راجوری میں کہیں ’’اِتائی-اِتائی‘‘ تو نہیں ہے؟

0

پنکج چترویدی

دو ہفتہ سے اپنے گھر سے دور رہ رہے بڈال گاؤں کے لوگ اب مایوس ہوکر مظاہرہ کرنے پر مجبور ہیں۔ پنیر کی طرح دودھ کی مصنوعات ’’کلاڑی‘‘ کے لیے مشہور راجوری ضلع کا ایک چھوٹا سا گاؤں بڈال گزشتہ دو ماہ میں 17مشتبہ اموات کی وجہ سے کووڈ کے دنوں کی طرح آئسولیٹ کردیا گیا تھا۔ 79کنبوں کو ان کے گھر سیل کرکے دور اسکول میں ٹھہرایا گیا تھا۔ وہیں موت کی اصل وجہ معلوم نہیں ہوپارہی ہے اور گاؤں والے کہہ رہے ہیں کہ ان کی غیرموجودگی میں مویشی اور فصل دونوں لاوارث ہوگئے ہیں۔ اس گاؤں کے جو 16مریض مختلف اسپتالوں میں زیر علاج تھے، اب مکمل صحت مند ہیں۔ تشویش کی بات ہے کہ ایمس دہلی سمیت کئی اعلیٰ اداروں کی ٹیموں کے دورے کے باوجود اب تک اس مشتبہ بیماری کی وجہ پتہ نہیں چل سکی ہے۔

پاکستان کی سرحد سے متصل ایک گاؤں میں اس طرح کی مشتبہ اموات نے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ تاہم مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے جنوری کے دوسرے ہفتے میں ہی کہہ دیا تھا کہ مرنے والوں کے جسموں میں بڑی مقدار میں کیڈمیم پایا گیا اور موت کی وجہ یہی ہے۔ وہیں 24جنوری کو پی جی آئی چندی گڑھ کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بیمار لوگوں کے جسموں میں بہت سی بھاری دھاتیں پائی گئی ہیں۔ یہی نہیں ان دھاتوں کی مقدار معمول سے کئی گنا زیادہ پائی گئی۔ ماہرین کے مطابق یہ بھاری دھاتیں زہر کی طرح کام کرتی ہیں۔ تاہم مریضوں کے نمونے سینٹرل ایف ایس ایل، ڈی آر ڈی او گوالیار اور دیگر معروف لیباریٹریوں کو بھی بھیجے گئے ہیں اور وہاں سے رپورٹ آنے کے بعد بیماری کی اصل وجہ معلوم ہوسکے گی۔

اس گاؤں کے جو بیمار اب مکمل طور پر صحت مند ہیں، ان کا علاج کررہے پی جی آئی، چنڈی گڑھ کے ڈاکٹرس کا کہنا ہے کہ اینٹی ڈوٹ کے طور پر ایٹروپن دوا کا استعمال کامیاب رہا اور اس نے 100فیصد نتائج دیے ہیں۔ حالاں کہ ایٹروپن کا استعمال آرگینوفاسفورس زہر کے لیے ایک تریاق(Antidote) ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی بھی بیمار یا انتقال کرگئے لوگوں کے جسم میں آرگینوفاسفورس زہر کی کوئی علامت نہیں نظر آئی۔ ۔۔۔۔ فروری کو ضلع کی سبھی کیڑے مار دوا اور کھاد کی دکانوں سے نمونے اکٹھے کیے گئے اور تقریباً250دکانوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔

یہ نہ صرف تشویش کی بات ہے بلکہ مستقبل کے لیے بھی احتیاط کی بات ہے کہ آخر ایک نامعلوم گاؤں کے غریب محنت کش لوگوں تک یہ زہر یا بھاری دھات کس طرح ان کے کھانے کے نظام میں شامل ہوگئی۔ مرنے والوں میں زیادہ تر بچے ہیں۔ ان سب کو اچانک تیز بخار اور سانس لینے میں دشواری ہوئی۔ اس کے بعد وہ نیم بے ہوشی کے عالم میں چلے گئے۔ اس بات کی تو تصدیق ہوگئی ہے کہ متوفی اور مریضوں کے جسموں میں کسی قسم کا زہر نہیں پایا گیا ہے۔ مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے لکھنؤ کی سرکاری لیباریٹری کے ذریعہ کیے گئے مطالعہ کی بنیاد پر ہی کیڈمیم کی بات کہی ہے اور یہ بھی گہری تحقیق کا موضوع ہے کہ اس گاؤں میں کیڈمیم کی مقدار فوڈ چین تک کیسے پہنچ گئی۔ جس طرح سے موت اور بیماری پھیلی، اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ کیڈمیم یا دیگر بھاری دھاتوں کی مقدار اچانک اور بہت زیادہ مقدار میں آئی۔

یہ صرف بیٹری یا الیکٹرانک آلات کو جلاکر تباہ کرنے،اینمل پینٹ جیسی اشیا کو فطرت میں ٹھکانے لگانے سے ہی ممکن ہے۔ بڈال گاؤں ہمالیہ کے پیر پنجال سلسلے کی گود میں واقع ہے اور یہاں سے بہت سی پانی کی نہریں بہتی ہیں۔ چناب کی معاون ندی آنسی، بڈال سے ہوکر گزرتی ہے۔ زیادہ اندیشہ ہے کہ پانی کے ذریعہ بھاری دھات انسان کے جسم میں پہنچیں۔ معلوم ہوکہ بڈال اور اس کے گردونواح میں بہت سی ندیاں اور چھوٹی ندیاں ہیں۔ اس کے علاوہ چندن، سکھ، نیل، ہانڈو سمیت کئی ’’سر‘‘ یعنی تالاب ہیں۔ یہاں کی ایک بڑی آبادی پانی کے لیے آبشاروں یا ان ہی قدرتی ندیوں پر منحصر ہے۔ چونکہ اس علاقے میں کوئلہ، چونا، باکسائٹ، لوہا اور بینٹونائٹ جیسی خام دھاتیں پائی جاتی ہیں، اس لیے یہاں غیر قانونی کان کنی ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ ایسے میں کان کنی کے باقیات کے پانی کی لہروں میں اختلاط سے اس میں بھاری دھاتوں کی مقدار میں اضافے کا امکان ہے۔ اس طرح کے معاملات پہلے میگھالیہ میں دیکھے گئے ہیں جب کوئلے کی غیر قانونی کان کنی کے باقیات کی وجہ سے ندی کا پانی نیلا ہو گیا اور اس میں مچھلیوں سمیت آبی حیات ہلاک ہوگئیں۔

1912کے آس پاس جاپان میں تویاما بیسن کی جینجو ندی کے کنارے رہنے والے لوگوں کو جب جسم کے جوڑوں میں شدید درد اور سانس لینے میں دشواری شروع ہوئی تو اسے ’’اتائی-اتائی‘‘ (جاپان میں جوڑوں کے دردکی وجہ سے آؤچ اوچ) کا نام دے دیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد 1946 میں جب ان کیسز کی سنجیدگی سے تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ ندی کے کناروں پر زبردست کانکنی کی وجہ سے پانی میں کیڈمیم کی مقدار بڑھنے سے یہ بیماری پھیلی۔ جوڑوں میں درد، اس کے بعد گردے اور پھیپھڑوں کا کام کرنا بند ہونا۔ کئی اموات ہوئیں۔ 1955تک اس بیماری کا عوامی طبی نظام میں ذکر بھی نہیں ہوا۔ 1961 کے بعد ندی کے پانی اور اس کے پانی کے استعمال سے پیدا ہورہے چاول اور سبزیوں میں کیڈمیم کی مہلک سطح کا علم ہوسکا۔ غور کریں کہ بڈال کے جغرافیائی حالات اور مریضوں کی حالت دریائے جینجو ندی کے کنارے رہنے والے لوگوں سے ملتی جلتی ہے۔

سمجھنا ہوگا کہ بھاری دھاتوں کا زہریلا پن اور ان کی حیاتیاتی ڈھیر(Bioaccumulation) کچھ ایسے ابھرتے ہوئے عالمی خدشات ہیں جو پودوں، جانوروں اور انسانوں سمیت زندگی کی مختلف شکلوں کو متاثر کرتے ہیں۔ زیادہ تر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں صنعت کاری، شہرکاری، زرعی طریقوں وغیرہ نام نہاد ترقیاتی سرگرمیوںکے سبب زمین اور ماحولیات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کیڈمیم(سی ڈی) زہر چین، بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان جیسے ممالک میں ایک بڑا مسئلہ ہے، ایجنسی فار ٹاکسک سبسٹینس اینڈ ڈیزیز رجسٹری (اے ٹی ایس ڈی آر) رینکنگ کے مطابق کیڈمیم(سی ڈی) ساتویں نمبر پر ہے۔ کیڈمیم کی ضرورت سے زیادہ مقدار مٹی، پانی اور ہوا کے ذریعے انسانی فوڈ چین میں داخل ہو سکتی ہے اور ٹشوز کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اگرچہ کیڈمیم قدرتی طور پر مٹی میں موجود ہوتا ہے، لیکن اندھادھند زراعت اور کان کنی جیسی انسانی سرگرمیوں سے اس کی سطح بڑھ کر خطرناک ہوسکتی ہے۔

پودے اپنی جڑوں کے ذریعے کیڈمیم کو جذب کرتے ہیں اور یہ پتوں والی سبزیوں، اناج، جڑ والی فصلوں اور اناج میں جمع ہوسکتا ہے۔ کئی بار مویشی کیڈمیم والے پودے کھاتے ہیں جو ان کے جسم میں جمع ہوجاتا ہے۔ پھر ان کے دودھ یا گوشت کے ذریعے یہ زہر انسانی جسم کو کھوکھلا کرتا ہے۔ پانی میں یہ تیزی سے گھلتا ہے اور اسی طرح ہوا میں بھی۔کیڈمیم سب سے پہلے گردوں،خاص طور پر گردے کی نالیوں کو متاثر کرتا ہے اور کم مالیکیولر-وزن والے پروٹین کے پیشاب کے اخراج کو بڑھاتا ہے، اس سے کمزوری اور جگر کو نقصان کو پہنچتا ہے۔ راجوری کے گاؤں میں جس طرح سے مریضوں کے اعضاء کام کرنا بند کررہے ہیں اور پھر ان کے پھیپھڑے کام کرنا چھوڑ رہے ہیں، اس سے کیڈمیم کے خدشہ کو ہی تقویت مل رہی ہے۔

ملک کے دیگر گاوؤںکی طرح یہاں بھی اتنی اموات کے بعد افواہیں اور توہمات تو ہیں ہی۔ تاہم مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی کئی ٹیمیں یہاں مصروف ہیں اور فی الحال ان کے سامنے چیلنج اس بیماری کی وجوہات کی نشاندہی کرنا اور اس پر قابو پانا ہے۔ بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ کہیں سرحد پار سے یا کسی ملک مخالف نے کیمیائی دہشت گردی کا کوئی تجربہ نہ کیا ہو۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS