غزہ کی آبادی کی جبری منتقلی کا اسرائیلی منصوبہ

0

تل ابیب، (یو این آئی: اسرائیل کے وزیر دفاع نے غزہ کے تمام فلسطینیوں کو رفح کے ملبے پر قائم کیمپ میں زبردستی منتقل کرنے کا منصوبہ پیش کیا ہے، جسے قانونی ماہرین اور ماہرین تعلیم نے انسانیت کے خلاف جرائم کا خاکہ قرار دیا ہے۔

برطانوی اخبار دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کاٹز نے کہا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی فوج کو رفح شہر کے ملبے پر ایک کیمپ قائم کرنے کا حکم دیا ہے، انہوں نے اس کیمپ کو ’انسانی ہمدردی کا شہر‘ کہا ہے۔
اسرائیلی اخبار ہیرٹز نے رپورٹ کیا کہ کاٹز نے اسرائیلی صحافیوں کو بریفنگ میں بتایا کہ فلسطینیوں کو کیمپ میں داخل ہونے سے پہلے ’سیکیورٹی اسکریننگ‘ سے گزرنا ہوگا، اور ایک بار اندر جانے کے بعد انہیں کیمپ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اسرائیلی فورسز اس جگہ کے اردگرد کنٹرول سنبھالیں گی، اور ابتدائی طور پر تقریباً 6 لاکھ فلسطینیوں کو اس علاقے میں منتقل کیا جائے گا، جن میں زیادہ تر وہ لوگ ہوں گے، جو اس وقت المواسی کے علاقے میں بے گھر ہیں۔

اسرائیل کاٹز کے بقول بتدریج پورے غزہ کی آبادی کو وہاں منتقل کیا جائے گا، اور اسرائیل کا مقصد ’ہجرت کے منصوبے‘ پر عمل درآمد کرنا ہے، جو ’ہو کر رہے گا‘۔
رواں سال کے آغاز میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اس تجویز کے بعد کہ بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو غزہ سے نکل جانا چاہیے تاکہ علاقے کو ’صاف‘ کیا جا سکے، اسرائیلی سیاستدانوں بشمول وزیر اعظم نیتن یاہو نے جبری بے دخلی کے منصوبے کو جوش و خروش سے اپنایا، اور اکثر اسے امریکی منصوبے کے طور پر پیش کیا۔
اسرائیلی انسانی حقوق کے معروف وکیل مائیکل سفارد نے کہا کہ کاٹز کا یہ منصوبہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے، یہ اس بیان کی بھی نفی کرتا ہے جو کچھ ہی گھنٹے قبل اسرائیلی فوج کے سربراہ کے دفتر نے جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطینیوں کو صرف ان کی حفاظت کے لیے غزہ کے اندر منتقل کیا جا رہا ہے۔

سفارد نے کہا کہ کاٹز نے انسانیت کے خلاف ایک جرم کا عملی منصوبہ پیش کیا ہے، اس سے کم کچھ نہیں، یہ سب غزہ کی پٹی کے جنوبی سرے کی طرف آبادی کی منتقلی اور پھر باہر بے دخلی کے لیے ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ اسرائیلی حکومت اب بھی اس بے دخلی کو ’رضاکارانہ‘ کہتی ہے، لیکن غزہ میں لوگ اتنے دباؤ میں ہیں کہ کسی بھی طرح کی نقل مکانی کو قانونی طور پر رضامندی نہیں کہا جا سکتا۔
جب آپ کسی کو اس کے وطن سے زبردستی نکالتے ہیں تو وہ جنگی جرم ہوتا ہے، اور اگر یہ بڑے پیمانے پر کیا جائے جیسا کہ اس منصوبے میں ہے، تو یہ انسانیت کے خلاف جرم بن جاتا ہے۔
اسرائیل کاٹز نے اپنا منصوبہ اس وقت پیش کیا، جب نیتن یاہو واشنگٹن ڈی سی پہنچے، جہاں وہ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کرنے والے تھے، اور ان پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا، تاکہ 21 ماہ طویل جنگ کو ختم یا کم از کم عارضی طور پر روکا جا سکے۔

کاٹز نے کہا کہ انسانی ہمدردی کے شہر پر کام جنگ بندی کے دوران شروع کیا جا سکتا ہے، نیتن یاہو ان ملکوں کی تلاش میں ہیں جو فلسطینیوں کو اپنانے پر راضی ہوں۔
نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور اسرائیل دیگر ملکوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ فلسطینیوں کو ’بہتر مستقبل‘ فراہم کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اگر لوگ رہنا چاہتے ہیں تو رہ سکتے ہیں، لیکن اگر وہ جانا چاہتے ہیں تو انہیں جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔
اسرائیلی سیاستدان، جیسے وزیر خزانہ بیزل اسموٹریچ، بھی غزہ میں نئی اسرائیلی بستیاں قائم کرنے کے حامی رہے ہیں۔

رائٹرز نے پیر کو رپورٹ کیا کہ کیمپوں کی تعمیر کے منصوبے، ’جنہیں عبوری انسانی علاقے‘ کہا جا رہا ہے، پہلے ہی ٹرمپ انتظامیہ کو پیش کیے جا چکے تھے اور وائٹ ہاؤس میں ان پر بات ہوئی تھی۔
یہ 2 ارب ڈالر کا منصوبہ امریکی حمایت یافتہ غزہ ہیومینٹرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے نام سے پیش کیا گیا تھا۔ تاہم جی ایچ ایف نے اس منصوبے کی تردید کی اور کہا کہ رائٹرز کو نظر آنے والی سلائیڈز جی ایچ ایف کی دستاویز نہیں ہیں۔
فلسطینیوں کی ممکنہ جبری نقل مکانی کے بارے میں خدشات پہلے بھی پیدا ہو چکے ہیں، خاص طور پر ان فوجی احکامات کے بعد جو اس بہار کے آپریشن کے لیے جاری کیے گئے تھے۔
سفارد نے 3 ریزرو فوجیوں کی نمائندگی کی، جنہوں نے اسرائیلی عدالت میں درخواست دائر کی کہ فوج غزہ کی شہری آبادی کو اکٹھا کرنے اور منتقل کرنے کے احکامات واپس لے اور فلسطینیوں کی غزہ سے بے دخلی کے کسی بھی منصوبے پر پابندی عائد کرے۔

فوجی سربراہ ایال زمیر کے دفتر نے اپنے جواب میں کہا کہ فلسطینیوں کو ہٹانا یا انہیں غزہ کے ایک حصے میں اکٹھا کرنا فوجی آپریشن کے مقاصد میں شامل نہیں ہے۔
ہولوکاسٹ کے ماہر اور یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے پروفیسر، آموس گولڈبرگ نے کہا کہ یہ بیان کاٹز کے دعوؤں سے متضاد تھا، وزیر دفاع نے غزہ کو نسلی بنیادوں پر صاف کرنے کا واضح منصوبہ پیش کیا، اور ایک ایسا کیمپ یا عبوری مرکز بنانے کا منصوبہ جہاں سے فلسطینیوں کو بے دخل کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ نہ تو انسانی ہمدردی پر مبنی ہے، نہ ہی کوئی شہر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ شہر وہ ہوتا ہے، جہاں روزگار، آمدنی، تعلقات بنانے اور نقل و حرکت کی آزادی ہو، وہاں ہسپتال، اسکول، یونیورسٹیاں اور دفاتر ہوتے ہیں، یہ سب اس منصوبے میں نہیں ہے، یہ جگہ قابل رہائش نہیں ہو گی، بالکل ویسے ہی جیسے آج کل کے ’محفوظ علاقے‘ ناقابل رہائش ہیں۔

گولڈبرگ نے کہا کہ کاٹز کے منصوبے نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ان فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہوگا جو نئے کمپاؤنڈ میں منتقل ہونے کے اسرائیلی حکم کو ماننے سے انکار کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر فلسطینی اس منصوبے کو تسلیم نہیں کرتے اور مزاحمت کرتے ہیں، کیوں کہ وہ مکمل طور پر بے بس نہیں ہیں، تو پھر کیا ہو گا؟۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS