فلسطینیوں کو کس طرح زمین سے بے دخل کیاگیا 1946سے 2000 تک
شاہنواز احمد صدیقی
اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں اپنے استبداد کو برقرار رکھنے کے لیے فوج اور نیم فوجی دستوں کو مکمل چھوٹ دے رکھی ہے یہ حقیقت ہم ہر روز دیکھ رہے ہیں اور براہ راست نشریات میں دیکھ رہے ہیں۔ رمضان بھر صہیونی فوج بیت المقدس میں داخل ہو کر نمازیوں پر آنسوگیس کے گولے اور اسٹن بم داغتی رہی، مسجد کی بے حرمتی کرتی رہی اور اب حال ہی میں ایک خاتون صحافی شیرین ابو عاقلہ کو گولی مار کر قتل کرنے اور پھر ان کے جنازے کی بے حرمتی کے معاملہ میں اسرائیل کی فوج نے جو مذموم وطیرہ اختیار کیا وہ انتہائی سفاکانہ تھا اور اسی جرم کے ارتکاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ گولی مارنے والے بے خوف تھے کہ انسانیت اور قانونی بالادستی کے اصول ان پر لاگو نہیں ہوتے ہیں۔ بیت المقدس میں ایک نمازی خاتون کے گھٹنے پر وار کرنا، بوڑھوں کو دھکا دینا اور بچوں کو دھمکا کر ان کو ہراساں کرنا اور ان کے حوصلے توڑنے کے واقعات کو براہ راست ٹیلی ویژن سوشل میڈیا پر پوری دنیا نے دیکھا۔ شیرین کو موت کے گھاٹ اتارنے اور ان کے جنازے کی بے حرمتی کے انداز سے بالکل نہیں لگتا ہے کہ صہیونی فوج کو اس بات کا ڈر ہو کہ عالمی برادری کی اس واقعہ پر نظر رکوری ہوگی اور اس جابرانہ طور طریقوں پر سوال اٹھے گا۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ یایر لاپیڈ نے اس قتل کی تفتیش کے لیے مشترکہ تفتیش کی پیش کش کی ہے۔ اسرائیل کی مشترکہ تفتیش کی پیش کش کس حد تک عالمی رائے عامہ کے دبائو کا نتیجہ ہے۔ یہی نہیں وزیر اعظم نفتالی بینٹ کی طرف سے آنے والے بیانات اور پارلیمنٹ (کینسٹ) میں ان کے طرز عمل اور وضاحتی بیانات سے بھی اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس واقعہ سے اسرائیل کی مکروہ پالیسی بے نقاب ہوئی ہے اور لیپا پوتی کی کوشش بھی بری طرح ناکام ہوئی ہے۔
1967 اور اس کے بعد ہی اسرائیل کی سفاکی مستقل بری طرح ’طشت از بام‘بھی ہورہی ہے اور عالمی ادارے اورانسانی حقوق کی تنظیمیں واویلا مچا کر خاموش ہوجاتے ہیں مگر اسرائیل اپنے منصوبوں پر بلا روک ٹوک عمل کررہا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک رضاکار ادارہ ’بی ٹپ سلیم‘ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کسی بھی واقعہ کی تفتیش کے لیے راضی ہوتا ہے تو معمولی افسران اور اہلکاروں کو آگے کر دیتا ہے اور اعلیٰ افسران اور پالیسی وضع کرنے والے ادارے، محکمے وارداتوں کو بچالیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بیت المقدس میں برقعہ پوش خاتون نمازیوںکے گھٹنوں پروارکرنااور اس طرح کے کھلے عام تشدد کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچانا ان کے خلاف مقدمہ چلانا مشکل ہے کیونکہ پولیس اہلکار یا فوج آنسو گیس کے اثرات سے بچنے کے لیے جو ساز و سامان ماسک اور ہیلمٹ کا استعمال کرتے ہیں اس سے کسی بھی سیکورٹی اہلکار کی شناخت آسان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی حکام موقع واردات پر موجود تعینات ملزم اہلکاروں کی تفصیلات اور تحریری احکامات اور آلۂ قتل و دیگر تفصیلات بتانے میں آنا کانی کرتے ہیں اور اس پر اٹھنے والے سوالات کو اپنے اقتدار اعلیٰ کے تحفظ یا نظم و نسق سے جوڑکرتادیبی کارروائی کرنے میں تامل کرتے ہیں۔اسرائیل کا تفتیشی نظام فرضی ہے اگر اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل کھلم کھلا بھی ہو تو تب بھی اس واردات یا قتل کے لیے کسی شخص یا اہلکار کے خلاف الزام طے کرنا ناممکن ہے۔ پولیس اور فوجی اہلکاروں کو کھلی چھوٹ ملی ہوتی ہے۔ فوج اپنے خلاف تفتیش خود ہی کرتی ہے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا سمجھا جاسکتا ہے۔ ملزم فوجی جو کہتا ہے اس کو سن لیا جاتا ہے، اس کی بات کو کوئی چیلنج نہیں کرتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا انٹرویو ہورہا ہے نہ کہ تفتیش ہو رہی ہے۔ ملزم فوجی اس سے جرح نہیں کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کی بات سے اختلاف رائے کیا جاتا ہے۔ شواہد نہیں فراہم کیے جاتے ہیں تفتیش کرنے میں مدت گزرجاتی ہے اور یہ کارروائی بھی صرف نچلے درجہ کے اہلکاروں کے خلاف ہوتی ہے۔ وہ افراد جو سپاہیوں کو گولی چلانے کی اجازت دیتے ہیں یا ان کو دیگر احکامات دیتے ہیں ان پر کوئی انکوائری نہیں ہوتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل کی فوج کا ایڈووکیٹ جنرل اکثر وہی ہوتاہے جو اسرائیلی فوج کی تفتیش کرتا ہے۔ اس عہدیدار کا کام ہی اس طرح کی استبدادی پالیسیوں کو وضح کرنا ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں فائرنگ کرنے کی اجازت اور ہدایت دینے والا کبھی بھی تفتیش کا سامنا نہیں کرپاتا ہے اور وہ ہمیشہ بچا ہی رہتا ہے۔ اسرائیل کی نسل پرستی پر مبنی پالیسیوں کو جاری رکھنے کیلئے اس نظام کو برقرار رکھنا ضروری ہے اس جابرانہ نظام سے رعایا کو اپنا محکوم بنائے رکھا جاسکتاہے۔
لہٰذا اسرائیل نے شیرین کے قتل کی مشترکہ تفتیش کی جو بات کہی ہے وہ خلاف واقعہ ہے، اس کے پروپیگنڈے سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔اسرائیل کا پورا نظام استبدادی اور غاصبانہ پالیسیوں پر مبنی ہے۔ وہ پوری سرزمین فلسطین کو صہیونی رنگ میں رنگ دینا چاہتا ہے۔ 1948 سے لے کر اب تک اسرائیلی فوج فلسطین کی90 فیصد زمین ہتھیا چکی ہے۔ مغربی کنارے میں 280 غیرقانونی بستیوں کو بنا کر ان میں 600,000 یہودیوں کو بسا چکی ہے اور ایک بھی بستی فلسطینیوں کے لیے نہیں بنائی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی جائیداد کے حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے یہودیوں کو اسرائیل میں شہریت دی جاتی ہے ان کی اولادوں اور پوتی پوتے کو بھی اختیارات دے دئیے جاتے ہیں۔ جبکہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے کنٹرول والے علاقوں میں رہنے کے لیے منتقل نہیں ہونے دیا جاتا ہے۔ چاہے وہ ان ہی علاقوں کے رہنے والے آبائی شہری ہی کیوں نہ ہوں۔
اسرائیل کا قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی بھی فلسطینی فرد اسرائیلی کے ساتھ شادی کرکے گرین علاقوں میں متصل ہو جائے اور وہ اسرائیل کا شہری ہوجائے۔ اسرائیل کے علاوہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے کنٹرول والے علاقوں میں نقل و حرکت کی آزادانہ طور پر اجازت نہیں ہے۔ فلسطینی بغیر پرمٹ کے اسرائیل کے کنٹرول والے علاقوں میں داخل نہیں ہوسکتے ہیں ان علاقوں سے نکلنے کے لیے بھی ان کو اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان تمام اقدامات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ کس طرح اسرائیل نسل پرستی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔