اسرائیل دنیا کو ایٹمی جنگ کی بھٹی میں جھونکنا چاہتا ہے

مسلم ملکوں کو ایران کی حمایت میں کھڑا کر دینا اسرائیل کا بڑا کارنامہ

0

عبیداللّٰہ ناصر

اسرائیل نے ایران پر زبردست حملہ کر کے مشرقی وسطیٰ میں جنگ کو وسعت ہی نہیں دی ہے،یہ تیسری جنگ عظیم نہیں بلکہ ایٹمی جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے کیونکہ اسرائیل اور ایران دونوں ایٹمی طاقت ہیں۔ اسرائیل کے پاس عالمی اندازے کے مطابق 150 سے زائد ایٹم بم ہیں جبکہ ایران نے نیوکلیائی صلاحیت تو حاصل کرلی ہے لیکن ایٹم بن بنانے سے گریز کرتا رہا ہے مگر جب اس کے وجود کوخطرہ لاحق ہوگا تو وہ بھی اس کے لیے مجبور ہو جائے گا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسرائیل نے ایران پر اس وقت حملہ کیا ہے، جب وہ امریکہ سے ایٹمی مذاکرات شروع کر چکا تھا۔ پانچ دور کی گفتگو بھی ہوچکی تھی، مذاکرات کا چھٹا دور بھی شروع ہونے والا تھا، جسے اب خود ایران نے سعی لاحاصل کہہ کے موقوف کر دیا ہے۔اسرائیل نے اپنی عادت اور صلاحیت کے مطابق ٹارگیٹ کلنگ کرکے ایران کے نیوکلیائی تنصیبات، اہم عمارتوں کوتباہ کرنے کے علاوہ ٹاپ ایٹمی سائنسدان، اعلیٰ ترین فوجی افسران کو شہید کر دیا۔اسرائیل نے کہا ہے کہ اس نے یہ حملہ اس لیے کیا تاکہ ایران ایٹم بم بنانے کے قریب بھی نہ پہنچ سکے۔ اس سے زیادہ احمقانہ سوچ اور کیا ہو سکتی ہے کہ کسی باصلاحیت انسان کو مار کے یہ سمجھ لیا جائے کہ اب کوئی دوسرا باصلاحیت شخص پیدا ہی نہیں ہوگا۔ یہ بات ضرور ہے کہ اتنے زبردست خطرہ کے باوجود ایران کی ٹاپ لیڈرشپ بشمول فوجی افسران، نیوکلیائی سائنسدان وغیرہ ایک ہی وقت میں ایک ہی بلڈنگ میں کیوں موجود تھے جبکہ اس سے قبل بھی اسرائیل اسی طرح کے ٹارگیٹ کلنگ کے ذریعہ ایران کے دیگر افسران کو شہید کر چکا تھا۔کہا جاتا ہے کہ شاہ کے زمانہ میں ایران کی خفیہ تنظیم ساواک اور اسرائیل کی خفیہ تنظیم موساد میں جو باہمی تعاون تھا، وہ اسلامی انقلاب کے اتنے دنوں بعد بھی بقید حیات ساواک جاسوسوں اور انقلاب دشمن عناصر کے درمیان قائم ہے اور اسرائیل اپنی ٹیکنالوجی اور ان جاسوسوں کی مدد سے ہی یہ کامیاب ٹارگیٹ کلنگ کرتا ہے۔

لیکن اسرائیل نے ایران کو لقمہ تر سمجھنے کی غلطی کردی، ایران کے جوابی حملوں نے نہ صرف اسرائیل بلکہ عالمی برادری کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے، کسی کو امید نہیں تھی کہ ایران اسرائیل کے تمام دفاعی نظام کو تاش کے پتوں کی طرح بکھیر دے گا۔ ایران کے میزائل اور ڈ رون حملوں نے اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب اور بندرگاہ حیفہ کو تہس نہس کر دیا ہے۔ حیفہ میں ہندوستانی سرمایہ کار اڈانی کی تیل ریفائنری تباہ ہونے سے کھربوں ڈالر کا ان کا نقصان بھی ہوا۔ اب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یہ رو رہا ہے کہ ہم نے ایران کے دہشت گردی کے اڈوں کو نشانہ بنایا تھا جبکہ ایران ہمارے شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے، اس کی اس مکاری پر ہنسی بھی آتی ہے غصہ بھی۔ امریکی صدر ٹرمپ کا موقف تھا کہ اس فوجی کارروائی کے بعد ایران نیوکلیائی سمجھوتے کے لیے مجبور ہو جائے گا مگر ایران نے مزید گفتگو سے ہی انکار کر کے ان کی ان صہیونیت نواز سوچ کو بھی ہوا میں اڑا دیا ہے۔ اسرائیل کی اس جارحیت کے بعد ایران کو جو عالمی حمایت حاصل ہوئی ہے، وہ بھی ایران کے حوصلوں کو بلند کرنے والی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا اپنے تمام اختلافات بھلا کر ایران کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہے۔ ایران کی لیڈرشپ کی سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان سے گفتگو اور شہزادہ سلمان کی جانب سے ایران کو بھرپور حمایت دینا اسرائیل اور امریکہ کی سب سے بڑی سفارتی شکست ہے۔ خیرسگالی کے طور پر سعودی عرب نے حج پر گئے ایرانی عازمین کو اس وقت تک اپنے یہاں شاہی مہمان کے طور پر روکے رکھنے کا اعلان کیا ہے، جب تک ایران میں حالات نارمل نہیں ہوجاتے۔پرنس سلمان کا یہ کہنا کہ کوئی بھی مسلم ملک ایران کو شکست خوردہ نہیں دیکھنا چاہتا، نہ صرف ایران کو زبردست اخلاقی حمایت فراہم کرتا ہے بلکہ عالمی اتحاد بین المسلمین جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، اس کو بھی استحکام بخشتا ہے۔ ایران کی حکومت کی جانب سے ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیاں اور پرنس سلمان کے مابین ٹیلی فونک گفتگو کا متن جاری کیا گیا ہے جس میں پرنس سلمان برادر ملک ایران کو ہرممکن تعاون دینے کا وعدہ کرتے ہیں، چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان جو مصالحت گزشتہ سال کروائی تھی، یہ اس کی کامیابی کہی جا رہی ہے۔

اگر اسرائیل کا دفاع امریکہ کی مجبوری اور ضرورت ہے تو ایران کا دفاع چین اور روس کی بھی ضرورت ہے، ایران اگر مخدوش ہوا اور وہاں اسرائیل بلکہ در حقیقت امریکہ کی بالادستی قائم ہوئی تو چین کو زبردست اسٹرٹیجک جھٹکا لگے گا کیونکہ وسطی اشیا اور یوروپ تک پہنچنے کا اس کا راستہ بند ہوجائے گا۔قراقرم شاہراہ بھی بیکار ہوجائے گی، دوسرے یہ روس کے پاس بھی امریکہ سے یوکرین کا بدلہ لینے کا بہترین موقع ہے۔ عالمی امور میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے بھی روس اور چین دونوں کو ایران کی حمایت کرنا ہی پڑے گی۔ ایران کی ڈپلو میسی بھی یہی ہے کہ وہ اس معاملہ میں چین اور روس کو زیادہ سے زیادہ ملوث کرے، حالانکہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم جیسے غدار ابھی بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں مگر کھل کر بولنے کی ہمت ان میں بھی نہیں ہے۔ اسرائیل اور مغربی دنیا کو یہ امید تھی کہ اسرائیل کی اس فوجی کارروائی سے ایران کے اندر موجودہ نظام کے مخالفین کو تقویت ملے گی اور اس سے موجودہ نظام کو بدلنے میں مدد ملے گی، یہ امید بھی خاک میں مل گئی ہے اور پورا ایران بشمول مسلح افواج فی الحال صہیونی جارحیت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ٹرمپ نے ابراہیمی مذاکرات کے ذریعہ اسرائیل کی عرب ملکوں سے دوستی کرانے کی جو کوشش کی تھی وہ خود اسرائیل نے ہی مٹی میں ملا دی ہے ۔

اپنے وجود بلکہ شاید اس سے بھی پہلے جب برطانیہ نے 1917میں فلسطین میں یہودیوں کے لیے اسرائیل کے قیام کا رسوائے زمانہ بالفورس اعلان کیا تھا تب سے ہی صہیونی اپنی دہشت گرد تنظم ہگانہ کے ذریعہ انسانیت کا قتل عام شروع کر چکے تھے۔1948 میں اپنے قیام کے بعد سے ہی وہ امریکہ اور یوروپی ملکوں کی حمایت سے مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کا دشمن بنا ہوا ہے۔ فلسطینیوں پر صہیونیوں کے انسانیت سوز مظالم خود یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم سے کسی طرح کم نہیں ہیں حالانکہ فطری بات تو یہ تھی کہ خود انسانیت سوز مظالم کا شکار ہوچکی قوم دوسروں پر وہ ظلم نہ کرتی،خاص کر ان پر جنہوں نے تاریخ میں ہمیشہ یہودیوں کو پناہ دی ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے ہی اسرائیل مسلسل عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہر طرح سے اپنی من مانی کرتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر اس نے اپنی سرحدوں کی مسلسل توسیع کی اور گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندۂ تعبیر کر تا رہا ہے، جس کی وجہ سے جس فلسطین میں اسے صرف 33 فیصد زمین ملی تھی، وہ اب80تا85فیصدزمین پر قا بض ہے کیونکہ اس کی اس دیدہ دلیری کے پیچھے محض مضبوط یہودی لابی ہی نہیں ہے بلکہ یوروپ اور امریکہ کی عیسائی لابی بھی ہے جس کی یہودیوں سے تاریخی دشمنی رہی ہے اور جس نے بڑی چالا کی اور عیاری سے عربوں کے سینے میں اسرائیل نما خنجر پیوست کرکے اپنے اپنے ملک سے یہودیوں کو نکال کر اسرائیل بھیجنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ پرامن انتقال آبادی کا یہ بے مثال کارنامہ ہے اور اب یہی لابی اسرائیل کی اسی لیے حمایت کر رہی ہے تاکہ یہودی کسی بھی حالت میں اپنے آبائی ملک واپس آنے کی نہ سوچ سکیں۔

اسرائیل کی اپنی تو کوئی آبادی ہے نہیں، وہ یوروپ کے مختلف ملکوں سے آکر بسے یہودیوں کا ملک ہے جو ارض موعود میں آ کر بس گئے تھے مگر حماس اور اب ایران کے ڈرون اور میزائلوں نے ان میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دیا ہے اور اب ان میں سے بیشتر لوگ اپنے اپنے ملکوں میں واپسی کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں، یہ اسرائیل ہی نہیں خود یوروپ کی سازش، مکاری اور عیاری کی ناکامی ہے، ایک کروڑ سے بھی کم آبادی والا ملک اگر پھر انتقال آبادی کا شکار ہو گیا تو اس کا وجود ہی خطرہ میں پڑ جائے گا اور یہ خطرہ ایک نہ ایک دن سچ ضرور ثابت ہوگا۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS