انوراگ مشر
کھانا پانی روکنے کی اسٹرٹیجی سب سے پہلے دوسری عالمی جنگ میں اتحادی طاقتوں نے محوری قوتوں کے خلاف اپنائی تھی لیکن وہ فوج کے خلاف تھی۔ اس سے عام لوگ متاثر نہیں ہوئے تھے۔ اسے، جسے بالو اسطہ طریقوں سے اسٹرٹیجک پلان کہا جاتا ہے، فوج کی لڑائی میں بھی بڑی اہمیت حاصل ہے مگر کسی ملک کے غیر مسلح عوام کے خلاف اس اسٹرٹیجی کے استعمال کا برعکس اثر ہوتا ہے۔ یہی غزہ میں ہو رہا ہے۔
خوراک روکنے کی اسٹرٹیجی عوام کے خلاف اپنانا بالکل نچلے درجے کی پالیسی ہے لیکن اسی پالیسی پر اسرائیلی حکومت عمل پیرا ہے۔ اس سے اس کی رہی سہی ساکھ بھی خراب ہو رہی ہے۔ اس کے خلاف عالمی سطح پر غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت یہ جواز پیش کرتی ہے کہ وہ اپنے وجود کے لیے لڑ رہی ہے مگر سچ یہ ہے کہ غزہ عالمی اور علاقائی طاقتوں کے اظہار کا مرکز بن گیا ہے اور اس سے عام لوگوں کی جانیں جا رہی ہیں۔ جو بچ گئے ہیں، وہ غذائی قلت سے جانیں گنوانے کے کگار پر ہیں۔
یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ایک بار بین الاقوامی معاہدوں کے تحت اگر کوئی ملک عالم وجود میں آجاتا ہے تو اس کے خلاف یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ ہم آپ کے وجود کو بالکل ہی نہیں مانتے ہیں۔ اسرائیل کے لیے خطے کے عرب ملکوں کا رویہ یہی رہا ہے جبکہ بدلتے حالات کے ساتھ وہ اس طرح پلٹے ہیں کہ غزہ پر اتنا بھی نہیں بول پا رہے جتنا دیگر ممالک نے بولا ہے۔ دوسری طرف ان میں سے کئی کے خفیہ طور پر اسرائیل کے ساتھ ہونے کی باتیں کہی جاتی ہیں۔ اصل میں بین الاقوامی سطح پر تیل کے کھیل نے اسرائیل کو مستحکم بنا دیا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کو مشرق وسطیٰ کو ڈرانے کے لیے ایک ملک چاہیے تھا تاکہ وہ قابو میں رہیں۔ یہ کام اسرائیل بخوبی انجام دیتا رہا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی یوروپی ممالک کے پشت پر ہونے کی وجہ سے ہی خطے کا کوئی ملک اسرائیل کے خلاف زیادہ بول نہیں پاتا ہے۔
عرب دنیا کو یہ سوچنا چاہیے اور تاریخ سے سیکھنا چاہیے کہ جس طرح سے مغربی طاقتوں نے ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ کے بیج بوئے اسی طرح ایران چھوڑتے ہوئے عراق اور ایران کے بیچ بھی جنگ کے بیج بوئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کویت کے خلاف عراق کی کارروائی سے پیدا بحران سے لے کر غزہ جنگ تک خطے کے ملکوں میں باہمی اختلاف رائے کا جو سلسلہ رہا ہے، مغربی طاقتوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے اور اپنے فوجی اڈے وہاں بنائے ہیں۔ عرب دنیا کی جو دولت تھی-زمین کے اندر کا تیل-اس پر قبضہ جمایا ہے، ان کے قدرتی وسائل کو ذرا ذرا سی لالچ دے کر لوٹا ہے۔ ہندوستان کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کا یہ قول یہاں پر بھی فٹ بیٹھتا ہے کہ ہم پڑوسی نہیں بدل سکتے۔ اسی طرز پر کام کرتے ہوئے عرب دنیا کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اسرائیل کے وجود سے انکار کرنے کے بجائے اس سے ڈیل کریں، مسئلۂ فلسطین کا دو ریاستی حل نکالیں۔ اس سے مغربی طاقتوں کی عرب دنیا میں مداخلت کم ہوگی، حالات بہتر ہونے سے غزہ کے غریب لوگوں کے ساتھ انصاف ہوگا، وہ اسرائیلی حملوں سے بچیں گے۔
اسرائیل کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ جنگ کتنی بھی گمبھیر اور مہلک کیوں نہ ہو، عوام کا کھانا پانی بند کرنے سے اس کی ہی ساکھ گرے گی۔ بھلے ہی وہ بڑی دفاعی طاقت کیوں نہ ہو، انسانی نقطۂ نظر سے اس کی کوئی اہمیت دنیا میں نہیں رہ جائے گی۔ اور کسی کی ساکھ انسانی بنیاد پر گرنا اتنا بڑا نقصان ہوتا ہے کہ اس کی بھرپائی ممکن نہیں ہوتی۔ وہ پرانی ساکھ دوبارہ حاصل نہیں کر پاتا۔ مغربی طاقتوں پر اسرائیل کو زیادہ بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ کام نکلتے ہی وہ اسے چھوڑ دیں گی۔ اسے انہیں عرب پڑوسیوں کے ساتھ رہنا ہوگا۔ مغربی طاقتوں کا منصوبہ اور منشا حالیہ ہند-پاک جنگ میں بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔ انہیں سمجھنا اب کوئی مشکل نہیں۔
(نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہارا سے گفتگو پرمبنی)
(مضمون نگار اٹل جن سمواد اور سیواسنستھان کے سربراہ ہیں)
panuragmishra@gmail.com