بینام گیلانی
مذہب خواہ کوئی بھی ہو ،وہ انسانوں کو جلن ،حسد،قتل و غارتگری اور منافرت کا درس کبھی نہیں دیتا ہے۔یہ بصد افسوس رقم کرنا پڑ رہا ہے کہ عہد حاضر میں مذہبی منافرت جیسا عمل جو بھی عمل پذیر ہو رہا ہے۔وہ صرف اور صرف مذہب ہی کے نام پر عمل پذیر ہو رہا ہے۔اس طرح تو مذہب محبت و رواداری و ایثار کی علامت نہ ہو کر تکرار و پیکار کا سر چشمہ ہو کر رہ گیا ہے۔۔مذہب در اصل وہ ضابطۂ حیات ہے جس کے تحت انسان ایک با اصول زندگی گزارنا سیکھتا ہے ،جس سے باہمی تعلقات ، رشتہ،انسانی ہمدردی،جذبۂ تعاون و ہمدردی و درد مندی اور اخلاقیات کا درس حاصل کرتا ہے۔لیکن افسوس معاصر عہد میں مذہب کے نام پر جو بھی عمل پذیر ہو رہا ہے۔وہ تمام کے تمام امور مذہبیت کے منافی و متضاد نظر آتے ہیں۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ جو لوگ مذہبی عناد و منافرت کو مذہبیت تسلیم کئے بیٹھے ہیں۔وہ کوئی کم علم یا بے علم لوگ نہیں ہیں۔بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تو ہیں ہی۔وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز بھی ہیں۔
چنانچہ اس مذہبی منافرت و عداوت کو مبنی بر جہالت عمل نہیں کہا جا سکتا ہے۔بلکہ اگر حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو ایسے مذموم عمل کو مبنی بر جہالت عمل سے بھی بدتر عمل کہنا مناسب ہوگا۔ایسا کہا بھی جارہا ہے۔وہ لوگ جو حقیقت میں سوشلزم و سیکولرزم کے پیروکار ہیں وہ بہ بانگ دہل یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ عمل حقیقتاً مبنی بر جہالت ہے۔۔اس عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسناد علمیت کی ضامن نہیں ہوتی ہیں۔کسی دانشور نے درست ہی کہا ہے کہ اسناد تعلیم پر خرچ ہونے والی رقم کی رسید ہوتی ہیں، علمیت کی دلیل نہیں۔ بہر حال ارض ہند پر اسلاموفوبیا کی قریب سو سالہ تاریخ ہے۔یہ تاریخ اس قدر دل شکن اور روح فرسا ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔قابل غور امر یہ ہے کہ آخر یہ عداوت و منافرت کا سبب کیا ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر انسان کو اپنا مذہب اپنا عقیدہ عزیز ہوتا ہے۔ہر مذہب کے پیروکار اپنے مذہب کو سب سے بہتر ہی نہیں بلکہ اعلیٰ تصور کرتے ہیں۔یہاں تک تو معاملہ درست ہے۔دھرم و مذہب کا اپنے پیروکاروں سے تقاضا بھی یہی ہے۔پھر ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنا مذہب اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہونا ہی چاہئے۔کیونکہ بغیر اس جذبے کے کسی بھی مذہب کی حفاظت و بقا ممکن نہیں ہے۔ چونکہ مذہب سے محبت مذہبیت کے تقاضے کے تحت ہے۔اس لئے اسے غلط قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔لیکن اپنا یہ جذبہ اور نظریہ کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں پر جبریہ یا بزور تھوپنا کہیں سے اور کسی طور پر بھی مبنی بر انصاف نہیں ہوگا۔یہیں سے عداوت و منافرت کی بنیاد پڑنا شروع ہو جاتی ہے اور بات خون خرابہ تک پہنچ جاتی ہے۔
جہاں تک عالمی پیمانے پر اسلامو فوبیا کا سوال ہے تو اس کا آغاز سلطنت عثمانیہ کی مخالفت سے ہی شروع ہو گیا۔ذہن نشیں رہے کہ اس سے قبل جتنے بھی غزوات عمل پذیر ہوئے۔ان میں سے کوئی بھی غزوہ اسلام کے لئے عمل پذیر نہیں ہوا بلکہ معاشرے کے بگاڑ اور جبر و مظالم و استحصال و استبداد کے خلاف عمل پذیر ہوا۔لیکن سلطنت عثمانیہ نے اپنی فتحیابی کا پرچم بلند کرتے ہوئے کئی غیر مسلم ممالک کو زیر نگوں کر لیا تھا۔بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی ہے۔اس دور میں اہل مغرب میں بھی اعلیٰ و ادنیٰ کے علاوہ ذات پات کا امتیاز اپنے پورے شباب پر تھا۔پھر چرچوں کی برتری سے عوام تو عوام۔وہاں کا حکمران طبقہ بھی خوب خوب پریشان و حراساں تھا۔ایسے ماحول و فضا میں اسلامی حکومت کا قیام اور عوامی زندگی پر اسلام کے اثرات نے اہل چرچ کے علاوہ نصاریٰ کے سرخیلوں و سرداروں کو بھی اسلام اور اہل اسلام سے بہت برہم کر رکھا تھا۔چنانچہ تمام نصاریٰ ممالک نے متحدہ طور پر یکبارگی مسلمانوں پر یلغار کر دیا اور سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔یہ تو ماضی کی بات ہوئی۔جس کے زخم ابھی تک ہرے تھے کہ اہل مغرب مسلسل اس زخم کو کریدتے رہے۔جس کا انجام یہ ہے کہ آج پوری عالمی فضا زہر آلودہ ہو چکی ہے۔کم و بیش دو دہائی قبل اس و با کے اثرات بیشتر مغربی ممالک میں ہی نظر آتے تھے۔گو کہ یہی مغربی ممالک مذہبی آزادی اور مذہبی رواداری کے علمبردار بھی خود کو کہلوانے میں افتخار محسوس کیا کرتے تھے۔لیکن اب مذہبی منافرت خصوصاً اسلاموفوبیا سے متاثر مشرقی ممالک بھی نظر آتے ہیں۔ان میں پہلا مقام ہندوستان ہی کو حاصل ہے۔اہل مغرب کا اسلاموفوبیا کچھ الگ نوعیت کا ہے۔یہ جان کے دشمن کم اور ایمان کے دشمن زیادہ نظر آتے ہیں۔ان میں راست طور پر زد و کوب یا قتل و غارت گری کی ہمت نہیں ہے۔چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کی دل شکنی و دل آزاری اور ایزا رسانی کے لئے ذہنی اذیت کا راستہ اختیار کیا۔اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے ان اہل مغرب نے مقدس قرآن الحکیم کی بے حرمتی کرنا اختیار کیا تا کہ مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں اور یہ بیجا اقدام کو مجبور ہوں۔جن کی بنا پر انہیں قید خانوں اور عقوبت گاہوں میں ڈال کر ان کی اور ان کی نسلوں کی زندگیاں برباد کی جا سکیں۔اسی منصوبے کے تحت اہل مغرب نے قرآن الحکیم کو کئی دفعہ نذر آتش کیا۔اس سے قبل اسی قرآن میں خامیاں و کمیاں تلاش کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔لیکن خدا کا شکر ہے کہ وہ اپنے اس منصوبے میں مطلقاً ناکام رہے۔جب وہ قرآن کریم میں کوئی نقص یا کمی نہیں نکال سکے تو اس میں تصرف کی کوشش کی۔یہاں بھی انہیں زبردست ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ کیونکہ قرآن دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جسے لاکھوں لوگ ازبر کئے بیٹھے ہیں۔چنانچہ اس میں الفاظ تو الفاظ اعراب کی تبدیلی بھی ممکن نہیں ہے۔جہاں بھی تصرف ہوگا۔اس کی شناخت فوراً ہو جائے گی۔پھر تصرف فرمانے والے کو سوائے رسوائیوں کے اور کچھ حاصل نہیں ہو سکے گا۔اہل مغرب نے تو اپنی اسلام دشمنی یا اسلاموفوبیا کے جذبے میں اس قدر سرشار ہو گئے کہ نیا قرآن ہی خلق کر ڈالا۔وہاں بھی انہیں رسوائی ہی رسوائی اٹھانی پڑی۔در اصل قرآن لوح سماوی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔لوح سماوی خدائی کتاب ہے۔اب جس کتاب کا خالق خود خدائے تعالیٰ کی ذات واحد ہو۔اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی کتاب کر ہی نہیں سکتی ہے۔اس کتاب کا خالق خواہ جس قدر بھی تعلیم یافتہ ہو۔انسان کی خلق کی ہوئی کتاب کبھی بھی صحیفہ کی ہم معیار نہیں ہو سکتی ہے۔قران کے مد مقابل جس نے کتاب خلق کی وہ خود تھک ہار کر بیٹھ گیا۔جس نے بھی ایسی کتاب خلق کرنے کی حماقت کی اس کا مقصد عین صرف اور صرف مسلمانوں کی دلآزاری تھا۔اسے شاید یہ علم نہیں تھا کہ اسی کتاب میں اللہ وحدہ لاشریک نے اپنی کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے۔متذکرہ بالا تمام حقائق سے اسلام کے مخالفین واقف کار ہیں۔لیکن چونکہ ان کا مقصد عین مسلمانوں کی دلآزاری ہے اس لئے وہ اپنی فتنہ انگیزی سے باز نہیں آ سکتے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اسلاموفوبیا کا سبب کیا ہے تو جواباً عرض ہے کہ وہ سب اسلام کی حقانیت اور اس کی مقبولیت سے پریشان ہیں۔جس کے باعث اس کو برق رفتاری سے فروغ حاصل ہو رہا ہے۔حالیہ سروے کے مطابق ادھر کم و بیش دو ماہ کے اندر قریب 3000000(تیس لاکھ)انسان مشرف بہ اسلام ہوئے۔جبکہ سناتن دھرم میں محض 300 افراد داخل ہوئے۔عیسائیت اور یہودیت کو کتنے لوگوں نے اختیار کیا اس کا حساب کتاب دستیاب نہیں ہے۔آج سے قریب نصف صدی قبل جب اہل مغرب کی مذہبی تنظیم “میشن” کے ذریعہ مذہبی تبدیلی مہم کے تحت بیشتر شہروں میں چرچ تعمیر کرایا گیا۔اس چرچ کے ذریعہ مفت راشن اور کپڑا دستیاب کرایا گیا،چرچوں میں تعلیمی نظام قائم کیا گیا اور ہر قسم کی تعلیم مفت دی جانے لگی۔جس کے عوض تبدیلء مذہب کو فروغ حاصل ہوا اور سناتنوں کے نچلے طبقے نے(شدر) بے تحاشا عیسائیت کو قبول کیا۔لیکن کچھ ہی سالوں بعد مشن کے کاموں میں کوتاہیاں در آنے لگیں تو تبدیل مذہب کے کام کی رفتار بھی نرم پڑی اور رفتہ رفتہ جنہوں نے عیسائیت قبول کی تھیں ان کی گھر واپسی ہو گئی۔نتیجہ کے طور پر عیسائیت کا فروغ بھی اب قریب قریب تھم سا گیا ہے۔لیکن اسلام کے فروغ میں ہمہ اوقات اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔اضافہ نہ ہی پیسوں کے زور پر عمل پزیر ہو رہا ہے اور نہ ہی تلواروں کے زور پر۔جیسا کہ اسلام کے حاسدوں نے یہ افواہ اڑا رکھی تھی کہ اسلام تلوار کے زور پر فروغ پایا ہے۔ معاصر عہد میں جو مشرف بہ اسلام ہو رہے ہیں وہ طاقتور ممالک کے شہری ہوتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں۔ ان میں چرچوں کے پادری بھی ہیں اور اعلیٰ قدر سائنسداں بھی ہیں وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوتے ہیں کہ اس قدر دشمنی اور جبر و ستم کے باوجود لوگ اسلام کو ترک کرنے سے بہتر اسلام کے لئے شہید ہو جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آخر اسلام میں ایسی کون سے خوبی ہے کہ لوگ اس کے لئے شہادت کو ہنس ہنس کر گلے لگا لیتے ہیں۔ اس حقیقت کی تلاش میں لوگ اسلام کا مطالعہ بہت ہی عمیق نگاہی کے ساتھ کرتے ہیں اور جب وہ پاتے ہیں کہ دنیا میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جسے سچا کہا جا سکتا ہے تب پھر وہ بلا وقت ضائع کئے مشرف بہ اسلام ہو جاتے ہیں۔اب اس تبدیلء مذہب کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوا جاتا ہے جس کے باعث ان اسلام دشمنوں کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے ہیں۔در اصل اسلاموفوبیا کی یہی اساس ہے۔اسلام کی حقانیت اور اس کی کشادگی،کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کے لئے ہرز جان بنی ہوئی ہے۔اسلام کے جو التزامات ہیں یا جو شرائط ہیں وہ تمام انسان اور انسانیت کی بھلائی پر مبنی ہیں۔ایسا کسی بھی مذہب میں موجود نہیں ہے۔
جب دوسرے مذہب کے پیروکار کبھی مسجد تشریف لے جاتے ہیں اور وہاں دیکھتے ہیں کہ بادشاہ و فقیر ایک جگہ اور ایک ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔وہاں امیر و غریب میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا ہے تو وہ اسلام کی اچھائی اور بڑائی کے قائل ہوتے جاتے ہیں۔یہی منظر انہیں مسلمانوں کے دسترخوان پر نظر آتا ہے۔ تب بھی وہ حیرت زدہ ہو جاتے ہیں۔جب وہ ماہ رمضان میں دیکھتے ہیں کہ ہر گھر سے افطارکی اشیا مساجد میں جاتی ہیں جہاں ہر کس و ناکس روزہ کشائی کر سکتا ہے خواہ وہ مقامی ہو یا بیرونی۔جب وہ یہ جانتا ہے کہ کوئی بھی مسلمان بغیر فطرہ کی رقم ادا کئے۔نماز عید ادا نہیں کر سکتا ہے۔کیونکہ بہت سارے مفلوک الحال انسان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر انہیں فطرہ کی رقم نہ حاصل ہو تو انہیں عید کے روز بھی روزہ ہی ہو سکتا ہے۔دوسرے مذاہب کے پیروکار جب دیکھتے ہیں کہ عیدالاضحی کے لئے مسلمانان بڑی بڑی قیمتیں ادا کر کے قربانی کا جانور خریدتے ہی اور زبح کرنے کے بعد اس کا دو تہائی حصہ بڑی ہی مسرت کے ساتھ اہل ضرورت میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ لیکن ان کی جبینوں پر شکن بھی نہیں آتی ہے۔تب وہ حیرت زدہ ہو جاتے ہیں۔اوہ اس بات سے بھی حیرت زدہ ہو جاتے ہیں کہ یہ مسلمان کس طرح ہنسی خوشی اپنی ساری کمائی کا ڈھائی فیصد حصہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے ہیں جس کی انہیں بیحد مسرت ہوتی ہے۔ دوسرے مذہب کے پیروکار یہ دیکھ کر بھی حیرت زدہ ہوتے ہیں کہ مسلمان بہت ہی مشکلوں سے کمائی گئی رقم میں سے ایک کثیر رقم خرچ کر کے حج بیت اللہ ادا کر کے انتہائی مسرور نظر آتا ہے اور معاشرے میں اس کے مقام و مرتبہ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ایسی خوبیاں کسی بھی دوسرے مذہب میں نہیں پائی جاتی ہیں۔اسلام کی یہی خوبیاں اہل علم کو نہیں بھاتی ہیں۔ جس کے باعث آج لوگ جوق در جوق مشرف بہ اسلام ہو رہے ہیں۔اسلام نے اجتماعیت کا درس دیا ہے۔باہمی محبت و اخوت کا درس دیا ہے۔ہمدردی و نگہبانی کا درس دیا ہے۔عجز و انکساری کا درس دیا ہے۔یعنی اسلام نے اچھائی و نیکو کاری کا درس دیا ہے۔
[email protected]