ڈاکٹرحافظ کرناٹکی
اسلام معاشرتی نظم و ضبط، سماجی تنظیم اور اجتماعیت واتحاد کا داعی ہے۔ اجتماعیت اور حسن معاشرت انسان کی فطرت کا حصّہ ہے۔ انسان سماج کے بغیر رہناپسند نہیں کرتا ہے۔ اور سماج وجود میں آتا ہے اجتماعیت سے اور جب سماج کی بنیاد پڑجاتی ہے تو سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے حسن معاشرت پر۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اسلام ابتداہی سے انسانی وحدت و اتحاد اور بھائی چارے پر زور دیتا آرہا ہے۔ اس کی تعلیمات اور اس کے اعمال و افعال اور عقائد و برتاؤ میں ہر جگہ وحدت و اتحاد اور بھائی چارے کا عنصر نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ وہ صاف صاف کہتا ہے کہ جب سارے انسانوں کا خالق ایک ہے تو اس کے برتاؤ اور سلوک میں بھی وحدت کی جلوہ گری ہونی چاہیے۔ وحدت سے مراد جغرافیائی، لسانی، نسلی، مذہبی، اختلافات کے باوجود کسی ایک نقطہ پر متحد و متفق اور ہم خیال ہونا ہے، اسی کو دوسرے لفظوں میں ہم اجتماعیت، معاشرت اور سماج سے تعبیر کرتے ہیں۔ معاشرت اسلامی ضابطہ حیات کی ترجمان اور انسانی فطرت کی عکاس ہے۔ جبکہ مغربی تہذیب الٰہی نظام معاشرت، اور تعلیمات سے پوری طرح میل نہیں کھاتی ہے۔ کیوں کہ یہاں انفرادی صلاحیتوں، لیاقتوں، اور آزادیوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات ہی کافیضان ہے کہ اس نے والدین کے حقوق، بچوں کے حقوق، عورتوں کے حقوق، مردوں کے حقوق، بڑوں کا احترام، چھوٹوں پر شفقت، یتیموں کے حقوق کی حفاظت، غریبوں بے کسوں اورمجبوروں کے حقوق کی پاسداری، دوست احباب کے ساتھ حسن سلوک، پڑوسیوں کے ساتھ رواداری، غیروں اور انجان لوگوں کے ساتھ اخوّت ومحبت کی حمایت، دوسرے مذاہب کے احترام کا درس دے کر اخلاق و کردار کی بلندی و عظمت اور آپسی میل جول اور انسانیت کا درس دے کر اجتماعیت کی ڈور میں باندھا۔ مالک اور غلام کے حقوق کا تعین کیا اور انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلایا۔یہ اسلام اور مسلمانوں کا ایسا اختصاص و امتیازہے جو عملی زندگی میں سماج و معاشرے کو آپس میں مربوط کرتا ہے۔ کیوں کہ امت مسلمہ کی بعثت کا بنیادی مقصد خیر و صلاح کا قیام اور برائیوں سے اجتناب کرنا ہے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ جب ہر ایک فرد کے اندر یہ احساس پیدا ہوجائے کہ خدا کی رضااور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے احکام خداوندی کی پابندی ضروری ہے۔ اور یداللہ علی الجماعت کو ہر وقت نہ صرف یہ کہ یاد رکھنا بلکہ عملی زندگی میں نافذکرنا لازمی ہے۔
غالباً یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ اسی اجتماعیت اور بھائی چارے کو مضبوط کرنے کے لیے رسول کریمؐ نے فرمایا کہ آپس میں سلام کو رواج دو۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ گفتگو سے پہلے سلام ہے۔ آپ ہی غور کریں کہ جب آپ کسی سے گفتگو شروع کرنے سے پہلے اسے یہ کہہ کر مخاطب کریں کہ تم پر اللہ کی سلامتی اور رحمت ہو تو کیا وہ اپنے آپ کو آپ سے ایک خاص طرح کے رشتے میں بندھا ہوا محسوس نہیں کرے گا۔
لوگوں کے ساتھ رہنے سہنے ملنے جلنے کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے حضورؐ نے فرمایا ’’ہر مسلمان عام لوگوں سے میل جول رکھے، اور ان کی طرف سے ہونے والی تکلیف دہ باتوں پر صبر اختیار کرے تو یہ ایسے مسلمان سے بہتر اور افضل ہے جو الگ تھلگ رہ کر زندگی بسر کرے اور لوگوں کی تکالیف پر صبر اختیار نہ کرے‘‘ پھر معاشرتی، اور تمدنی و اجتماعی زندگی گزارنے کے بارے میں ارشاد فرمایا؛ ’’لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ ’’اپنے مسلمان بھائی کے سامنے خندہ پیشانی سے پیش آنا تمہارے لیے صدقہ ہے۔‘‘ ہم جانتے ہیں کہ فرد سے ہی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ اس کے بعد اجتماعیت کا قیام عمل میں آتا ہے۔اور جب اجتماعی طور پر کوئی عمل کیا جاتا ہے تو اس کے نتائج جلد اور بہتر طور پر برآمد ہوتے ہیں۔ اور دیر تک قائم رہتے ہیں کیوں کہ اس میں اللہ کی مدد اور منشا شامل ہوتی ہے۔
آج امت مسلمہ انتشار کا شکار نظر آتی ہے کیوں کہ اس کی اکثریت اجتماعیت سے منحرف ہو کر اپنے اپنے مفاد اور اپنے اپنے مقاصد و مسالک کی حامی بن چکی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے یہاں اتحاد اور اجتماعیت کی صورت بہت مخدوش نظر آتی ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کو ایک امت بنایا۔ انسان کو انسان کی غلامی کی دلدل سے نکالا۔ ایک اللہ کی عبادت کی طرف پکارا ، ایک کتاب کو اس کی زندگی کا محور بنایا اور ایک نبی کی اطاعت و جاں نثاری کا درس دیا۔ ان تمام چیزوں میں وحدت کی منشا یہ تھی کہ مسلمان اجتماعیت اور وحدت اور اتحاد کو اپنا لے باہمی منافرت، اونچ نیچ اور جنگ و جدال سے محفوظ رہے۔ آپسی تعلقات اس قدر مضبوط ہوں کہ وہ دشمنوں کے لیے ناقابل تسخیر بن جائیں۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے؛ ’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔ اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑدیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے اللہ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ تم راہ راست پر آجاؤ‘‘
اس آیت میں اللہ کی رسی کا ذکر ہے جس کے بارے میں عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے کہ ؛ ’’اس سے مراد جماعت اور اجتماعیت ہے اور اسی کا التزام کرنے کی تاکید اس آیت کریمہ میں کی گئی ہے۔ اجتماعیت نہ صرف یہ کہ ایک اسلامی ضرورت ہے بلکہ یہ ایک انسانی ضرورت بھی ہے۔ کیوں کہ دنیا میں تاریخ و تہذیب کی بنیاد پڑنے سے بہت پہلے اجتماعیت وجود میں آچکی تھی۔ کبھی یہ اجتماعیت خاندان کی شکل میں نظر آتی تھی تو کبھی قبائلی وحدت کی شکل میں اور کبھی قومی سطح پر اس کی شکل دیکھنے میں آتی تھی۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی فطرت اجتماعیت کی حامل ہے۔ہم جانتے ہیں کہ اسلامی معاشرت میں والدین کے ساتھ نیک سلوک اور برتاؤ کی بڑی اہمیت اور تاکید ہے۔ اللہ کے حقوق کے بعد اگر کسی کا درجہ ہے تو وہ والدین ہیں، کسی بھی سماج اور معاشرے اور گروہ اور اجتماعیت کا تصور گھر خاندان سے ہی قائم ہوتا ہے۔ والدین کی اہمیت پر اسلام میں بہت زور دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ ’’ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے‘‘ فرمان نبوی ہے کہ باپ جنت کے دروازوں میں سے ہے اور یہ بھی کہ باپ کی رضا میں اللہ کی رضا ہے۔ اور باپ کی ناراضی میں اللہ کی ناراضی ہے۔دوسری جگہ ارشاد نبوی ہے جو شخص چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔
یہ اجتماعیت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ کیوں کہ اجتماعیت کی بنیاد گھر اور خاندان سے پڑتی ہے۔ گھر اور خاندان کے بزرگوں کا احترام اور چھوٹوں کے ساتھ محبت و شفقت میں وہ سب لوگ آجاتے ہیں جو گھر خاندان سے باہر کے ہوں۔ حد یہ کہ جو دوسرے قبیلے، ملک، خطے اور مذہب سے ہی کیوں نہ ہوں ، کیوں کہ اسلام پڑوسیوں اور محلے والوں کا خیال رکھنے کا بھی حکم دیتا ہے۔ اور اس کے ساتھ اچھا سلوک اور برتاؤ کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ؛ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر اور اچھا انسان وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے سب سے اچھا ہو۔ عزیز و اقارب، رشتے داروں، پڑوسیوں، اور محلے والوں سے رشتے بنائے رکھنا اجتماعیت کی تکمیل کرنے کے مترادف ہے۔ اور لوگوں سے تعلق بگاڑ لینا اسلامی اجتماعیت اور معاشرت کے ساتھ ساتھ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ اسی لیے قطع تعلق کرنے والے کو خبردار کیا گیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے کہ؛’’ رشتہ توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘حسن معاشرت اور اجتماعیت میں نفاق و انتشار پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی لیے قرآن کریم میں ایثار کو قابل تعریف و صف قرار دیاگیاہے۔
اسلامی شریعت جہاں حقوق اللہ پر زور دیتی ہے وہیں حقوق العباد کو بھی لازمی قرار دیتی ہے۔ اسلامی شریعت صرف عبادت وریاضت کا طریقہ بتا کرخاموش نہیں ہوجاتی ہے بلکہ اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لیے ایک پورے نظام کی تفصیل سے وضاحت کرتی ہے۔ جس میں تہذیبی، تمدنی، شہری، ملکی، اخلاقی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، اور بین الاقوامی غرض یہ کہ زندگی کے کسی گوشے کو نظر انداز نہیں کرتی ہے۔ اجتماعی زندگی کے انہیں اصولوں سے صحت مند معاشرہ پیدا ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات معاشرے میں گناہوں اور جرائم کے سدباب کے لیے اخلاقی اور قانونی اصول و ضوابط کی تفصیل سے وضاحت کرتی ہے۔ اور لوگوں کو ہدایت بھی دیتی ہے۔ آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ سماج اور معاشرے اور ملک و قوم میں سب سے زیادہ فسادات شرم و حیا کی کمی اور عورت و مرد کے ناجائز رشتوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کی روک تھام کے لیے حضورؐ نے فرمایا؛ ’’حیا ایمان کا ایک اہم شعبہ ہے‘‘ دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ؛ ’’حیا سے خیر ہی وجود میں آتا ہے۔‘‘ نگاہوں اور شرم گاہوں کی حفاظت کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایاکہ؛ ’’ایمان والوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘زنا اور حرام کاری جیسے گناہ کبیرہ کی ممانعت کے لیے قرآن پاک کی تعلیم ہے کہ؛ ’’زنا کے قریب بھی مت جاؤ، وہ بہت بڑی بے حیائی ہے۔‘‘
اسلام کا کمال صرف یہی نہیں ہے کہ وہ حسن معاشرت کے تمام اصولوں کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے بلکہ اس کے برے انجام سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ زنا، شراب، سود، بے ایمانی، غبن، چغل خوری، بہتان، بدتمیزی، بدکلامی، خود پرستی، نمائش غرض یہ کہ اسلام ان تمام چیزوں سے روکتا ہے جس سے دلوں میں رخنے پڑتے ہیں۔ لوگ آپس میں ملنے جلنے سے کتراتے ہیں۔ کیوں کہ اسلام اجتماعیت اور اتحاد اور مساوات کی تعلیم دینے والا دین فطرت ہے۔