شبانہ اظہر سیّد
آپ قدیم زمانے کی تہذیبوں کا معائنہ کرینگے تو عورت کے مقام اور مرتبہ کا علم ہوگا۔ یہ بات واضح ہوگی کہ عورت کا کوئی مقام و مرتبہ تھا ہی نہیں۔ مثال کے طور پر چند تہذیبوں اور عقیدوں پر نظر ثانی کریں۔
قدیم یونانی عقیدے کے مطابق عورت اپنے ساتھ تمام دنیوی آفات و مصائب، رنج و غم، گناہ اور فتنہ فساد لیکر اس دنیا میںآئی ۔
رومی تہذیب میں عورتوں کو اس قدر پامال کیا جاتا کہ مرد کو بالکلیہ اختیار حاصل تھا، وہ جب چاہتا اپنی بیوی کو گھر سے نکال دیتا یا قتل کر دیتا تھا۔
مصری تہذیب میں عورت کا یہ مقام تھا کہ دریائے نیل کے خشک ہوجانے پر اسکو دوبارہ جاری کرنے کے لئے ماں باپ کی اکلوتی لڑکیوں کو زیورات اور زیب و زینت سے آراستہ کرکے دریا میں قربان کر دیا جاتا تھا۔
ایرانی تہذیب میں عورت ایک لونڈی کا درجہ رکھتی تھی۔ اسکی خرید و فروخت کو قانونی حیثیت حاصل تھی۔ چین میں بھی عورت کو لونڈی بنا کر رکھا جاتا تھا۔ عرب میں کیا حال تھا؟ وہاں بچیوں کی پیدائش کو نحوست اور رسوائی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ وہ اسکو اپنی غیرت کے خلاف سمجھتے تھے کہ کوئی مرد ان کا داماد بنے۔ لڑکیوں کو زندہ درگور کردیئے جانے کے دردناک واقعات سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ قیس بن عاصم کے تعلق سے ذکر کیا جاتا ہے کہ اس نے زمانہ جاہلیت میں اپنی ٨ ،١٠ بچیاں زندہ دفن کردی تھیں
ہندوستانی تہذیب میں عورت کوبدروح اورپاپ کی کال کوٹھری تصّور کیا جاتا تھا۔ نکاح کی جگہ کنیا دان کی رسم تھی۔ جسکے مطابق عورت اپنی مرضی کے بغیر ایک مرد کے حوالے کردی جاتی تھی اور پھر وہ اس مرد کی ملکیت سے زندگی کے آخری سانس تک کسی بھی حال میں نہیں نکل سکتی تھی۔ مرد آج بھی عورت کے لئے پتی دیو یعنی مالک ومعبود کا درجہ رکھتا ہے۔ عورت کو جائداد اور وراثت میں کوئی حق نہیں۔ ایک مدت تک یہاں ’ستی‘ کی رسم عام رہی۔
یہودی تہذیب میں شادی کے بعد عورت اپنے خاوند کی زر خرید لونڈی بن جاتی ہے اور اسکا شوہر اسکو فروخت کرنے کا حق بھی رکھتا ہے۔عیسائی تہذیب میں مسیحی علماء نے رہبانیت کا تصّور پیدا کرکے عورت کو تمام تر’برائیوں کا سر چشمہ‘ قرار دینا شروع کردیا۔
یہ تھے وہ تمام نظریات و عقائد جن میں عورت کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں تھی۔ اسکے برعکس اسلام نے عورت کو ایک مقام و مرتبہ دیا۔ اسلام نے جہاں عورت کو شرف اور کرامت سے نوازا ہے، وہیں اسے اپنی ذات میں ایک حیثیت بھی دی ہے جسکا مطلب وہ اپنے شوہر، باپ، بھائی کی ذات کا ہی صرف حصّہ نہیں بلکہ اپنے حقوق، اختیارات اور ذمہ داریوں میں ایک الگ شخصیت ہے۔ عہدنبوی میں ایسی بہت سی مثالیں ہمیں ملےگی جہاں خواتین نے صرف اپنی ذاتی خوبیوں اور ذاتی عظیم کارناموں کی بنیاد پر شہرت حاصل کی۔
الله تعالی قرآن میں فرماتا ہے کہ، ’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق کار ہیں۔ وہ آپس میں نیک باتوں کا حکم دیتےہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔‘ (توبہ:١٧) ۔اس آیت کی رو سے عورت مرد ہی کی طرح دانشمند اور صاحب عقل انسان ہے۔ اسلام نے عورت کو ظلم کے گرداب سے نکالا، اسکے ساتھ انصاف کیا، اسے انسانی حقوق دیے، عزت اور سر بلندی بخشی اور معاشرے کو اسکا احترام سکھایا۔ اسلام اس جذبے کو ابھارتا ہے وہ اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ عورت کے قانونی حقوق ہی ادا نہ کئے جائیں بلکہ اسکے ساتھ ہمدردی کا رویہ اختیار کیا جائے۔ وہ حسن سلوک کی مستحق ہے لہٰذا اسکے ساتھ حسن سلوک ہونا ہی چاہیے۔
موجودہ دور نے بڑی مشکل سے بڑے احتجاج کے بعد عورت کے بعض بنیادی حقوق تسلیم کیے ہیں۔ یہ احسان عورت پر اسلام کا ہے۔ اسلام نے ہی عورت کو وہ حقوق دیے جن سے وہ عرصہ دراز سے محروم چلی آ رہی تھی۔ اور یہ سارے حقوق اسلام نے اسلئے نہیں دیے کیونکہ عورت ان کا مطالبہ کر رہی تھی، بلکہ اسلئے دئیے کہ یہ عورت کے فطری حقوق تھے، اسے ملنے ہی چاہیے تھے مثلا ’زندہ رہنے کا حق ، پرورش کا حق، تعلیم کا حق، نکاح کا حق، مہر کا حق، مال و جائیداد کا حق، نان و نفقہ کا حق، کاروبار اور عمل کی آزادی کا حق” غرض یہ تمام حقوق شرعی حدود میں رہ کر عورت حاصل کر سکتی ہے۔
ہم آج جس دور میں جی رہے ہیں وہاں عورت کا مقام و مرتبہ کیا وہی ہے جو اسلام نے اسکے لئے تجویز کیا ہے؟ یا پھر وہ ان حقوق کا فائدہ اٹھا کر شرعی حدود سے نکل گئی ہے؟ جی ہاں !اسلامی تعلیمات کے فقدان کی وجہ سے یا یوں کہئے دین کا صحیح فہم اور شعور نہ ہونے کی وجہ سے آج عورت گمراہی کی طرف جا رہی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ “اسلام سے پہلے عورت کی جو حالت تھی، اسلام نے ضرور اسکی اصلاح کی اور اسے وہ حقوق بھی دیے جن سے وہ پہلے محروم تھی۔ لیکن عورت کے ساتھ پورا انصاف نہیں کیا، اسلام نے مرد اور عورت کو ایک حیثیت نہیں دی اور ان میں پوری طرح مساوات نہیں قائم کی۔”
یہ صرف اسلامی تعلیمات کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش ہے کہ اسلام نے عورت پر ظلم کیا، عورت کو چار دیواری میں قید کیا، پردے کی بندش میں رکھا۔ یہ اعتراضات نئے بالکل نہیں ہیں۔ یہ سارے اعتراضات وہ لوگ کرتے ہیں جنکے ذہنوں پر مغربی تہذیب کا اثر ہو چکا ہو اور انکے اعتراضات سے بہت سے اسلام کا نام لینے والے بھی متاثر اور مرعوب ہو رہے ہیں۔ انھیں اسلام کی تعلیمات میں بڑی خامیاں نظر آتی ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آج کے دور میں عورت اسلام کے ’حصار‘ میں رہ کر ترقی نہیں کر سکتی۔ یہ ان کی غلط سوچ ہے۔ اسلامی قانون کسی انسان کا بنایا ہوا نہیں بلکہ الله تعالی کا نازل کردہ ہے اسلئے اس میں کسی بھی فرد کو ترمیم و تبدیلی کا حق نہیں ہے۔ آج عورت کا اپمان یا ہم جسے استحصال بھی کہیں گے، کن کن صورتوں میں ہو رہا ہے۔ کہیں وہ پردہ سیمیں پر عریانی کا پیکر بنی ہوئی ہے، کہیں پوسٹروں کی شکل میں، اشتہارات میں چیزیں فروخت کرنے کا ذریعہ بنی ہے، بازاروں کی رونق کہلاتی ہے، مردوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنی ہے۔ وہ جس طرح چاہ رہا ہے اسکا استحصال کئے جا رہا ہے۔ تو پھر قدیم دور جاہلیت میں اور آج کے دور میں کیا فرق رہ گیا؟ اسلام کی تعلیمات کو فراموش کرکے عورت اپنا مقام اور مرتبہ کھوتی جا رہی ہے۔ اسکی اصل بقا دین پر قائم رہنے میں ہے۔ اسلئے بہت ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات کو، جن میں عورتوں کو تحفظ اور اکرام دیا گیا، ان پر عمل کیا جائے انہیں لوگوں تک پہنچایاجائے اور معاشرے میں عام کیا جائے۔ عورت اپنے اصل مقام کو پہچانے۔آزادئ نسواں کا نعرہ لگا کر تنزلی کا شکار نہ ہو بلکہ اللہ تعالی نے اس کے قدموں تلے جو جنت رکھی ہے اس کا حق صحیح معنوں میں ادا کرے اسی میں اس کی فلاح ہے۔
افق پر تو سورج کی مانند ابھر کر
اندھیروں میں طلانیوں کی سحر کر
بہت دور جانا ہے تم کو، نہ رکنا
تو دریا کی مانند زمین میں سفر کر
تمہاری ضرورت ہے انسانیت کو
ہواؤں کی صورت فضا میں بکھر کر
سجا دے تو انسانیت کا یہ گلشن
چمن میں تو پھولوں کی مانند بکھر کر