محمد حنیف خان
جنگ میں کسی انسان کی موت سے پہلے انسانیت مر جاتی ہے جس کے بعد اموات شروع ہوتی ہیں،فلسطین اور اسرائیل کے مابین جنگ میں انسانیت کے لیے کچھ نہیں بچا جس کے لیے رویا جائے یا جس کی بقا کی امید کی جائے، اسرائیل اپنی ابتدائے آفرینش سے ہی اپنا غیرانسانی چہرہ دکھاتا رہا ہے اور انسانوں کو دربدر کرتا رہا ہے لیکن اس بار اس نے ذلت کی انتہا کردی ہے۔اس جنگ میںتقریباً دس ہزار بچے اس کے جنگی جنون اور اس کی شقاوت کا شکار ہوچکے ہیں۔
پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل کس طرح انسانیت کے خلاف جرائم کر رہا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ صرف فلسطینی شہید ہو رہے ہیں،خوف و ہراس صرف ان ہی کا مقدر بن گیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کا بھی جانی و مالی نقصان بہت ہو رہا ہے،روز اسرائیلی میڈیا ان فوجیوں کی آخری رسوم کی ویڈیو جاری کرتا ہے جو غزہ میں جنگ کے دوران مارے جاتے ہیں۔شجاعیہ میں کثیر تعداد میں اسرائیلی فوجی مارے گئے،سابق فوجی سربراہ کا بیٹا اور بھتیجا بھی اپنی جانوں سے گئے،فوجی ٹینکوں اور دیگر سازو سامان کی تباہی الگ ہے۔اسرائیل میں خوف و ہراس کا جو ماحول ہے اسے دیکھا جا سکتا ہے،سائرن بجتے ہی لوگ ہوٹلوں میں میز پر رکھا ہوا کھانا چھوڑ کر بھاگنے لگتے ہیں۔
زندگی صرف فلسطین میں ہی نہیں کراہ رہی ہے بلکہ اسرائیل میں بھی زندگیوں سے خون رس رہا ہے۔دونوں طرف خاک و خون کا منظر ہے، ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ اسرائیل کی پیٹھ پر امریکہ جیسے ڈھونگی اور انسانیت دشمن ملک کا ہاتھ جس نے پوری عرب دنیا کو اپنی فوجی کارگزاریوں سے تہہ و بالا کر دیاہے۔جس کے پاس مغربی دنیا کے ہتھیار ہیں،جنگی جہاز اور دیگر سامان ضرب و حرب ہیں،جن کی وجہ سے اسے برتری حاصل ہے۔وہ فلسطین کی فوجی یونٹ کو نشانہ بنانے کے بجائے اندھا دھند عوام کو نشانہ بنا رہا ہے،وہ بستیوں،اسپتالوں،اسکولوں اور سڑکوں پر بم برسا رہا ہے جس کی وجہ سے فلسطین کا جانی اور بنیادی ڈھانچہ جاتی نقصان زیادہ ہورہا ہے۔
اس کے برعکس فلسطین نے پہلے کے مقابلے اس بار گولہ و بارود زیادہ اکٹھا کر لیا تھا اس لیے وہ اسرائیل پر راکٹ داغتے رہتے ہیں،لیکن اسرائیلی جنگی ساز و سامان کے مقابلے یہ صفر ہے۔فلسطینی صرف جذبے سے لڑ رہے ہیں،وہ تہی دست ہیں، اس کے باوجوداسرائیل جیسے غاصب اور دہشت گرد ریاست کا وہ مقابلہ کر رہے ہیں۔اس کا اندازہ درس و تدریس سے وابستہ شہید رفعت العر عیر کے اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے گھر پر اسرائیلی حملہ سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ اگر اسرائیلی فوج نے حملہ کیا اور میں زندہ رہا تو اس کے اوپر اپنا قلم پھینکوں گا،اگر چہ یہ میری زندگی کا آخری عمل ہی کیوں نہ ہو۔انہوں نے کہا تھا کہ ہم اپنی زمین سے محبت کرتے ہیں اور اس کے لیے لڑ رہے ہیں،اس کا دفاع کر رہے ہیں جس کے لیے ہم اپنی زندگی کی آخری سانس تک لڑتے رہیں گے۔ اس لیے فلسطینی صرف اپنے جذبے سے اپنے ملک کے لیے لڑ رہے ہیں جبکہ اسرائیل قبضے کے لیے لڑ رہا ہے،وہ توسیعی عزائم کے تحت بوڑھوں،بچوں اور عورتوں کا قتل کر رہا ہے۔جب وہ کہتا ہے کہ وہ اپنے دفاع میں لڑ رہا ہے تو وہ جھوٹ بول رہا ہوتا ہے کیونکہ سینا سے لے کر دریائے نیل تک کو وہ اسرائیل کا حصہ تصور کرتا ہے۔اسی جنگ کے دوران اسرائیل کے ایک ربی نے کنیسٹ میں کہا کہ سینا سے لے کر دریائے نیل کا حصہ اسرائیل کا ایسا جز ہے کہ اس کو اسرائیل میں شامل کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا ہے،یہ ہماری زمین ہے جس پر دوسروں نے قبضہ کر رکھا ہے۔اس سے اسرائیل کے عزائم کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اسی طرح جب وہ یہ کہتا ہے کہ عالمی قوانین کی وہ پاسداری کر رہا ہے تو وہ جھوٹ بول رہا ہوتا ہے کیونکہ اس کی شرست میں جھوٹ ہے۔دنیا نے دیکھا ہے کہ کس طرح اس نے انسانیت کو تار تار کیا، اس کے باوجود وہ دنیا کے سامنے خود کو مجبور بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دنیا کو میڈیا کی اپنی طاقت کے ذریعہ یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ فلسطینی اسرائیلیوں کا قتل عام کرتے ہیں۔
متعدد ویڈیو اور رپورٹ ایسی شائع کی گئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کے وہ مغویہ افراد جن کو حماس نے رہا کردیا ہے، ذہنی تناؤ کا شکار ہیں،اسپتالوں میں ان کا علاج کیا جا رہا ہے،ابھی تک ان کی زندگی واپس پٹری پر نہیں آسکی ہے،انہیں کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے۔ لیکن کیا میڈیا میں ان فلسطینی بچوں کو دکھایا گیا جو اسرائیل کی بمباری میں ملبہ تلے دب کر مر گئے،وہ بچے جن کا اب کوئی نہیں ہے اور وہ اپنے ماں باپ کو ڈھونڈ رہے ہیں،وہ بچے جن کے چھوٹے چھوٹے بھائی بہن شہید کردیے گئے اور چیخ چیخ کر انہیں یاد کر رہے ہیں، خون آلود جسم،روتی ہوئی آنکھیں جن میں خوشی اور امید کی کوئی کرن نہیں دکھائی دیتی۔ وہ مائیں جنہوں نے اپنے بچوں کو کھویا، وہ والدین جن کے پورے کنبے اسرائیلی حملوں میں شہید ہو گئے اور وہ رونے کے لیے تنہا بچے ہیں، کبھی مغربی میڈیا نے ان کا درد دکھایا؟ وہ ایسی تصاویر دکھائے گا جن سے یہ محسوس ہو کہ اسرائیل فتح حاصل کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے اور فلسطینی ان کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔
اسرائیل اس جنگ میں انسان دشمنی کی اس انتہا کو پہنچ گیا ہے کہ امریکہ جیسے حلیف ملک کے صدر کو یہ کہنا پڑا کہ اسرائیل دنیا میں اپنی حمایت کو کھو رہا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ ہے،ابھی یوروپی یونین ہے اور دوسرے ممالک بھی ہیں لیکن جس طرح سے وہ بمباری کر رہا ہے، وہ سب کی حمایت کھو دے گا۔کیونکہ دنیا کے وہ ممالک جو اندھی حمایت کرتے تھے اب اسرائیل کے خلاف بولنے لگے ہیں۔اقوام متحدہ میں امریکہ نے ضرور جنگ بندی کے موقف کو ویٹو کے ذریعہ ناکام کردیا تھا مگر اس سے دنیا کا رخ سامنے آگیا۔اس کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل کی یہ جنگ جاری رہے گی خواہ کوئی بھی اس کی حمایت نہ کرے۔ان کا یہ بیان در اصل ان کی سیاسی مجبوری ہے،کیونکہ سیاسی سطح پر وہ اس جنگ سے قبل جن حالات کا سامنا کر رہے تھے، ان میں یہ جنگ ان کے لیے نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوئی ہے،اسی لیے وہ اس جنگ سے نکلنے کے بجائے اسے آگے کھینچنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے وجود کو مستحکم کرسکیں۔
ہارٹز اسرائیل کا ایک اہم اخبار ہے جس نے گوڈیون لیوی کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے۔By Trying to Humiliate Gaza to its Core,Israel is the on Being Humiliatedیعنی ’اسرائیل غزہ کو ذلیل کرنے کے بجائے خود ذلیل ہو گیا۔‘مضمون نگار نے اسرائیل کی ذلت کا کئی سطحوں پر تجزیہ کیا ہے اور یہ کوئی بیرونی کالم نگار نہیں ہے بلکہ اسرائیلی یہودی کالم نگار ہے جس نے اپنے اس کالم میںاسرائیل کی شقاوت کو بیان کیا ہے کہ کس طرح اس نے انتقام اور قبضے کی خواہش میں بمباری کی ہے،انسانیت کو تار تار کیا ہے،بچوں کو ماراہے اور اسپتالوں و اسکولوں کو مسمار کیا ہے۔مضمون نگار کے مطابق اس جنگ نے اسرائیل کودنیا کے سامنے ذلیل کردیا ہے۔ کالم نگارکے یہ الفاظ دیکھیں کہ ’’ہم فلسطینیوں کی تذلیل کرنے کی مذموم کوششوں سے بڑھ کر اپنا راستہ کھوچکے ہیں۔اخلاقی کمزوری کا اس سے بڑا کوئی اور ثبوت ہو ہی نہیں سکتا کہ ان کو شکست دینے کے چکر میں ذلیل کرنے کی کوشش کی جائے اور نتیجے میں خود ذلیل ہوا جائے۔اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو نہیں ذلیل کر رہا ہے بلکہ اپنے عمل سے وہ دنیا کے سامنے خود ذلیل ہو رہا ہے۔‘‘
[email protected]