اسرائیل مکمل اکثریتی نظام کی راہ پر

0

اسد مرزا

اسرائیل کی پارلیمنٹ، دی نیسیٹ، نے 14 مارچ کو ایک پارلیمانی بل پیش کیا جو قانون سازوں کو ایسے قوانین پاس کرنے کی اجازت دے گا جسے سپریم کورٹ تبدیل نہیں کرسکتا ۔ بنجمن نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں نے مجوزہ عدالتی بل کو قانون سازی کا ایک اہم حصہ قرار دیا ہے،لیکن اس نے ملک کو دو گروپوں میں تقسیم کردیا ہے۔پہلا جو کہ نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل کو مکمل اکثریتی نظام میں تبدیل کرنا چاہتا ہے جبکہ دوسرا گروپ اسرائیل کو ایک جمہوری نظام کے تحت چلانا چاہتا ہے۔
نیا بل جس کا مقصد سپریم کورٹ کو کمزور کرنا تھا، پہلی ریڈنگ میں ہی پاس ہوگیا، جس کے ساتھ ایک اور بل جو وزیر اعظم کو ان کے عہدے سے برطرف ہونے سے بچاسکتا ہے، اور تیسرا جو شمالی اسرائیل میں مزید بستیوں کی اجازت دے گا۔ یہ تینوں قوانین پہلے قانون کے خلاف مہینوں کے احتجاج کے باوجود منظور کیے گئے ہیں۔ نیسیٹ نے 14 مارچ کی صبح کے اوائل تک کام کیا تاکہ بل کی پہلی ریڈنگ کو منظور کیا جا سکے، جو وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اور انتہائی آرتھوڈوکس مذہبی جماعتوں کے حکومتی اتحاد کی اہم ترجیحات میں سے ایک رہا ہے۔
متنازعہ بل:
اس سے قبل، پیر کی رات، نیتن یاہو کی ایک اور جیت میں، پارلیمنٹ نے ایک اور بل بھی پیش کیا جس کے تحت وزیر اعظم کو بدعنوانی کے الزامات کی بنا پر ہٹانا مشکل ہو جائے گا۔ یہ نیا بل پارلیمنٹ کو صرف جسمانی یا ذہنی وجوہات کی بنا پر کسی وزیر اعظم کو حکومت کرنے کے لیے نااہل قرار دینے کی اجازت دے گا اور موجودہ قانون کی جگہ لے گا جو عدالت یا پارلیمنٹ کو دیگر حالات میں یعنی بدگمانی اور رشوت کے الزام کی بنا پر پارلیمانی رہنما کو ہٹانے کی اجازت دیتا ہے۔ نئے بل کو حکومت کے تین چوتھائی حصے کی منظوری درکار ہوگی، اور وزیر اعظم اسے مسترد کر نے کا حق اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کی برطرفی کی نگرانی کرنے والے قوانین میں مجوزہ تبدیلی نیتن یاہو کے لیے ذاتی اہمیت کی حامل ہے، جو چار سال سے بھی زیادہ عرصے سے اسرائیل کے پانچویں انتخابات کے بعد گزشتہ سال کے آخر میں دوبارہ اقتدار میں واپس آئے تھے۔ ان پر دھوکہ دہی، اعتماد کی خلاف ورزی اور رشوت لینے کے الزامات کے تحت مقدمہ چل رہا ہے جبکہ وہ ان الزامات سے انکار کرتے ہیں۔ یہ قانونی کارروائی تقریباً گزشتہ تین سال سے جاری ہے۔
ایک اور بل جس نے پہلی ریڈنگ پاس کی تھی، شمالی مقبوضہ مغربی کنارے میں مزید بستیوں کی اجازت دے گا، جس سے اسرائیلی قانون کے تحت بھی غیر قانونی سمجھی جانے والی بستیوں کو قانونی حیثیت دی جائے گی۔ یہ ووٹنگ صرف چند ہفتوں کے بعد سامنے آئی ہے جب گزشتہ ماہ اسرائیلی آباد کاروں نے ایک فلسطینی قصبے میں گھس کر ایک شخص کو ہلاک اور درجنوں گھروں اور کاروں کو آگ لگا دی تھی۔ مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت پہلے ہی غیر قانونی تصور کیا جاتا ہے۔ اسرائیل کے فلسطینی شہری، جو آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہیں، احتجاجی مظاہروں سے زیادہ تر غیر حاضر رہے ہیں، جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل میں امتیازی سلوک کا شکار ہیں اور مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے سلوک کی وجہ سے، کیونکہ ان کا یہ ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں اسرائیلی حکومت ان کے کسی بھی احتجاج سے اثر انداز نہیں ہوسکتی۔
اسرائیلیوں نے اس سال اسرائیل کی نئی حکومت کے تحت کم از کم 70 فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے، جن میں سے اکثر اسرائیلی فوجی چھاپوں کے دوران ہلاک ہوئے۔ اس سے پہلے ایک سال کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی کل تعداد 220 سے زائدتھی۔
بلوں پر تنقید:
یہ اقدامات مسٹر نیتن یاہو کے اتحاد کی طرف سے اسرائیل کے قانونی نظام کو تبدیل کرنے کے سلسلے میں تازہ ترین کوششیں ہیں ۔ وزیر اعظم اور ان کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ اس کوشش کا مقصد ایک متحرک عدالتی نظام قائم کرنا ہے۔ جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس مہم سے ملک کے جمہوری چیک اینڈ بیلنس کو نقصان پہنچے گا، سپریم کورٹ کو نقصان پہنچے گا، اور طاقت مسٹر نیتن یاہو اور ان کی پارلیمانی اکثریت کے ہاتھ میں مرکوز ہو جائے گی۔
پیر کو اپنی لیکوڈ پارٹی کے ارکان سے بات کرتے ہوئے نیتن یاہو نے اسرائیلی میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے خلاف “جعلی خبروں کا نہ ختم ہونے والا سونامی” نشر کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس دعوے کو دہرایا کہ قانونی تبدیلیوں سے اسرائیلی جمہوریت مضبوط ہوگی۔ ہمیں ان جذبات کی بازگشت کہیں اور بھی سننے کو مل سکتی ہے، کیونکہ وہاں پر بھی موجودہ حکومت دیگر جمہوری اور آئینی اداروں کو یکے بعد دیگرے کمزور کرکے اپنی حکومت اور ملک کے نظام کو ایک اکثریتی نظام میں تبدیل کرنے کے راستے پر چل رہی ہے۔
نیتن یاہو اور ان کے الٹرا نیشنلسٹ اور مذہبی اتحاد کے اتحادیوں نے گزشتہ دو ماہ کے دوران دسیوں ہزار اسرائیلی مظاہرین کے مظاہروں کے باوجود قانونی تبدیلیوں کے ساتھ آگے بڑھنے کا عہد کیا ہے۔ اسرائیل کے کاروباری رہنما، قانونی ماہرین اور ریٹائرڈ فوجی رہنما بھی عدالتی تبدیلی کے خلاف مظاہروں میں شامل ہو گئے ہیں، اور اسرائیلی فوج کے ریزروسٹ فوجیوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر یہ بل قانون کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو وہ ڈیوٹی کے لیے رپورٹنگ کرنا بند کر دیں گے۔ حزبِ اختلاف کی رکن قانون ساز اورنا باربیوائی نے کہا کہ یہ بل ’’بے عزتی ہے، جو کہتا ہے کہ وزیر اعظم قانون سے بالاتر ہیں‘‘۔
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے سینٹر فار مڈل ایسٹ پالیسی کے ڈائریکٹر نتن ساکس نے اس قانون سازی کو ریاست کے آئینی ڈھانچے میں اب تک کا سب سے دور رس انقلاب قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ تجویز اسرائیل میں ایگزیکٹو اور قانون سازی کے اختیارات پر واحد چیک کے طور پر سپریم کورٹ کے کردار کو ختم کر دے گی۔ مختصراً، وہ کہتے ہیں، نیتن یاہو کے نئے اسرائیل میں، سب سے کم اکثریت کے ساتھ حکومت کوئی بھی فیصلہ کر سکتی ہے، اور یہ خالص، بے لگام اکثریت پسندی ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کئی خدشات کا اظہار کیا ہے، جو کہ قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور عدالتی آزادی کے دفاع کے لیے عدلیہ کے متحرک ہونے کے لیے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں۔ انہوں نے ان تبدیلیوں کو ملک کے دیرینہ آئینی ڈھانچے کے مرکز میں کی جانے والی تبدیلیوں کے طور پر بیان کیا۔ اسرائیلی اپوزیشن بھی بل کے خلاف آڑے آگئی، اپوزیشن لیڈر یائر لاپڈ نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کے مستقبل اور اپنے ملک کے مستقبل کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہم ہار ماننے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ترقی پذیر ٹیک سیکٹر کے رہنماؤں نے متنبہ کیا ہے کہ عدلیہ کو کمزور کرنا سرمایہ کاروں کو اسرائیل میں سرمایہ کاری کرنے سے دور کرسکتا ہے۔
امریکی سفیر ٹام نائیڈز نے ایک پوڈ کاسٹ میں کہا کہ اسرائیل کو قانون سازی پر بریک لگانا ضروری ہوگیا ہے اور ایسی اصلاحات پر اتفاق رائے حاصل کرنا چاہیے جس سے اسرائیل کے جمہوری اداروں کا تحفظ ہو۔
جیسا کہ اسرائیل کے اندر اور باہر کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو کے سیاسی عناصر کی اکثریتی پالیسیوں کے خلاف ہیں اور وزیر اعظم کو بدعنوانی کے مقدمات سے باز رکھنے کے علاوہ ان کا مقصد حق سے انکار کرنا بھی ہے۔خاص طور سے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو۔
اگر ہم تجزیہ کریں تو اسرائیل مکمل طور پر ایک جمہوری ملک نہیں ہے اور اس کی تمام سیاسی جماعتوں کی سوچ صرف ملکی مفادات کو فروغ دینے پر مرکوز رہتی ہے لیکن جو بل نیتن یاہو لانا چاہتے ہیں اس سے اسرائیل کا نیم جمہوری نظام بالکل تبدیل ہوجائے گا اور ایک ایسا اکثریتی نظام قائم ہوجائے گا جہاں پر کسی کو حکومت سے اختلافِ رائے رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS