مشکل میں اسرائیلی بھی

0

اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو بظاہر ایک طاقتور حکمراں کے طورپر نظر آرہے ہیں ۔ وہ اپنے میزائلوں، جہازوں سے ایک بڑی آبادی کوختم کرچکے ہیں۔ 15ہزار فلسطینیوںکوموت کے گھاٹ اتارنے کے باوجود ان کی پیاس بجھی نہیں ہے۔ آج پھر ان کے جہازوں نے غزہ پر بمباری کی ہے جس میں درجنوں افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ مگر کچھ صاحب نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو جو حربے اختیار کر رہے ہیں وہ اپنے داخلی امورپر قابو پانے اور اپنے خلاف اٹھ رہی آوازوں کو دبانے کا بھی حربہ ہیں۔
نومبر کے وسط میں ایک رائے شماری میں ایک بڑے طبقہ کی رائے تھی کہ ان کے حمایتی بھی چاہتے ہیں کہ وہ استعفیٰ دے کر خطے میں غیریقینی صورت حال کوختم کریں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسرائیل میں اقتدار او ر مقبولیت حاصل کرنے اورحکمرانوں میں زیادہ فوجی اور خفیہ ایجنسیوں کے ذمہ داران اور سربراہان ہی رہے ہیں اور نیتن یاہو کا شمار ان وزیراعظموں میں ہوتا ہے جو ملک کی دفاعی ایجنسیوںاور اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔
یہ اسرائیل کی ضرورت ہی ہے ۔ اسرائیل کا کوئی سربراہ مملکت اورحکومت دفاعی میدان کا ماہر نہ ہو تو اس کے لئے اپنا وجود بچانا مشکل ہوجائے گا۔ اسرائیل کو اپنے وجود کو لے کر ہمیشہ خطرہ لگا رہتا ہے۔ یہ کوئی غیرواجبی خوف نہیں ہے۔ اسرائیل کا وجود بھی فوجی طاقت پر معرض وجود میں آیا اور اب اس کو اپنے کو بچاکر رکھنے اور اپنی مملکت کی توسیع کرنے کے لئے فوجی طاقت، ہتھیاروں اور ماہرین اور لڑنے والوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیل نے فوج کشی کے ساتھ نفسیاتی جنگ کا حربہ بھی اختیار کیا ہے۔ اس نے اپنی معیشت کو ہتھیار سازی کی صنعت سے جوڑا ہے اوراس کے کارخانوں میں بنائے گئے ساز وسامان کی اہمیت سے دنیا واقف ہے۔ کیا دوست اور کیا دشمن ہر کوئی اس کے ہتھیاروں کا خریدار اور اس کی دفاعی ایجنسیوں اوراداروں کے ماہرین اور جاسوسوں کی بنیاد پر اپنا اثراور نیٹ ورک مضبوط کررہا ہے۔ دنیا کے کئی مسلم اور عرب ممالک اس کے سازوسامان اوراوزار کے قائل اور خریدار ہیں۔ مراقش ، سوڈان، چاڈ اور بحرین اس کی مہارت سے پورا فائدہ اٹھارہے ہیں، مگر پوری دنیا میں اپنی طاقت، چالاکی کے لئے مشہوراسرائیل کے داخلی امور پہلے کی طرح مضبوط اور مستحکم دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ گزشتہ چھ سال میں پانچ انتخابات کے انعقاد نے اسرائیل کومختلف بحرانوں سے دوچار کیا ہے۔ بدلتی، گرتی حکومتوں سے اس کے نظام کا استحکام متزلزل ہوا ہے اور رہی سہی کسر 7؍اکتوبر کے واقعات نے پوری کردی ہے۔ حماس کے حملہ نے اسرائیل کے موجودہ فوجی نظام کی پول کھول دی ہے۔ اتنا بڑا حملہ حماس جیسی ادنیٰ سی جماعت نے انجام دے دیا اور اس کی کانوں کان اطلاع موساد جیسی خفیہ ایجنسیوں کو نہیں ہوئی۔
اس حملہ سے عالمی برادری میں اسرائیل کی پوزیشن تبدیل ہوئی ہے۔ سفارتی سطح پر ان کے اندھے حمایتیوں کی تعداد میں لگاتار کمی ہوتی جارہی ہے۔ یوروپ کے کئی ملکوںمیں اس بات پر تشویش ظاہر کی جارہی ہے کہ اسرائیل میں ایسا کیا خاص ہے کہ وہ بدترین مظالم کے باوجود اپنے آپ کو مظلوم اورمعصوم قرار دیتا رہے گا۔ اعلیٰ ترین عالمی اداروں کے سربراہان اور ذمہ داران کی باتوں کو نظرانداز کرے گا، اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو طاقت اورپروپیگنڈہ سے دبانے اور ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔ تقریباً انہی جذبات اور نظریات کا اظہار اسرائیل کے اندر ان کے سیاسی مخالفین اور معاونین دونوں اٹھا رہے ہیں۔ ایک طبقہ کی رائے ہے کہ نیتن یاہو کو اس جنگ کے خاتمہ پر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجانا چاہئے اوراستعفیٰ دے دینا چاہئے۔
خیال رہے کہ 7؍اکتوبر کے حملہ کے بعد پوری اسرائیلی قیادت نے نیتن یاہو حکومت کو مکمل اور غیرمشروط حمایت دینے کا اعلان کیا تھا۔ ایک قومی اتفاق رائے کی حکومت اورکابینہ کی بات کہی تھی۔ کابینہ کی میٹنگ میں اپوزیشن کے ممبران کی شرکت نے نیتن یاہو کواعتماد دیا تھا مگر بروقت ہی ایسا ہوا تھا کہ اسرائیل کو لگ رہا تھا کہ اتحاد کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے، مگر اب حالات کے بہتر ہونے کے بعداکثر اسرائیلیوںکولگتا ہے کہ نیتن یاہو کی پالیسیاں ملک کو اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے بحران سے دوچار کر رہی ہیں۔ ایک بڑے طبقہ کی رائے ہے کہ اسرائیل کے اندر گزشتہ چھ ماہ سے جو مظاہرے ہورہے تھے، ان کی وجہ سے ان کو یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے۔ نیتن یاہو نے اپنے سیاسی وجود کوبرقرار رکھنے کے لئے پورے ملک میں ایسے قوانین کے نفاذ کا راستہ طے کیا تھا جو ان کو غیرمعمولی اختیارات دینے والے تھے۔ اسی قانون سازی کے خلاف اسرائیل میں غیرمعمولی سطح کے مظاہرے ہورہے ہیں۔ اس وقت جب یہ جنگ جاری ہے اس وقت بھی مظاہرین سڑکوں پر ہیںاوران کے ساتھ وہ لو گ بھی مظاہروں میں شامل ہوگئے ہیں جن کے رشتہ دار حماس کی کارروائی میں مارے گئے تھے یا اغوا ہوگئے تھے۔ ٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS