ایران کے خلاف جنگ کیلئے اسرائیل کے پاس جواز نہیں : عبدالماجد نظامی

بین الاقوامی جوہری تحقیقاتی ایجنسی کے ذریعہ پہلے اسرائیل کے جوہری پروگرام کی تفتیش کی جائے

0

عبدالماجد نظامی

گزشتہ دو برسوں سے اسرائیل نے اپنے پڑوسی ملکوں کے خلاف جس ڈھنگ سے جنگ کے مختلف محاذوں کو کھول رکھا ہے، اس سے اتنا تو ثابت ہوگیا ہے کہ اس کو کسی بھی ملک کی سیادت، عالمی قوانین کی پاسداری، امن و سلامتی جیسے معاملوں سے ادنیٰ دلچسپی تک نہیں ہے۔ پورے خطہ پر بے روک بالادستی کی ایسی سنک اس پر سوار ہے کہ ہر طرف کشت و خون اور بم وبارود کا طوفان کھڑا کر رکھا ہے۔ ابھی تک غزہ کے اندر یومیہ طور پر قتل و غارتگری کا جو سلسلہ اسرائیل نے جاری کر رکھا ہے، اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پالیسی سازوں کے سینوں میں کسی انسان کا نہیں بلکہ بے درد و بے حس درندہ کا دل دھڑکتا ہے جس پر معصوم بچوں کی چیخ و پکار، ماؤں کی اجڑی و سنسان دنیا اور بوڑھوں و بے سہاروں کی ناقابل برداشت بھکمری کے واقعات کا کوئی اثر ہی نہیں پڑتا۔ اسرائیلی و امریکی میزائلوں، بموں اور گولیوں سے اگر کوئی بچ جاتا ہے تو اس کی زندگی موت سے بدتر بنا دی جاتی ہے کیونکہ زخمیوں کے علاج کے لیے دوا تک موجود نہیں ہے۔ جو معالجین اور نرس ہیں، ان پر بھی حملے کیے جاتے ہیں۔ گویا خدا کی اس زمین پر جس کو انسان کی بہترین زندگی کے لیے پیدا کیا گیا تھا، اس کو اسرائیل نے قیامت خیز منظر میں تبدیل کر دیا ہے جہاں ہر طرف صرف درد اور آہ وبکا کا ماحول قائم ہے۔

غزہ کے بعد لبنان و یمن اور شام جیسے ملکوں تک میں اسرائیل کے جو غیر انسانی ہاتھ دراز ہیں، ان سے بھی صرف تباہ کاریاں ہی جنم لے رہی ہیں۔ ابھی ان حملوں کا سلسلہ ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ ایران کے ساتھ ایک نیا محاذ کھول دیا گیا ہے اور غارت گری کا منظر وہاں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس پورے معاملہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جنہوں نے اپنے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کوئی نئی جنگ شروع نہیں کریں گے بلکہ جنگوں کا جو سلسلہ جاری ہے اس کو ختم کریں گے، وہ خود ہی اسرائیل کو شہ دے رہے ہیں اور ایران کے خلاف ہرزہ سرائی کی تمام حدوں کو پار کر رہے ہیں۔

وہ اسرائیل کو ہر قسم کا ہتھیار فراہم کر نے کے ساتھ ساتھ اس کو اس بات کے لیے بھی اکسا رہے ہیں کہ ایران کے مرشد اعلیٰ کو راستہ سے ہٹا دیں۔ اس اشارہ کو پا کر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ آیت اللہ علی خامنہ ای کو زندہ رہنے کا اب کوئی حق نہیں ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ اسرائیل یا امریکہ کو یہ حق کس عالمی یا انسانی قانون سے ملتا ہے کہ وہ ایک آزاد ریاست کے سربراہ کو قتل کرنے کے لیے کھلے عام اعلان کریں؟ آخر قانون پر مبنی اس عالمی نظام کو بھلا کیا ہوگیا جس کے مطابق کسی بھی ملک کی سیادت کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا؟ کیا عالمی برادری کو اسرائیل یا امریکہ سے یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ آخراس طرح اچانک ایران کے خلاف جنگ کے آغاز کا کیا جواز پیدا ہوتا ہے؟ اگر آج ایران پر حملے کیے جا رہے ہیں تو کیا کل کسی دوسرے ملک پر اسی طرح حملے نہیں ہوں گے؟ جس طرح ماضی میں عراق و افغانستان پر حملے کیے گئے اور وہاں کے عوام کی ایک بڑی تعداد کو قتل کیا گیا، ان کے اقتصاد اور تجارت کو برباد کر دیا گیا اور کئی دہائیوں کے لیے ان کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔

ایران پر جس الزام کے تحت اسرائیل نے حملہ کیا ہے ایک تو وہ الزام بے بنیاد اور غلط ہے کیونکہ ایران نے ہمیشہ ہی پورے احساس و ذمہ داری کے ساتھ عالمی اداروں کے ساتھ تعاون کیا ہے اور اپنے جوہری پروگرام کی حقیقت کو ان کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ مسلسل ان کا معائنہ ہوتا رہا ہے اور اس کی رپورٹیں دنیا کے سامنے پیش کی جاتی رہی ہیں۔ کسی بھی رپورٹ میں آج تک اس کا ثبوت موجود نہیں ہے کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے کی پوزیشن میں پہنچ گیا۔ خود امریکی صدر ٹرمپ کے ادارہ میں قومی انٹلیجنس کے ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز تلسی گبارڈ نے مارچ کے مہینہ میں کانگریس کے سامنے یہ بات کہی تھی کہ انٹلیجنس کمیونٹی کا بالکل یہ ماننا نہیں ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنا رہا ہے۔ خود آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے جو رپورٹ پیش کی ہے، اس میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنا رہا ہے۔ جب یہ ساری دلیلیں ایک ہی حقیقت پر روشنی ڈال رہی ہیں کہ ایران کوئی جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا ہے تو آخر ایران جیسے عظیم ملک کے خلاف جارحیت کا کیا جواز پیدا ہوتا ہے؟

کیا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دماغ کا مالیخولیا ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ ایک مہذب ملک اور قدیم تاریخی و تہذیبی معاشرہ کو یوں ہی تباہ کر دیا جائے۔اس کے برعکس 1998 میں خود اسرائیل کے وزیراعظم ودیگر اہم شخصیات کے حوالہ سے اسرائیل کے نیو کلیئر طاقت ہونے کی بات کہی گئی تھی، علاوہ ازیں عالمی تجزیہ نگاروں کا بھی یہ ماننا ہے کہ اسرائیل خفیہ نیوکلیئر طاقت ہے جس کو خود اسرائیل نے کبھی مسترد نہیں کیا ہے۔انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ انٹر نیشنل ایٹومک انرجی ایجنسی کے ذریعہ سب سے پہلے اسرائیل کی تفتیش کی جاتی کہ آیا اسرائیل سچ بول رہا ہے یا پس پردہ وہ ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ دنیا کو یہ جاننے کا پورا حق ہے۔ اسرائیل کی تاریخ عالمی برادری کے تئیں سنگین جرائم سے اس قدر بھری ہوئی ہے کہ اگر عالمی نظام میں انصاف کا ادنیٰ عنصر بھی پایا جاتا تو نیتن یاہو کی جگہ جیل کی کال کوٹھری ہوتی۔ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں نیتن یاہو کے خلاف مقدمہ چل رہا ہوتا اور ان سے پوچھا جا رہا ہوتا کہ غزہ میں جن جنگی جرائم اور قتل عام کا ارتکاب اسرائیل نے کیا ہے اور لگاتار کر رہا ہے، اس کی پاداش میں اس کو کیوں نہ مجرم قرار دے کر سخت سزائیں دی جائیں۔

لیکن امریکی طاقت اور مغربی دوغلے پن کے سامنے بے بس کھڑی دنیا نے اس قسم کا سوال کھڑا کرنا نہیں سمجھا اور اسی وجہ سے ایران پر آج اسرائیل نے جنگ تھوپ کر امنِ عالم کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ اس کا پورا اندیشہ ہے کہ امریکہ بھی اسرائیل کے ساتھ جلد ہی اس جنگ میں داخل ہوجائے گا اور ایران کو بھی عراق کی طرح تباہ و برباد کر دیا جائے گا۔ یہ دراصل انتقام میں اندھی ایک عالمی قوت اور گریٹر اسرائیل کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں لگے ایک صہیونی جنونی کے دماغ کی اپج ہے کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے۔ جوہری ہتھیار کا بھوت اب تک حکومت کی تبدیلی اور کمزور ملکوں کو تباہ کرنے کا ایسا مؤثر آلہ ثابت ہوا ہے کہ اس کا نام سنتے ہی عالمی سطح پر ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے اور اس طرح عالمی قوانین کو پامال کرنے کا ایک جواز پیش کر دیا جاتاہے۔ ورنہ حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایران قانون پر عمل کرنے والا ایک مہذب ملک ہے جبکہ اسرائیل تمام قوانین کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالنے والا ایک ایسا مجرم ہے جس کو ایران پر حملہ کے لیے قطعاً کوئی جواز میسر نہیں تھا۔ اب جو عالمی نظام امریکہ و اسرائیل کی قیادت میں تیار ہو رہا ہے، اس میں حق و انصاف کی باتیں مضحکہ خیز سمجھی جائیں گی اور طاقت کے نشہ میں ہی صحیح اور غلط کا فیصلہ کیا جائے گا۔

(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS