نئی دہلی (ایجنسی) انڈین سوشل میڈیا پر وزیر اعظم نریندر مودی کا ٹرینڈ کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ان کے مداحوں کی ایک کثیر تعداد سوشل میڈیا پر موجود ہے جو ان کے ہر ہر اقدام پر بحث کرتی اور اسے ٹاپ ٹرینڈز میں بدلتی نظر آتی ہے۔
اب چاہے اُن کا یوگا کرنا ہو کہ اُن کا مور کو دانہ ڈالنا یا ملک یا بیرون ملک کا دورہ، یہ سب سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث کا موضوع ہوتا ہے۔حال ہی میں ان کی ایک تصویر انڈیا سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جو بظاہر دنیا کے معروف ترین اخباروں میں سے ایک ’نیویارک ٹائمز‘ کے صفحہ اول کی اور اس تصویر کے ساتھ موجود عنوان میں انھیں ’دنیا کی آخری امید‘ کہا گیا ہے۔فیکٹ چیک کرنے والوں نے تو پہلے ہی یہ انکشاف کر دیا تھا کہ یہ فیک نیوز ہے جسے مودی کے حامی اُن کے امریکہ کے دورے کی مناسبت سے پھیلا رہے ہیں۔
یہ تصویر انڈیا میں ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ پر اس قدر شیئر کی جانے لگی کہ خود نیویارک ٹائمز کو کہنا پڑا کہ ’یہ مکمل طور پر جعلی ہے۔‘
نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ ’یہ مکمل طور پر خود سے جعلی تصویر ہے۔۔۔ اور یہ مودی کی ایسی بہت سی پھیلائی گئی تصاویر میں سے ایک ہے۔‘
اس کے ساتھ اخبار نے ایک لنک شیئر کیا ہے اور انڈین صارفین کو آگاہ کیا ہے کہ اگر وہ نریندر مودی پر اس ادارے کی حقیقت میں کی جانے والی رپورٹنگ پڑھنا چاہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔
نیویارک ٹائمز نے مودی کی شیئر کی جانے والی تصویر پر سرخ لکیر لگا کر لکھا ہے کہ ’فوٹو شاپ کی ہوئی تصاویر کو آن لائن پر دوبارہ شیئر کرنا یا اسے پھیلانا غلط معلومات اور عدم یقین میں اضافہ کرتا ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جبکہ سچی اور قابل اعتماد صحافت کی سخت ضرورت ہو۔‘
نیویارک ٹائمز کے فوٹوشاپ کیے گئے پہلے صفحہ پر مودی کی ایک تصویر ہے جس میں وہ ایک ڈائری میں کچھ لکھ رہے ہیں جبکہ ان کی تصویر کے اوپر والے حصے پر لکھا ہے ’دنیا کی آخری، بہترین امید‘ اور پھر اس کے ساتھ لکھا ہے کہ ’دنیا کے سب سے محبوب اور سب سے طاقتور لیڈر ہمارے یہاں ہمیں فیض دینے کے لیے آئے ہیں۔‘اس فیک تصویر کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد بی جے پی کے بہت سے حامیوں نے لکھا کہ انڈیا کے لیے یہ ’بہت فخر کی بات ہے‘ جبکہ بہت سوں نے لکھا کہ انھیں ’مودی جی پر فخر ہے۔‘
کویتا میئر نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’مجھے اپنے وزیر اعظم پر فخر ہے۔‘ ویسے ان کے ٹوئٹر ہینڈل کی ٹیگ لائن کے طور پر لکھا ہے کہ ’دیس سے پیار یا مودی سے پیار۔۔۔ ایک ہی بات ہے۔‘
بی جے پی یوتھ ونگ کے قومی جنرل سیکریٹری روہت چہل نے بھی اس کے متعلق ایک ٹویٹ کو ری ٹویٹ کیا۔ واضح رہے کہ روہت چہل کے تقریبا 75 ہزار فالوورز ہیں۔انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی داڑھی کیوں بڑھا رہے ہیں؟’عرب حکمران بہت کمزور ہیں لیکن معاشی بائیکاٹ سے انڈیا کو تکلیف ہوگی‘
نینا نامی ایک صارف نے بہت ساری تالیوں کی ایموجی کے ساتھ لکھا کہ ’مودی جی دنیا کے سب سے محبوب اور طاقتور لیڈر ہیں۔ یہ نیویارک ٹائمز کی شہ سرخی ہے۔‘
اس کے جواب میں اجی راشد علی نامی ایک صارف نے لکھا: ‘میڈم، اتنی بڑی بھکت نہ بنیے۔ پہلے سچائی جانیے۔ پہلا یہ کہ نیویارک ٹائمز کے فرنٹ پیج پر ایسا کچھ نہیں چھپا۔ دوسرے اخبار کے مہینے کی سپیلنگ دیکھ لیجیے کہ ستمبر کو کس طرح لکھا ہے۔‘
واضح رہے کہ گذشتہ دنوں انڈین سوشل میڈیا پر ستمبر کی ہجے بھی ٹرینڈ کر رہے تھے اور بہت سے لوگ بھکتوں کا مذاق اڑا رہے تھے کہ انھیں کم از کم بنیادی تعلیم حاصل کرنی چاہیے جبکہ بہت سے لوگ طنز کے ساتھ لکھ رہے تھے کہ ’ستمبر‘ کی نئی اور صحیح سپیلنگ دینے کے لیے مودی جی کا شکریہ۔
سالم حفیظی نامی ٹوئٹر صارف نے #سیٹپیمبر ہیش ٹیگ کے ساتھ دو تصاویر پیش کیں اور لکھا: فوٹو شاپ کر لیا وہ تو ٹھیک ہے۔ بھکتو ستبمر کی سپیلنگ بھی نہیں آتے تمہیں۔ دوسری تصویر اصل پہلے صفحے کی ہے۔‘
واضح رہے کہ نریندر مودی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے اور امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگر عالمی رہنماؤں سے ملنے کے لیے 24 اور 25 ستمبر دو دنوں کا امریکہ کا دورہ کیا تھا اور نیویارک ٹائمز کے اخبار کی فوٹوشاپ تصویر پر 26 ستمبر کی تاریخ نظر آتی ہے۔
لیکن جب آپ 26 ستمبر کے نیویارک ٹائمز کی اصل کاپی دیکھیں گے تو اس کے کسی بھی صفحے پر انڈیا کے وزیر اعظم کے متعلق کوئی خبر موجود نہیں ہے۔
بہر حال جب سے یہ تصویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے اسی وقت سے اس کی مخالفت میں ٹویٹس بھی گردش کر رہی ہیں۔ اور نیویارک میں ’گو بیک مودی‘ کے پوسٹر کے ساتھ چند مظاہرین کی تصویر بھی پوسٹ کی جا رہی ہے اور لکھا جا رہا ہے کہ ’یہ ہے اصل تصویر اور اصل حقیقت۔‘
نیوز باکس انڈیا نامی ایک ٹوئٹر ہینڈل سے ایک تصویر پوسٹ کی گئی کہ کس طرح ٹائم سکوائر پر مودی کے خلاف جنوبی ایشیا اور انڈین برادری نے جلوس نکالا۔
اسی طرح انڈین امریکن مسلم کونسل نے ایک تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’نیویارک میں اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر وزیر اعظم نریندر مودی اور آر ایس ایس کے خلاف بڑا مظاہرہ ہوا۔‘ناقدین اس پورے معاملے کو ‘ہال آف شیم’ یعنی شرمندگی کا باعث بھی بتا رہے ہیں۔
کانگریس یوتھ ونگ کے قومی صدر شرینیواس بی وی نے لکھا: بی جے پی آئی ٹی سیل اور مودی بھکتوں کے لیے انٹرنیشنل ہال آف شیم۔ اب اس بات پر جشن منانا شروع نہ کر دینا کہ نیویارک ٹائمز نے گلوبل لیڈر کے بارے میں ٹویٹ کیا ہے۔‘
معروف صحافی رعنا ایوب نے لکھا: ’کتنی شرمندگی کی بات ہے! نیویارک ٹائمز کو یہ وضاحت دینی پڑی کہ پورے صفحے پر مودی کی تصویر اور ان کی تعریف میں دی جانے والی شہ سرخی جسے بہت سے بی جے پی رہنماؤں نے شیئر کیا وہ جعلی ہے۔ اگر کچھ نہیں تو ہمارے سیاستدانوں کی فوٹوشاپ کرنے کی مہارت ہی بین الاقوامی خبر بنا رہی ہے۔‘
نیویارک ٹائمز کی جانب سے وضاحت کے بعد بہت سے لوگ محض خفت مٹانے کے لیے لکھ رہے ہیں کہ یہ ایک ‘میم’ یعنی مذاق تھا اور اسے بھی لوگوں نے سنجیدگی سے لے لیا۔
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے لکھا کہ آلٹ نیوز کو اس کے متعلق 25 سے زیادہ فون کالز آئے کہ نیویارک ٹائمز کی کلپنگ کی اصلیت بتائیں۔ انھوں نے لکھا: ’ذرا سوچیے کہ یہ جعلی دعوی انڈیا میں کس قدر وائرل ہوا ہے۔‘