ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی
استاددارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
اسلام بلا شبہ، جسم اور روح کے درمیان توازن کا مذہب ہے۔ یہ انسانی زندگی کے ہر مسئلے کو حل کرتا ہے اور ایک ایسی راہ کی طرف لے جاتا ہے جس سے انسان امن اور بھائی چارے کے ساتھ رہ سکے۔ یہ کہنے کہ ضرورت نہیں کہ اسلام نے انسانی حقوق کو متعارف کرایا اور اس کی اہمیت پر زور دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ اسلام میں انسانی حقوق کا پہلا چارٹر ہے۔ خیال رہے کہ انسانی حقوق کی اصطلاحیں ایک عرصے سے اجنبی تھیں۔1789ء کے فرانسیسی انقلاب اور1775ء کے امریکی انقلاب کے بعد انسانی حقوق کے تصور کو فروغ ملا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی اقوام متحدہ (UNO) نے انسانی حقوق کمیشن قائم کیا ہے۔ سوامی وویکانند کہتے ہیںکہ میرا تجربہ یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی مذہب اس برابری(مساوات پسندی )تک قابل ستائش انداز میں پہنچا ہے، تو وہ اسلام اور صرف اسلام ہے، اس لیے میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ عملی اسلام کی مدد کے بغیر، سبزی خوری کے نظریات، چاہے وہ کتنے ہی عمدہ اور شاندار کیوں نہ ہوں، بنی نوع انسان کیلئے مکمل طور پر بے وقعت ہیں‘‘۔(Letters of Swami Vivekananda, P. 463)اسی طرح کے خیالات جی بی شاہ کے بھی ہیں، وہ کہتے ہیںکہ میں نے ہمیشہ ہی دین محمدیؐ کو اس کی حیرت انگیز اہمیت کی وجہ سے اعلیٰ درجہ دیا ہے۔ یہ واحد مذہب ہے جو مجھے لگتاہے کہ وہ موجودہ تغیرپذیر مرحلے کے ساتھ ہم آہنگی کی صلاحیت رکھتا ہے جو خود کو ہردور کیلئے سازگاربناسکتاہے۔میں نے انہیںپڑھا ہے،وہ ایک حیرت انگیز آدمی ہیںاور میرے خیال میں عیسائی مخالف ہونے سے کوسوں دورہیں، انہیں انسانیت کا نجات دہندہ کہناچاہئے۔ میرا اعتقاد ہے کہ اگر ان جیسا شخص جدیددنیا کی آمریت کی لگام اپنے ہاتھ میں لے لے، تو و ہ اس کی مشکلات حل کرنے میںاس طورپر کامیاب ہوجائے گا کہ وہ امن اورخوشحالی آجائے گی جس کا ایک عرصے سے انتظار ہے۔ میں نے دین محمدیؐ کے بارے میں پیشین گوئی کی ہے کہ یہ کل کے یوروپ کے لئے اتنا ہی قابل قبول ہوگا جتنا کہ یہ آج کے یوروپ کے لئے مقبول ہونا شروع ہوگیاہے‘‘۔(G.B. Shah, The Genuine Islam, Singapore, Vol. 1, No. 8, 1936) مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کہتے ہیںکہ ’’سماجی طور پر، انسانی مساوات اور بھائی چارے کے اسلامی تصور کے ذریعے سب سے زیادہ عہد ساز تبدیلی لائی گئی۔معاشرے کومستقل طبقات میں تقسیم نہیں کیا گیا تھا اور مسلمانوں میں اچھوت جیسی کوئی برادری نہیں تھی۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ دنیا میں کوئی بھی ناپاک پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی یہ کسی خاص طبقے میں اس کی پیدائش کی وجہ سے اسے جاہل تسلیم کرلیاجائے اورحصول علم سے اسے روک دیاجائے۔ تجارت یا پیشہ انسانیت کے کسی خاص طبقے کیلئے مخصوص نہیں تھا۔ دوسری طرف وہ آزادانہ طور پرہرسطح پر ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ معاملہ رکھتے تھے۔امیر علم کے حصول میں غریبوں کے ساتھ جدوجہد کرتے تھے اور سب کے لیے پیشہ کی آزادی تھی۔ بھائی چارے کا نظریہ ہندوستانی ذہن اور ہندوستانی سماج کے لیے ایک نیا تجربہ تھا اور نئی سوچ کی دعوت تھی جس نے ملک کیلئے بہت اچھا کام کیا۔ اس وقت کے موجودہ طبقاتی دباؤ والے معاشرے کے بندھنوں میں کافی حد تک نرمی پیدا ہوئی اور اس طرح ذات پات کے نظام کی ضرورت سے زیادہ سختی سے بڑے پیمانے پر پسپائی دیکھنے کو ملی۔ اسلام کی آمد نے دوسرے شعبوں میں بھی سماجی اصلاح کرنے والوں کیلئے ایک چیلنج کا کام کیا۔
معروف ہندوستانی مجاہد آزادی اور شاعرہ محترمہ سروجنی نائیڈو نے بالکل درست کہا ہے:’’یہ پہلا مذہب تھا جس نے جمہوریت کی تبلیغ کی اور اس پر عمل کیا۔ کیونکہ مسجد میں جب مینار سے اذان ہوتی ہے اور نمازی اکٹھے ہوتے ہیں، تواسلام کی جمہوریت دن میں پانچ بار مجسم ہوتی ہے جب کسان اوربادشاہ شانہ بشانہ گھٹنے ٹیکتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ’اللہ ہی سب سے بڑا ہے ‘۔ مجھے اسلام کے اس ناقابل تقسیم اتحاد نے بار بار متاثر کیا ہے جوالگ الگ انسان کو بھائی بنا دیتا ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ لندن میں نماز پڑھنے والا ایک مصری، ایک الجزائری، ایک ہندوستانی اور ایک ترک ہے لیکن وہ ایک دوسرے سے ایسے مل کر نماز پڑھتے ہیں جیسے ان میں کوئی فرق نہیں ہے جب کہ مصر ایک کا مادر وطن ہے اور ہندوستان دوسرے کا مادر وطن‘‘۔(The Ideals of Islam in Speeches and Writings of Sarojini Naidu, Madras, 1918, P. 169)
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسلام تمام انسانوں کو یکساں طور پردیکھتا ہے۔ اس کا اہم کردار یہ ہے کہ دنیا میں امن اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے کیلئے مساوات اور انصاف کا بول بالاہو۔ قرآن پاک کہتا ہے:’’بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو دہرایا تاکہ لوگ صحیح اندازہ لگائیں، اور لوہا نازل کیا، جس میں بہت بڑی طاقت ہے اور بہت سے انسانوں کیلئے استعمال کی چیزہے‘‘۔(57: 25)اگر ہم اسلام کا مطالعہ کریں اور انسانیت کیلئے اس کی خدمات پر غور کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسلام کے بارے میں موجودہ بدگمانیاں بے بنیاد ہیں۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا:’’اے محمد! لوگوں سے کہو کہ تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا۔ (6109)یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی یہودیوں یا عیسائیوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ قرآن پاک اس بات کی سختی سے تاکید کرتا ہے کہ ’’ایمان کے معاملے میں کوئی جبر نہیں کیا جائے گا‘‘۔ (2: 256)۔ سب سے مناسب یہ ہوگا کہ اسلام پر کوئی الزام لگانے سے پہلے اسے جان لیا جائے۔ یہ وقت ہے کہ ذات پات، رنگ و نسل اور علاقے سے بالاتر ہو کر بھائی چارے اور اخوت کو فروغ دیاجائے اور پوری دنیا میں امن اور بھائی چارے کی فضا ہموار کی جائے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1948ء میں 10دسمبر کو انسانی حقوق کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔اس لیے یہ دن پوری دنیا میں 10دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اسمبلی کا اعلان یوں تھا کہ:’’تمام لوگوں اور تمام اقوام کے لیے کامیابی کا مشترکہ معیارقرار دیاجائے‘‘۔ اس میں سماجی امتیاز کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ “نسل، رنگ یا نسلی بنیاد پر مبنی کوئی بھی امتیاز جس کا مقصد یا اثر ،کسی کے اعتراف یاعمل کا ، مساوی بنیادوں پر، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو سیاسی، معاشی، سماجی، ثقافتی یا عوامی زندگی کے دیگر شعبوں میں چھیننا یا مستردکرنا‘‘۔
نسل پرستی اور نسلی امتیاز، نسل پرستانہ پالیسیوں اور نسل پرست حکومتوں کے خاتمے میں اقوام متحدہ کی کامیابیوں اور شراکتوں کی کوئی بھی مخالفت نہیں کرسکتاہے۔ ہم جنوبی افریقہ میں حکمران طبقے کے گوروں کی طرف سے کیے گئے مظالم اور جبر کو یاد کر سکتے ہیں۔ لیکن یو این او کے دباؤ پر حکمران جماعت کو نسل پرستی یا نسلی امتیاز کی عمر بھر کی پالیسی ترک کرنی پڑی۔ نتیجتاً افریقی عوام کے مقبول ترین رہنما نیلسن منڈیلا کو فروری1990ء میں جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔ اس موقع پر راقم یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ دنیا اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس آخری خطبہ یعنی جس کو حقوق انسانی کا فرسٹ چارٹر کہا جاتا ہے اس پر عمل کرتی تو نیلس منڈیلا جیسی عظیم شخصیت کو تقریبا27 سالوں تک جیل کی سلاخوں میں رہنا نہیں پڑتا ۔ بعد ازاں جنوبی افریقہ کی حکومت کو 27 اپریل1994ء کو جنوبی افریقہ میں پہلے کثیر نسلی انتخابات کرانا پڑے۔ جس میں افریقین نیشنل کانگریس (ANC) نے 400 میں سے252نشستیں حاصل کیں اور نئی حکومت کے پہلے صدر نیلسن منڈیلا کی قیادت میں جنوبی افریقہ میں پہلی جمہوری حکومت قائم ہوئی۔ اس طرح جنوبی افریقہ میں سامراج کا خاتمہ ہوا اور اسی طرح نسل پرستی بھی ہوئی۔ لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ U.N.O کی خدمات ایک طرفہ ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے لے کر اب تک امریکہ نے ویتنام سے لے کر یوگوسلاویہ سے لے کر نیارگنا تک21ممالک پر حملہ کیا ہے جس میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گئے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم اور اسرائیل کے قیام کے بعد خلیجی ممالک کو1956ء ،1957ء اور1973ء تین جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔
آج شام اور فلسطین سمیت عالم اسلام ایک آزمائش سے گزر رہا ہے۔ عالم اسلام کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم اور جبر کے خلاف کوئی ملک آواز نہیں اٹھاتا۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ تمام تر مظالم کے باوجود اسرائیل کو امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ یو این او فلسطین سمیت عالم اسلام کے مسائل کو دوستانہ اور خوش اسلوبی سے حل کرے تبھی “انسانی حقوق کا دن” منانا بامعنی اور مناسب ہوگا۔