اسلام اور ماحولیات

0

شہاب الدین فلاحی

متعلم:۔ جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔

بیسویں صدی کے صنعتی انقلاب میں انسان نے زندگی کے اسباب و وسائل میں وسعت و فراوانی پیدا کی، نئی نئی ٹیکنالوجی استعمال کرکے مختلف قسم کی مشینیں بنائیں۔

انسان نے زندگی کے وسائل کا اتنا بے دریغ استعمال کیا کہ کارخانۂ قدرت نے نباتات و حیوانات اور بنیادی عناصر کے بیچ جو توازن قائم کیا تھا اس سے چھیڑ چھاڑ کر بیٹھا جس کے نتیجے میں فضا، پانی اور ماحول میں آلودگی پیدا ہو گئی اور اس آلودگی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں وجود میں آئیں جن سے نہ صرف فطرت کا نقصان ہوا، جانوروں کی زندگی اور نسلیں بھی تباہ ہوئیں جس کی وجہ سے آج کارخانۂ قدرت کی پیداوار کے تحفظ و بقا کا سنگین مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔

اس لیے سنہ 1974ء سے 5 جون کو عالمی یومِ ماحولیات منایا جانے لگا، اس دن صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے. شجرکاری کی جاتی ہے، پیڑ پودے لگائے جاتے ہیں، تاکہ نظام قدرت بحال ہو، ماحول کی آلودگی کم ہو۔

 لیکن اسلام نے انسان کو صدیوں پہلے ہی ان حالات کے بارے میں آگاہ کیا تھا اور ان کے تدارک کے اسباب بھی بتائے تھے، جس پہ انسان اگر اعتدال سے گامزن رہتا تو آج ہمیں ماحول کی آلودگی کے یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے۔

اللہ تعالی نے انسان کو زمین پہ اپنا نائب و خلیفہ مقرر کرکے سیاہ و سپید کا مالک کرکے یوں ہی بیکار نہیں چھوڑ دیا بلکہ قرآن مجید کی تقریباً سات سو آیات میں فطرت و قدرت کی نعمتوں کا، ان کی اہمیت و افادیت کا، ان کے تحفظ و بقا کا ذکر فرمایا، خاص طور سے زمین، پانی اور ہوا کی اہمیت کو متعدد مقامات پر الگ الگ اسلوب میں بیان کیا ہے۔

فضا، پانی اور ماحول کی آلودگی کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث میں ہمیں چودہ صدیوں سے اس مسئلے کی طرف ہمیں توجہ دلائی گئی، فضائی آلودگی دور کرنے کے لیے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے شجر کاری کرنے کی طرف خوب رغبت دلائی ہے ، شجرکاری کو اسلام میں ایک نوع کے صدقے کی حیثیت حاصل ہے، رسولِ کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی باڑی کرے پھر اس سےانسان پرندے اور چوپائے کھاتے ہیں تو اسے صدقے کا ثواب ملتا ہے (بخاری شریف)

دوسری طرف اسلام میں بے ضرورت درخت کاٹنے سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے حتی کہ حالتِ جنگ میں بھی بے ضرورت پھل دار درخت کاٹنے کی اجازت نہیں اور بلا وجہ درخت کاٹنا اور بے ضرورت پھل دار درخت پر پتھر چلانا اسلام میں بہت ناپسندیدہ عمل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے بیری کا درخت کاٹا اس نے اپنا سر آگ میں دے دیا۔ ( ابو داود)۔

اس حدیث میں اگرچہ بیری کے درخت کی بات کہی گئی ہے مگر یہ حکم عام ہے اور دوسرے درختوں کے لئے بھی ہے۔

ایک دوسری حدیث حضرت جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’

جومسلمان بھی پودا لگائے گا، اور اس سے کچھ کھالیاجائے گا، وہ اس کے لئے صدقہ ہوجائے گا اور جو چوری کرلیاجائے، وہ قیامت تک کے لئے اس کے لئے صدقہ ہوجائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۵۵۱)

ایک تیسری حدیث میںہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخض پودا لگائے گا، اس کے لئے اس پودے سے نکلنے والے پھل کے بقدر ثواب لکھاجائے گا۔‘‘(مسند احمد، حدیث نمبر۰۲۵۳۲)

بہر حال

اسلام نے جہاں ایک طرف درخت لگانے کا حکم دیا ہے وہیں دوسری طرف سبز درختوں کو کاٹنے کی سختی کے ساتھ ممانعت بھی کی ہے۔ یہاں تک کہ اس بات کی بھی اجازت نہیں کہ حالت جنگ میں دشمنوں کے کھیتوں کو برباد کیا جائے اور ہرے بھرے درختوں کو کاٹا جائے۔

قارئین کرام ؛ آج کل لوگ صرف اور صرف ماحولیات درختوں کے اوپر مناتے ہیں لیکن ماحولیات میں درختوں کے ساتھ ساتھ پانی میں بھی  ماحولیات ضروری ہے تاکہ ہم اپنے زندگی کو بآسانی گزار سکیں۔اس بارے میں  سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہیکہ

’’تین لعنت کا سبب بننے والی جگہوں سے بچو (۱) پانی کے گھاٹ پر پاخانہ کرنے سے (۲) راستہ میں پاخانہ کرنے سے (۳) سایہ دارجگہوں میں پاخانہ کرنے سے۔‘‘ (سنن ابی دائود حدیث نمبر ۶۲)

پانی قدرت کا وہ حسین تحفہ ہے جو نہ صرف فقط انسانوں کے لیے مخصوص ہے بلکہ نباتات،جمادات اورحیوانات کی بقا کے لیے بھی پانی ایک لازمی چیز ہے۔پانی کے بغیر دنیا کی  خوبصورتی اور رنگینی کا تصورکیا نہیں جاسکتاہے اور نہ ہی انسانی وجود کا۔ پانی زندگی کا ضامن ہے۔ زندگی پنپنے کے لیے جتنا ضروری پانی ہے، اتنی ضروری اور کوئی شے نہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہم اس وسیلے کی اہمیت کا اندازہ کرنے کے بجائے اسے ایسے بے دردی سے خرچ کرتے ہیں جیسے یہ ہمیں وافر مقدار میں میسر ہے۔

پانی کی اہمیت کا وہاں اندازہ ہوتا ہے جہاں پانی قطرہ قطرہ کرکے جمع ہوتا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔ اس طرح جہاں پانی کی کمی ہے وہاں کے لوگ بہتر جانتے ہیں کہ پانی کے بغیر کیا مشکلات پیش آتی ہیں۔ انسانی جسم کا دوتہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے اور پانی اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک ہے اور یہ حقیقت ہے کہ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا پانی کو ضائع مت کریں۔ اس کی حفاظت کریں۔ یہ آپ کی حفاظت کرےگی ۔حدیث پاک ہے وضو کرتے وقت کم سے کم پانی استعمال کریں، خواہ آپ ندی کنارے کیوں نہ بیٹھے ہوں! یاد رکھیں خالق نے ہر چیز پانی سے پیدا کی ہے، پانی حیات کا دوسرا نام ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS