اسرائیل-ایران تنازع

0

خود کو امن پسند ثابت کرنے والے لیڈروں کی یہ کوشش ہونی چاہیے تھی کہ کوئی نئی جنگ شروع نہ ہو مگر عالمی سیاست میں انسانیت اور امن کی باتیں کئی بار فیشن کی طرح کی جاتی ہیں، اپنی امیج بنانے کے لیے کی جاتی ہیں، ان کا کچھ لینا دینا عملی اقدامات سے نہیں ہوتا۔ دنیا میں اگر اتنے ہی امن پسند لیڈران ہوتے تویوکرین جنگ شروع نہیں ہوتی، ہوگئی تھی تو ختم کرانے کی کوشش کی جاتی۔ غزہ جنگ شروع نہیں ہوتی، ہو گئی تھی تو ختم کرانے کی کوشش کی جاتی۔ اسرائیل- ایران کے تنازع کو آگے بڑھنے سے روکا جاتا مگر ایسا ہو نہیں رہا ہے۔ یہی لگ رہا ہے کہ اسرائیل اور ایران تنازع بڑی جنگ میں تبدیل ہونے جا رہا ہے، اس جنگ کا دائرہ بڑھے گا۔ اندیشہ یہ بھی ہے کہ اس جنگ کے جاری رہتے کئی اور جنگیں نہ شروع ہو جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی ملکوں کے دیگر ملکوں سے متنازع تعلقات ہیں۔ وہ حالات سازگار دیکھ کر ایک دوسرے کے خلاف جنگ چھیڑ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم نام چین کا ہے۔ وہ تائیوان کو ملک نہیں مانتا، اسے اپنا علاقہ مانتا ہے۔ اگر وہ طاقت کے زور پر تائیوان پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہوگی مگر سوال یہ ہے کہ امریکہ اگر ایک ساتھ کئی جنگوں میں الجھا رہے گا تو پھر وہ تائیوان کی مدد کیسے کر پائے گا؟ اگر اس نے تائیوان کی مدد نہیں کی تو کیا اس پورے علاقے میں اس کی وہ پوزیشن باقی رہ پائے گی جو ابھی ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے نہیں!
امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ ایک طرف تو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے ایران پر حملوں میں امریکہ کا کوئی رول نہیں ہے، دوسری طرف وہ ان حملوں کی مذمت کرنے اور اسرائیل کو متنبہ کرنے کے بجائے بار بار ایران کو انتباہ دے رہے ہیں۔ ٹرمپ نے ایران کے بارے کہا ہے کہ ’ایران پر ہونے والے حملے سے امریکہ کا کوئی واسطہ نہیں ہے لیکن اگر ہم پر کسی بھی طرح کا حملہ کیا گیا تو ایران میں تباہی لا دیں گے۔‘ٹرمپ کو شاید یہ احساس نہیں ہے کہ ان کے ملک نے افغانستان میں کس طرح جنگ لڑی، یہ دنیا نے دیکھ لیا ہے۔ دنیا نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ افغان جنگ ختم کرنے کے لیے امریکی حکومت کو کیا کیا کرنا پڑا۔ کیا ٹرمپ سے پہلے کے امریکی صدور کو امریکہ کی طاقت کا مکمل احساس نہیں تھا اور اسی لیے افغانستان اور عراق میں وہ ’تباہی‘ نہیں لاسکے جو ایران کے خلاف لانے کی باتیں ٹرمپ کر رہے ہیں؟ صدر امریکہ کو اس طرح کی باتیں کرنے کے بجائے جنگ ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انہیں یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جنگ لڑ رہے ملک کے لیے اہمیت اپنی بقا اور دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی ہوتی ہے اور وہ یہ دیکھ کر حملے نہیں کرتا کہ دشمن چھوٹا ہے یا بڑا؟ اس کی مثال یوکرین بھی ہے۔ اس کے مقابلے روس کافی طاقتور ہے ، سب سے زیادہ ایٹم بم اسی کے پاس ہے، امریکہ سے بھی زیادہ، کئی اور بڑے ہتھیار اس کے پاس ہیں، اس کے باوجود کیا یوکرینیوں نے اس کے سامنے ہتھیار رکھ دیے ہیں یا ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں وہ ہتھیار رکھ دیں گے؟ پھر ٹرمپ یہ کیوں سوچتے ہیں کہ ایران کو مرعوب کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ جو ملک مرعوب ہو جاتا ہے، وہ جنگ نہیں لڑتا۔ ایران کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ مرعوب ہونے والے ملکوں میں سے نہیں ہے۔ امریکہ اور یوروپی ممالک اگر اسرائیل کی طرف سے کھل کر اتریں گے تو پھر اسرائیل اور ایران کے تنازع کے بڑی جنگ بننے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔ اس کی زد میں مشرق وسطیٰ ہی نہیں آئے گا، دنیا کے دیگر علاقے بھی آ جائیں گے، کیونکہ چین نے ایران میں کافی سرمایہ لگا رکھا ہے اور اسی لیے اس نے کھل کر ایران کے حق میں صدا بلند کی ہے۔ ضرورت پڑنے پر ایران نے یوکرین جنگ میں روس کی مدد کی ہے تو روس بھی ایران کو تنہا نہیں چھوڑے گا، کیونکہ ایران کے تباہ ہو جانے کے اثرات یوکرین جنگ پر پڑیں گے، روس کی پوزیشن ایکدم سے بدل جائے گی۔ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے یہ کہہ کر کہ ’ایران کے خلاف کیے گئے فضائی حملوں میں امریکہ کی حمایت شامل ہے‘اشارہ دے دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ تہران جنگ کا دائرہ وسیع نہیں کرنا چاہتا مگر اگر مجبور کیا گیا تو پیچھے نہیں ہٹے گا۔‘ان کے اشاروں کو وقت رہتے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ویسے ایران جنگ اقتصادی طور پر خستہ حال امریکہ کے بھی حق میں نہیں ہوگی۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS