ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
جب نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل کی حالیہ حکومت کی تشکیل عمل میں آئی تھی، اس موقع سے اس کالم کے ذریعہ قارئین کو بتایا گیا تھا کہ جس قسم کی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کی مدد سے نیتن یاہو نے حکومت کی تشکیل کی ہے، اس کے پیش نظر یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ یہ اب تک کی اسرائیل کی سب سے زیادہ تشدد پسند حکومت ہوگی اور اس سے فلسطینیوں کے لیے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ چونکہ فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم اسرائیل کی تاریخ میں کچھ نئے نہیں ہیں، اس لیے دنیا کی ’مہذب‘ قوموں نے اس کے بارے میں نہ کوئی قابل ذکر بیان جاری کیا اور نہ ہی نیتن یاہو حکومت پر لگام کسا جا سکا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ فلسطینیوں کے قتل اور ان کے گھروں کو منہدم کرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اب تو صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں جو نمازی مسجد اقصیٰ میں جاتے ہیں، ان پر گولیاں برسائی جاتی ہیں اور نمازیوں کو مسجد اقصیٰ سے نکال دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی ان مظالم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ لیکن آج یہ مسئلہ زیر بحث نہیں ہے۔ ابھی اسرائیل کو ایک دوسرا مسئلہ درپیش ہے جس سے اس کو سخت اندرونی بحران لاحق ہوگیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کئی مہینوں سے اسرائیل میں احتجاجات اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جن میں ہر طبقہ اور فکر و نظر سے تعلق رکھنے والے یہودی حصہ لے رہے ہیں۔ احتجاج کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اسرائیل کے اندر رہ رہے ہیں اور وہ بھی جو اسرائیل کے باہر مغربی ملکوں میں بسے ہوئے ہیں اور اسرائیل کی مضبوط لابی کے طور پر وہاں کام کرتے ہیں۔ یہ احتجاج اس بات کے خلاف ہو رہے ہیں کہ نیتن یاہو کی سرکار نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہاں کی عدلیہ میں ضروری اصلاحات کی جائیں۔ وہ اصلاحالات نیتن یاہو کے پلان کے مطابق یہ ہیں کہ اسرائیلی حکومت کا اس بات پر کنٹرول ہونا چاہیے کہ ملک کا قاضی کون ہوگا۔ اس کے علاوہ اسرائیلی حکومت جو قرار دادیں پاس کرے یا قانون سازی کرے، اس میں نظر ثانی کا حق عدالت کے پاس نہ ہو تاکہ قانون سازی کا عمل آسان رہے اور عدالت پر لگام لگایا جا سکے۔ عدالت پر یہ لگام لگانا اس لیے ضروری ہے، کیونکہ نیتن یاہو کے بقول اسرائیل کی عدالت کا رجحان لبرل نظریہ کی طرف زیادہ رہتا ہے جس سے اس کے صہیونی مقاصد متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن نیتن یاہو کی اس تجویز کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو ملک کا عدالتی نظام اپنی حیثیت کھو دے گا اور ملک میں ضوابط اور توازن کا جو نظام قائم کیا گیا ہے، اس پر زد پڑے گی اور اسی لیے مظاہرین سمجھتے ہیں کہ حکومت کی مداخلت سے سپریم کورٹ کی حفاظت ضروری ہے، کیونکہ یہی وہ آہنی قلعہ ہے جو ظلم و زیادتی کے خلاف ان کی آخری پناہ گاہ ہے۔ یہ معاملہ اسرائیلیوں کے لیے اس قدر اہم ہے کہ احتجاج میں شامل ہونے والے وہ لوگ بھی ہیں جو عام طور سے احتجاجات میں حصہ نہیں لیتے ہیں۔ یعنی مظاہرین میں بڑے بڑے ماہر اقتصادیات، قانون کے اعلیٰ عہدیداران یہاں تک کہ اسرائیلی فوج کے عناصر بھی شامل ہیں۔ عدلیہ میں نیتن یاہو کی مجوزہ تبدیلی کو اس قدر خطرناک مانا جا رہا ہے کہ مغربی ملکوں میں بود باش رکھنے والے وہ یہودی بطور خاص اس کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہے ہیں جو اب تک اسرائیل کی تمام تر فلسطین مخالف اقدامات اور پالیسیوں میں ان کی حمایت کرتے رہے ہیں جیساکہ برطانیہ میں مقیم اسرائیلیوں نے نیتن یاہو کے انگلینڈ دورہ کے دوران احتجاج کیا اور برطانیہ کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ نیتن یاہو پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ اپنے موقف میں تبدیلی پر مجبور ہو جائیں۔ دراصل مغربی ملکوں میں بسنے والے یہ یہودی اس بات کو محسوس کر رہے ہیں کہ نیتن یاہو کے اقدامات کے منفی اثرات ان پر بھی پڑیں گے اور اسرائیل کو ان ملکوں کی حمایت نہیں مل پائے گی جو اب تک فلسطینیوں کے تمام تر حقوق کی پامالیوں کے باوجود اسے ملتی رہی ہے۔ اس کی ایک جھلک جو بائیڈن کے ذریعہ نیتن یاہو کو بھیجے گئے اس سخت پیغام سے ظاہر ہے جس میں بائیڈن نے مطالبہ کیا ہے کہ نیتن یاہو ’عدالتی اصلاح‘ کے منصوبہ سے باز آئیں۔ کہا جاتا ہے کہ بائیڈن نے پبلک میں جو پیغام بھیجا ہے وہ اتنا سخت نہیں ہے جتنا سخت پیغام نیتن یاہو کو پس پردہ دیا گیا ہے۔ بائیڈن کی تنقید کی شدت کا ہی اثر تھا کہ ایک اسرائیلی وزیر نے امریکہ کو یہ کہہ دیا کہ ’’اسرائیل امریکی جھنڈے پر لگا کوئی ستارہ نہیں ہے۔‘‘ گویا اسرائیلی وزیر یہ کہنا چاہتا ہے کہ اسرائیل کے داخلی معاملوں میں امریکی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اسرائیل کے لیے یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اس کے باقی مغربی دوست بھی اس مسئلہ پر اس کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو نے وقتی طور پر ’اصلاح‘ کے منصوبہ کو سرد بستہ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے اور پھر بھی احتجاج نہیں رک رہا ہے۔ البتہ اس پورے معاملہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ فلسطینیوں نے ان مظاہروں میں حصہ نہیں لیا ہے اور خود کو اس ہنگامہ سے بالکل الگ تھلگ رکھا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اسرائیل میں جاری ان مظاہروں کا تعلق خالص یہودی حقوق کی حفاظت سے ہے۔ ان یہودیوں نے ماضی میں شاذ و نادر ہی فلسطینیوں پر ڈھائے گئے مظالم کے خلاف اپنی آواز اٹھائی ہے۔ چھوٹے بڑے شہر، خیموں اور غزہ کے الگ الگ حصوں میں فلسطینیوں کو نشانہ بنایا گیا اور اب بھی اس کا سلسلہ جاری ہے لیکن ان کے حقوق کے دفاع میں یہ مظاہرین کبھی سامنے نہیں آئے۔ اسی طرح اسرائیل کی داخلی سیکورٹی کے وزیر ایتمار بن گویر نے جب یہ تجویز پیش کی اور نیتن یاہو نے اس کو قبول بھی کرلیا کہ نیشنل گارڈ میں سے ایک ایسی مسلح جماعت تیار کی جائے گی جو ویسٹ بینک میں فلسطینیوں کی زمینوں پر قابض ہونے اور وہاں صہیونی آبادکاروں کو بسانے میں مدد کرے گی تب بھی یہودی جماعتوں نے اس صریح ظلم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے خلاف آواز احتجاج بلند نہیں کیا۔ تازہ ترین واقعہ حوارہ کا ہے جہاں صہیونی آبادکاریوں نے اسرائیلی سیکورٹی فورسز کی حمایت میں فلسطینی گھروں کو جلایا اور مکینوں کو اذیتیں پہنچائیں۔ ان مظالم کے خلاف بین الاقوامی سطح پر تو تنقید کی آوازیں بلند ہوئیں اور ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا لیکن اسرائیل میں اس پر چند افراد کے علاوہ کسی نے بولنا پسند نہیں کیا۔ ان یہودیوں کے لیے فلسطینیوں کے حقوق کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی ان فلسطینیوں کے حقوق کے تئیں وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو اسرائیل میں آباد ہیں اور وہاں کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں۔ یہ 95 لاکھ عرب فلسطینی 1948 سے اسرائیل میں رہ رہے ہیں اور ہر سطح پر وہ بھید بھاؤ کا شکار ہوتے آ رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ان میں بہت سے لوگ اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ اس سے قبل جس حکومت کی تشکیل اسرائیل میں ہوئی تھی، اس کا وہ حصہ بھی تھے لیکن اس سے یہ حقیقت نہیں چھپ سکتی کہ ان کی واضح اکثریت یہودی اور صہیونی عصبیت کی وجہ سے ترقی کے مواقع سے محروم ہے۔ اسرائیل نے گرچہ اپنے مغربی حلیفوں کی نظر میں اپنی یہ امیج بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے مطلق العنان حکمرانوں کے درمیان جمہوریت کا واحد مرکز ہے جہاں قانون کی بالادستی ہے اور جمہوری اصولوں کے مطابق کسی شہری کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کیا جا تا ہے۔ لیکن اب وہ تصویر مسخ ہو رہی ہے اور ’’عدالتی اصلاح‘‘ کے مسئلہ پر اسرائیل اس قدر اندرونی خلفشار کا شکار ہو چکا ہے کہ اس کے صدر اسحاق ہرتسوگ کو یہ کہنا پڑا کہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں خانہ جنگی نہ شروع ہو جائے۔ اسرائیل کا ایک کامیاب جمہوری ملک ہونے کا جو دعویٰ ہے اس کو خود وہاں کے سپریم کورٹ نے اس وقت بٹہ لگادیا تھا جب اس نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے یہ اعلان کر دیا تھا کہ اسرائیل ایک یہودی قومیت والا ملک ہے اور اس طرح اس نے اسرائیل میں بسنے والے عرب فلسطینیوں کو دوسرے درجہ کا شہری قرار دیا تھا۔ اسی طرح وہاں کی عدالتوں نے ہمیشہ اسرائیلی عرب کے خلاف بھید بھاؤ سے دیگر مسئلوں میں بھی کام لیا ہے اور انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھنے میں اپنا کردار نبھایا ہے خواہ اس کا تعلق آبادکاری کے علاقوں کی توسیع سے رہا ہو یا ان کے گھروں کی مسماری کا ہو یا پھر اسرائیلی فوج کی زیادتیوں پر پردہ ڈالنے سے رہا ہو۔آج فوج کے جو عناصر اس احتجاج میں شامل ہیں اور عدالت کی خود اختیاری کے لیے پرجوش نظر آ رہے ہیں ان کا اپنا ریکارڈ فلسطینیوں کے خلاف کس قدر خراب ہے اس کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے حالات میں فلسطینیوں میں بھلا کیونکر عدالتی اصلاح کی تجویز کے خلاف کوئی جوش نظر آ ئے گا؟ ان احتجاجات میں اگر ان کے حقوق کی بھی بات ہوتی تو معاملہ قدرے بہتر ہوتا۔ فلسطینی حقوق کے دفاع سے ان یہودی مظاہرین کو کس قدر پرہیز ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کی بائیں بازو کی ایک سیاسی جماعت نے جب اس احتجاج میں فلسطینی جھنڈا بلند کیا تو انہیں فوراً الگ کر دیا گیا تاکہ ان پر ریڈیکل لیفٹ کے ایجنڈہ کو بڑھاوا دینے کا الزام نہ آ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل میں بسنے والے فلسطینی یہ سمجھتے ہیں کہ ان مظاہروں سے ان کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ان احتجاجات کا اصل مقصد ہی یہودی حقوق کی حفاظت ہے۔ ان فلسطینیوں کے لیے تو حالات تبھی بدلیں گے جب اسرائیل کو یہودی قومیت والا ملک نہ مانا جائے، ان کے خلاف بھیدبھاؤ کا سلسلہ بند ہو اور فلسطینی اراضی پر ناجائز قبضہ کا خاتمہ کیا جائے۔ چونکہ ان مسائل کا ذکر تک ان یہودی مظاہروں میں نہیں ہے، اس لیے اسرائیل میں بسنے والے فلسطینیوں کا ان میں حصہ لینا بھی بے معنی نظر آتا ہے اور اسی لیے وہ خود کو اس سے دور رکھنا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)