اسرو: عظمت کی داستان

0

انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کے سویں مشن کی کامیابی محض ایک تکنیکی کارنامہ نہیں بلکہ ایک ایسی داستان ہے جو حوصلے، عزم اور سائنسی جستجو سے عبارت ہے۔ سری ہری کوٹا سے 1979 میں جو سفر شروع ہوا، وہ اب ایک ایسی عظمت کو چھو رہا ہے جو نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کیلئے ایک مثال ہے۔ 29 جنوری 2025 کو اسرو نے اپنے 100ویں خلائی لانچ کے سنگ میل کو عبور کیا، جب GSLV F-15راکٹ NVS-02 نیویگیشن سیٹلائٹ کو کامیابی کے ساتھ مدار میں لے گیا۔ یہ لانچ ستیش دھون اسپیس سینٹر سے انجام پایا اور اس کامیابی نے اسرو کو عالمی خلائی ایجنسیوں کی صف میں مزید مستحکم مقام عطا کیا۔

ان سو مشنز میں شامل مریخ کا مدار مشن،چندریان سیریز اور آدتیہ L1 جیسے منصوبے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہندوستان خلا میں اپنی ایک منفرد پہچان قائم کر چکا ہے۔ لیکن جہاں یہ کامیابیاں ہیں وہیں اس راہ میں آنے والی سیاسی رکاوٹیں اور بیوروکریسی کے مسائل بھی ایک تلخ حقیقت ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چندریان 2 کی ناکامی کے بعد، ہندوستانی سائنس دانوں نے اپنی محنت اور عزم سے چندریان 3 کو شاندار کامیابی سے ہمکنار کیا جو ایک غیرمعمولی سائنسی جیت تھی۔ لیکن بدقسمتی سے اسرو کی ان کامیابیوں کوبھارتیہ جنتاپارٹی خاص کر وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تشہیر کیلئے استعمال کرکے اسرو کی ساکھ کوگہنادیا تھا۔ مگراب اسرو اس جھٹکے سے نہ صرف سنبھل چکا ہے بلکہ کامیابی کا نیا سنگ میل عبور کررہاہے۔

اسرو کی کامیابیوں کی بنیاد سائنسدانوں کی انتھک محنت اور لگن پر ہے، جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی اپنی لگن کو کمزور نہیں پڑنے دیا۔ ایک وقت تھا جب ہندوستان میں خلائی تحقیق ایک خواب سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ راکٹ کے پرزے سائیکلوں اور بیل گاڑیوں پر لاد کر لانچ پیڈ تک پہنچائے جاتے تھے، لیکن آج وہی ملک خلا میں قدم جما چکا ہے اور چاند، سورج اور مریخ جیسے فلکی اجسام کے اسرار کھولنے میں مصروف ہے۔ یہ ترقی سائنس دانوں کے وژن، پختہ ارادے اور محدود وسائل میں بہترین نتائج حاصل کرنے کی صلاحیت کی مظہر ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستانی خلائی تحقیق اب محض سائنسی تحقیق تک محدود نہیں رہی بلکہ اس میں تجارتی پہلو بھی شامل ہو گیا ہے۔ غیر ملکی سیٹلائٹس کے کامیاب لانچ، نجی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک اور بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے اسرو کو ایک عالمی کھلاڑی بنا دیا ہے۔ مگر اس کامیابی کو مستحکم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ سیاست سے بالاتر ہو کر طویل المدتی منصوبہ بندی کی جائے اور خلائی تحقیق کو ہر قسم کے سرکاری دباؤ سے آزاد رکھا جائے۔

ستیش دھون خلائی مرکز کی ترقی اور تیسری لانچ پیڈ کی تعمیر مستقبل کے امکانات کو وسعت دے گی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ملک اس ترقی کی رفتار کو برقرار رکھ سکے گا؟ اسرو کے چیئرمین کا یہ کہنا کہ اگلے پانچ سالوں میں مزید سو لانچز کیے جا سکتے ہیں، ایک بلند ہمت دعویٰ ہے، لیکن اس کیلئے درکار وسائل اور حکومتی عزم کس حد تک مہیا ہوں گے، یہ ایک اہم سوال ہے۔

ہندوستان کی خلائی تحقیق کی تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی صرف خواب دیکھنے سے ممکن نہیں ہوتی بلکہ ان خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک مستحکم نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج اسرو نے جو مقام حاصل کیا ہے وہ ایک غیر معمولی کامیابی ہے، لیکن اگر مستقبل میں اس رفتار کو برقرار رکھنا ہے تو ضروری ہے کہ سائنسی ترقی کو سیاست کی بیڑیاں نہ پہنائی جائیں۔ حقیقی ترقی وہی ہوتی ہے جس میں سائنسداں آزاد ہوں، وسائل دستیاب ہوں اور پالیسیز کسی بھی ذاتی مفاد کے بجائے قومی ترقی کو مدنظر رکھ کر بنائی جائیں۔

اگر ہندوستان کو خلا میں اپنی پوزیشن مزید مستحکم کرنی ہے تو اسے اپنے سائنسی اداروں کو خودمختار بنانا ہوگا، بیوروکریٹک تاخیر کو ختم کرنا ہوگا اور خلائی تحقیق کو ایک مسلسل اور غیر متزلزل حمایت فراہم کرنی ہوگی۔بلاشبہ حکومت کا سائنسی اداروں کی سرپرستی کرنا ضروری ہے، لیکن حقیقی ترقی تبھی ممکن ہے جب ان کامیابیوں کو محض سیاسی مقاصد کے بجائے خلائی تحقیق کے فروغ کیلئے ایک مستقل حکمت عملی کے تحت استعمال کیا جائے۔ ضروری ہے کہ حکومتیں محض دعوئوں پر اکتفا نہ کریں بلکہ تحقیق و ترقی کے شعبے میں مستقل سرمایہ کاری کو یقینی بنائیں تاکہ مستقبل میں ہندوستانی خلائی مشنز مزید کامیابیاں حاصل کر سکیں۔ اسرو کی عظیم کامیابیوں کے باوجود، اگر سیاست اور بیوروکریسی کی رکاوٹیں دور نہ کی گئیں تو یہ ترقی سست روی کا شکار ہو سکتی ہے۔ مستقبل کے چندریان اور گگن یان مشنز، ہندوستانی خلائی اسٹیشن اور دیگر بین الاقوامی اشتراکات صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتے ہیں جب سائنس کو سیاست کی آلائشوں سے پاک رکھا جائے اور حقیقی معنوں میں ترقی کے دروازے کھولے جائیں۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS