اسد مرزا
’’اسرائیل پر حماس کے حالیہ حملے نے تین چیزوں کو مکمل طور پر بے نقاب کردیا ہے، اولاً امریکی سفارتی پالیسی کی ناکامی، دوم اسرائیل کا دفاعی طور پر ناقابلِ تسخیر ہونا اور سوم میڈیا- پرنٹ، ٹی وی اور سوشل میڈیا کے تحت چلائی جانے والی مختلف جھوٹی مہمات۔‘‘
50سال اور ایک دن پہلے یعنی کہ 6 اکتوبر 1973 کو مصر نے اسرائیل کے زیر قبضہ سینائی صحرا میں اسرائیلی افواج پر حملہ کیا تھا، جس کے ساتھ ہی مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں شامی حملہ بھی کیا گیا، اس حملے کو بعد میں ’یوم کپّور جنگ‘(یہودیوں کے دو مذہبی تہواروں میں سے ایک) کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس جنگ اور اس کے سفارتی نتائج دونوں نے مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار کی کچھ ایسی خصوصیات کی نشان دہی کی جو کہ خطے کے لیے اس کے نظریہ میں آج بھی نظر آتی ہیں۔ صدر رچرڈ نکسن اور سکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر نے عرب-اسرائیل تنازع کو سرد جنگ کے چشمے سے دیکھا۔سرد جنگ کے بنیادی معیارات کے مطابق، ’یوم کپور جنگ‘ کے ارد گرد کا بحران امریکی اور اسرائیلی کامیابی سے تشبیہ دیا گیا۔ امریکہ کی طرف سے ہتھیاروں کے ایک ہوائی جہاز نے اسرائیل کو بالآخر سوویت یونین کی طرف سے مصریوں اور شامیوں کو فراہم کردہ فوجی امداد پر غالب آنے میں مدد کی۔اسرائیل کو دہائیوں پر محیط امریکی حمایت، جس میں 158 بلین ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد شامل رہی ہے، اس کے باوجود اسرائیل نے چین اور روس دونوں کے ساتھ وسیع تعلقات استوار کرنے اور ان طاقتوں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کے لیے اپنی پالیسیوں کو کم کرنے سے نہیں روکا یعنی کہ ایک طریقے سے وہ امریکہ کی سفارتی پالیسی کو شکست خوردہ پالیسی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ گزشتہ 75برسوں کے دوران فلسطینی مسئلے کو حل کرنے کے لیے جو کوششیں ہوئیں اور ناکامی ملیں، اس میں سب سے پہلے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے پہلے حصے میں مصر-اسرائیل امن معاہدے کے بارے میں مخصوص وعدے کاشامل ہونا۔ دوسرا حصہ ’مسئلہ فلسطین‘ کے حتمی حل کے بارے میں مبہم زبان کا مشتمل ہونا تھا۔ کیمپ ڈیوڈ کے پندرہ سال بعد، فلسطینی اتھارٹی کے اوسلو معاہدے کی تشکیل کے ساتھ، بالآخر فلسطینیوں کے حوالے سے مختلف شقوں پر کچھ عمل درآمد ہوتا نظر آیا، لیکن اوسلو معاہدے کے 5سال مکمل ہونے پر کچھ نہ ہونا بھی ایک اہم وجہ ہے کیونکہ اوسلوک معاہدے پر عمل درآمد کے لئے 5سالہ عبوری میعاد رکھی گئی تھی جو آتی چلی گئی،لیکن فلسطینی عوام آج بھی خود ارادیت سے بہت دور ہیں۔ اگر دوسرے لفظوں میں کہیں تو اسرائیل کی اس پالیسی کا مطلب ہے تلوار کے ذریعے غیر معینہ مدت تک اپنے آپ کو قائم رکھنا اور فلسطینی عوام پر مظالم ڈھاتے رہنا ہے، اس لیے درحقیقت اسرائیل، اس کے سرپرست امریکہ کے ذریعہ مشرق وسطیٰ میں حقیقی امن قائم کرنے کی کوشش بھی سب سے بڑا خطرہ لگتی ہے۔
دریں اثنا موجودہ منظر نامے میں جو چیز سب سے زیادہ حیران کن ہے، وہ حماس کے خلاف اسرائیلی حکومت کا شدید ردعمل ہے۔ کیونکہ اس حملے نے اسرائیل کی پوری پول کھول دی اور جو ملک اپنے آپ کو علاقائی سپر پاور کہتا تھا چند گھنٹوں میں حالتِ جنگ میں چلا گیا۔ حماس کے حملے کے 48 گھنٹوں کے اندر نیتن یاہو اور ان کے مخالف گینٹز کی عبوری حکومتیں متحرک ہو گئیں اور انہوں نے اپنے شیطانی حربے کو مستعدغیر مسلح فلسطینی شہریوں کے خلاف جوہری میزائل استعمال بے دریغ کرنے لگے اور اسی شیطانی چال کی وجہ سے اسپتالوں اور یونیورسٹیوں پر بمباری کی جارہی ہے اور سب خاموش ہیں۔ موجودہ جنگ دو سطحوں پر لڑی جا رہی ہے، پہلی عسکری جس میں اسرائیل کو مکمل طور پر امریکہ کی حمایت حاصل ہے اور اسرائیل ہر وہ فوجی کارروائی کررہا ہے جو بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتی نظر آرہی ہے۔ دوسری سطح پر، غلط معلومات، جو مغربی طاقتوں کے ایجنڈے کو ترتیب دینے کے لئے غلط بیانوں کو پیش کرنے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ چین جیسے ممالک جنہوں نے بظاہر صحیح مشورے دیے ہیں ان پر غلط معلومات کی مہم شروع کرنے کا الزام لگایا جارہا ہے، لیکن امریکی قوانین کے تحت X، FB یا یوٹیوب کے ذریعہ اسرائیلی حکومت کی حمایت میں پیسے دے کر گمراہ کن مہمات شروع کی گئی ہیں، مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ ساتھ ہی دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ مغربی میڈیا نے حملے کے محض چھ گھنٹے کے اندر ہی اسرائیل کی حمایت میں اور حماس کو شیطانی شبیہ دینے کی مہم کے تحت غلط خبریں، اداریے اور مضامین شائع کرنے شروع کردیے۔
مزید برآں اسرائیل میں جنگ نے دنیا بھر میں ہندوتوا کے حامیوں کے درمیان ایک نئی حمایت کی بنیاد بھی مہیا کرائی ہے۔جس نے سوشل میڈیا پوسٹوں کے ذریعے اسرائیل کے لیے ان کی غیر متزلزل حمایت کا اظہارکیا ہے۔ یہ دونوں سخت گیر دائیں بازو کے قوم پرست رجحانات کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ سوشل میڈیا پوسٹس اور نیوز آؤٹ لیٹس پر جھوٹ کی غلط معلومات کی مہم نے قومیت اور خود ارادیت کے مسائل پر مغربی منافقت کی بنیادی نوعیت کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔
جو ملک قانون کی حکمرانی یا بالادستی کی بات کرتے ہیں، وہی ان مہمات میں شامل نظر آرہے ہیں۔جس طرح اسرائیل نے غزہ کے مکمل محاصرے اور وہاں پانی ،بجلی کی سپلائی میں کمی،اہم طبی ادویات اور ضروری اشیاء کی فراہمی کو روکنا شروع کردیا ہے،اس پر ان مغربی ممالک کا کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔اس کے علاوہ اسرائیل نے اپنے پرانے دشمنوں لبنان اور شام کے خلاف بھی راکٹ سے حملے کیے ہیں اور کسی میں اس کے اقدامات پر سوال اٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اس حملے نے اسرائیل کی آئرن ڈوم ٹیکنالوجی سے جڑے موروثی جھوٹ کا بھی پردہ فاش کیا ہے، جسے بیچ کر اس نے اربوں ڈالر کمائے، لیکن حقیقت میں یہ ثابت ہوا کہ وہ کسی بڑے حملے کو روکنے کے قابل نہیں ہے، جو موجودہ حملے میںکم از کم 5ooo بموں پر مشتمل تھا۔ برطانیہ کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ نامی تھنک ٹینک کی تجزیہ نگار سیم کرینی -ایونز کا کہنا ہے کہ ’’حملے کے سراسر حجم نے اسرائیلی دفاعی نظام کو متاثر کیا ہے اور پوری پول کھل گئی کہ یہ ٹیکنالوجی کام کی نہیں ہے۔‘‘ آسٹریلوی اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں دفاعی حکمت عملی کے ایک سینئر تجزیہ کار میلکم ڈیوس مندرجہ بالا نقطہ نظر سے متفق نظر آتے ہیں اور اس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے اور یہ بات اس کی دفاعی برآمدات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہ بھی افسوسناک حقیقت ہے کہ اگرچہ اسرائیل نے غزہ کے لیے یوروپی یونین کی امداد کی مخالفت کی ہے، لیکن وہ یوروپی یونین کی جانب سے اپنی ناکام حکومت کی حمایت کے لیے قدم اٹھانے کا منتظر نظر آرہا ہے، جس کے تحت امریکہ سے زیادہ فنڈز اور زیادہ دفاعی ساز و سامان مہیا کرایا گیاہے۔ لیکن سب کے ذہنوں میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ موجودہ تنازع مشرق وسطیٰ کی سیاست پر کیا اثر ڈالے گا اور امریکہ و مختلف عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات میں کیا تبدیلی آسکتی ہے اور عالمی برادری ایران سے کس طرح ٹکر لے سکتی ہے۔ مجموعی طور پر اس معاملے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ بحران کیسے ختم ہوگا اور کب تک چلے گا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ تازہ ترین تنازع عرب دنیا پر بہت زیادہ اثر انداز ہو گا اور یقینا خطے میں اور عالمی سطح پر ایک بڑی تبدیلی واقع ہوسکتی ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)