تل ابیب،(یو این آئی): اسرائیل شمالی غزہ کو پانی کی فراہمی کو کم کرنے جبکہ جنوب میں پائپ لائنوں کی مرمت کرنے پر غور کر رہا ہے تاکہ فلسطینیوں کو غزہ شہر سے باہر نکالنے پر مجبور کیا جا سکے۔
کے اے این نے خبر دی ہے کہ وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی حکومت جنوبی غزہ میں دو براہ راست پائپ لائنوں کی مرمت کرتے ہوئے شمال میں بھیجے جانے والے پانی میں کٹوتی پر غور کر رہی ہے۔
یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل کو غزہ کی نسل کشی میں پیاس کو ہتھیار بنانے کے الزامات کا سامنا ہے، اس کے علاوہ جبری بھوک اور انسانی امداد پر پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔
غزہ حکومت کے میڈیا آفس کے مطابق، جنوری سے اسرائیل نے اسرائیل کی سرکاری آبی کمپنی میکوروٹ سے پانی کاٹ دیا ہے، جو علاقےو کی فراہمی کے آخری باقی ذرائع میں سے ایک ہے۔
9 مارچ کو اسرائیلی فوج نے دیر البلاح کے جنوب میں مرکزی ڈی سیلینیشن پلانٹ کو بجلی فراہم کرنے والی آخری لائن کو بھی کاٹ دیا تھا ، جس سے بڑے پیمانے پر پینے کے پانی کی پیداوار رک گئی تھی اور بحران مزید سنگین ہوگیا تھا۔
بدھ کے روز اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے جاری ثالثی کی کوششوں اور حماس کی جانب سے جنگ بندی کی تجویز کو قبول کرنے کے باوجود غزہ شہر پر قبضہ کرنے کے لیے آپریشن گیدون کیرتھس 2 نامی فوجی منصوبے کی منظوری دی تھی۔
اسرائیل کی جنگی کابینہ نے اس ماہ کے اوائل میں نیتن یاہو کے پورے غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کے مرحلہ وار منصوبے کی توثیق کی تھی۔
پہلے مرحلے میں غزہ شہر پر قبضہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس کے تحت اس کے تقریبا 10 لاکھ رہائشیوں کو جنوب کی طرف، شہر کے ارد گرد بے گھر کیا جائے اور رہائشی علاقوں میں چھاپے مارے جائیں۔
دوسرے مرحلے میں وسطی غزہ میں پناہ گزین کیمپوں پر قبضہ کرنا شامل ہے، جن میں سے بہت سے پہلے ہی بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا کر چکے ہیں۔
منصوبے کے مطابق 8 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو جنوب میں نام نہاد “انسانی زونز” میں منتقل کیا جائے گا، جہاں پناہ گاہیں، فیلڈ اسپتال اور پانی کا بنیادی ڈھانچہ قائم کیا جائے گا۔
تیاریاں تین ہفتوں میں مکمل ہونے کی توقع ہے