کرو‘‘۔ ہمارے لیے اُس عمر میں ان کی یہ بین السطور تفہیم سمجھ سے بالاتر ہوا کرتی تھی۔ ہم میں سے بیشتر طلبا کیلئے اِس تفسیر کی گونج ثانوی درجات سے آگے بڑھنے اوربلوغت کی دہلیز پار کرنے سے پہلے ختم ہوگئی تھی۔ جو اِس تفسیر کو اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھے، ان میں کسی حد تک میں بھی شامل تھا۔ شایدیہ اسی گونج کے ذہن و دل میں محفوظ رہ جانے کا نتیجہ ہے کہ موجودہ حجاب تنازع کی بابت جب میں غور کرتا ہوں تو حجاب کی موافقت اور مخالفت دونوں میں کہیں اصل مذاہب نظر نہیں آتے۔اصل مذاہب آج بھی تمدنی گنجائشوں، رواداری، تحمل اور بردباری سے عبارت ہیں۔لیکن جب ظلمت پسندوں نے بھی اپنا کاروبار جاری رکھنے کیلئے زمانے کی رفتار سے استفادہ کرنا شروع کیا تو علم پر عقیدے کو ترجیح دینے والے معاشروں میں اصل مذاہب پس منظر میں چلے گئے۔ اُن کی جگہ سیاسی تعبیر والے مذاہب نے لے لی۔ دلوں کے بجائے علاقے جیتنے کا جذبہ اسی سے عبارت ہے۔ اس طرح اکڑ، انا، تکبر اور ایک دوسرے کی نفی کی حد تک اختلاف رکھنے والے کل بھی بعض معاشروں کو نقصان پہنچا چکے ہیں اور آج بھی کچھ معاشرے اِن کی زد میں ہیں۔
نئی نسل کے نمائندوں کو یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ اصل مذاہب شعور اور فہم سے پھیلتے ہیں۔ وہ اپنے اندر کوئی جادوئی نہیں بلکہ علمی کشش رکھتے ہیں۔ جبکہ سیاسی تعبیر والے مذاہب، عقائد اور آستھا رخی ادعائیت کے علاوہ اپنے لیے غلبے اور دوسرے کیلئے خود سپردگی کے جذبے سے خواص کے ذہنوں اور عام لوگوں کے دلوں پر راج کرنے لگتے ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیزکا عصری منظرنامہ اسی سے عبارت ہے جس کی تازہ نظیر حجاب ایپی سوڈ ہے۔ حجاب سے کسی درسگاہ کے یونیفارم کی ہرگز خلاف ورزی نہیں ہوتی۔البتہ اسے چڑھانے اور اتروانے کی ضدمیں کسی علمی بحث کی کوئی گنجائش نہیں۔
دراصل یہ حق و باطل کی لڑائی ہے ہی نہیں۔یہ لڑائی ہے خالصتاً پسند اور ناپسند کی ہے جس کا راست تعلق نظریاتی تسلط سے ہے۔ اس میں دونوں طرف مذاہب میں پناہ ڈھونڈنے والوں کی اتنی زبردست بھیڑ ہے کہ انہیں یہ سمجھانا مشکل ہے کہ سورج کی روشنی کی حفاظت کے لیے ضروری نہیں کہ رات کے وجود سے دشمنی مول لی جائے۔ رات کی تاریکی مٹانے کی اندھا دھنداوربے ہنگم کوشش کے تباہ کن نتائج بھی اُس روشنی میں ہی سامنے آتے ہیں جو تاریکی مٹانے کے لیے ازخود کوئی خون خرابہ نہیں کرتی۔اس مرحلے سے جو مذہبی گروہ گزر چکے ہیںوہ آج ارتقا پذیر عالمی سیاسی تقاضوں سے بہرہ ور ہیں اور اپنی مذہبی شناخت کو(اوڑھنا بچھونا بنائے بغیر) قائم رکھتے ہوئے اس یقین کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔
توہم پرستی اور شعوری بیداری کی لڑائی انسانی زندگی میں تہذیب کے عمل دخل کے پہلے دن سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ دنیا میںخوف کا کاروباروحشی درندوں نے نہیں بلکہ انسانوں نے شروع کیا تھا۔اس کی ایک سے زیادہ مثالیں ہمارے سامنے دستاویزی طور پربھی موجود ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ظلمت پسندی کے خلاف شروع ہونے والی جنگ میں(جو اب ایک کاروبار میں بدل گئی ہے) اُن طاقتوں نے بھی جو بظاہر لبرل سوچ رکھنے یعنی روشن خیال ہونے کی دعویدار ہیں، محدود نظریات کو بدلنے کی حکمت پر مبنی تدابیر وضع کرنے کے بجائے آتشیں ہتھیاروں سے شدت پسند نظریات کی بیخ کنی کا ایک ایسا طریقہ اختیار کررکھا ہے جو دنیا کو غیر محفوظ سے غیر محفوظ ترین بناتا جا رہا ہے۔افغانستان کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
انسانی ترقی کی آخر یہ کون سی منزل ہے جہاں پہنچ کر انسان اپنے انسان ہونے کی سب سے پہلی پہچان سے ہی محروم ہونے لگا ہے۔ ہم سب ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اوریہودی ہونے سے پہلے انسان ہیں اور انسانوں نے دنیا کے کسی بھی مذہب، ازم یا فلسفے سے پہلے جس تہذیب کو گلے لگا کر اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل کیا تھا وہ تہذیب بھائی چارے کی تہذیب تھی جس کی رو سے سارے انسان ایک ہی اُمت تھے۔قرآن میں خدا کہتا ہے ’’کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّّاحِدَۃً ‘‘(2:213)۔
حجاب کے حوالے سے موجودہ متصادم صورتحال آنے والے دنوں میں کیا کروٹ لے گی، اس کا بہت کچھ انحصار اُن لوگوں کے ردعمل پر ہے جن کی صالح سوچ اور نظریات اِن دنوں زد پر ہیں۔ اگر وہ تدبیر سے کام لیتے ہیں تو سماج کا نقصان کم ہوگا بصورت دیگر ٹکراؤ کسی کو منزل آشنا نہیں کر پائے گا کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ اپنے غلبے اور دوسرے کی خود سپردگی والی کسی ایک فرقے کی سوچ سب کے لیے سیل رواں بن جائے۔ایسا جب کل نہیں ہو سکا تو آج یا آئندہ کل بھی بھلا کیسے ممکن ہے!
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS