زین شمسی
سب اپنے اپنے خدائوں پر ناز کرتے رہے ہیں، کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے، مگرکیا ان کے خدا اپنے اپنے پیروکاروں پر کبھی ناز کر پائیں گے۔ سب اپنے اپنے معبودوں کو عظیم سمجھتے رہے ہیں۔مذاہب نے انسان کو انسان بنانے کی کوشش کی تھی، اس کی کوشش کچھ یوں ناکام ہوئی کہ انسانوں نے مذہبی اصولوں کو چھوڑ کر اپنے اپنے قوانین بنانے شروع کر دیے۔ اگر خدائوں کے قانون درست تھے اور اس کے ماننے والوں کا ان پر اعتقاد و اعتماد تھا تو پھر دنیاوی قانون کی ضرورت کیوں پڑی؟ شاید اسی لیے کہ
ہم اس قبیلہ وحشی کے دیوتا کہ جو
پجاریوں کی عقیدت پہ پھول جاتے ہیں
اور ایک رات کے معبود صبح ہوتے ہی
وفا پرست صلیبوں پہ جھول جاتے ہیں
دراصل جب علوم محدود تھے، تب ساری اچھائیاں مذہبی صحیفہ کا نام لے کر انسانوں کو یہ نہ کرو، وہ نہ کرو کا درس دیتی رہیں۔جب انسانوں نے جینا، پڑھنا اور سوچنا شروع کر دیا تب اس نے مذہبی اصولوں و قوانین پر نظرثانی کی اور اپنی سہولتوں کے حساب سے اپنے فلسفے لکھے۔ سماجی ضروریات کے مدنظر اصول مرتب کیے اور دنیا میں کروڑوں لوگوں کے ساتھ جینے اور رہنے کے نئے اصول وضع کیے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے عقیدے کو بھی ڈھونڈتے رہے تاکہ ان کی شناخت قائم رہے۔ دور حاضر میں ہر جگہ یہی دیکھنے کو آتا ہے جب اپنی ساری خامیاں اجاگر ہوجاتی ہیں تو مذاہب کا استعمال کر کے خود کو درست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
خواہ وہ بتوں میں نظر آنے والا خدا ہو یا پھر نہ نظر آنے والاخدا، کسی کے پیروکاروں نے ایک دوسروں کے خدائوں پر یقین نہیں کیا یا پھر اس قضیہ کو حل کرنے کے لیے کسی کا خدا سامنے نہیں آیا۔ کسی نے لکھا ہے کہ
نہیں بے مدعا تخلیق انساں
سمجھ میں مدعا، لیکن نہیں آیا
خدا خالق سہی، مخلوق کے پاس
رسول آئے، خدا اب تک نہیں آیا
خدا کو آنے کی ضرورت بھی نہیں ہے، کیونکہ وہ جہاں ہے وہیں سے سب کچھ کنٹرول کر سکتا ہے، وہ تو بس یہ دیکھتا ہے کہ اس کے تخلیق کردہ بندے ان کے احکام بجا لاتے ہیں یا نہیں۔ ظاہر ہے جب دنیا میں خدائوں کی تعداد بڑھتی جائے گی، اس کے پیروکاروں میں نفرت پیدا ہوتی جائے گی۔دنیا کے تمام مذاہب نے امن و آشتی کا پیغام دیا، لیکن دنیا میں جتنی جنگیں ہوئی ہیں، وہ اپنے خدائوں کی برتری ثابت کرنے کے لیے ہی ہوئیں۔ اس چیز کو سمجھنے والے کچھ ہی لوگ ہوئے، جنہیں مذاہب کے ٹھیکہ داروں نے لامذہب قرار دے دیا،کبیر کہتے ہیں کہ
پاہن پوجے ہری ملے تو میں پوجوں پہاڑ یا پھر یہ کہ
مالا پھیرت جگ بھیا، پھرا نہ من کا پھیر
مالا کا منکا چھوڑ دے، من کا منکا پھیر
کبیر داس آگے بھی کہتے ہیں کہ
مو کو کہاں ڈھونڈے بندے میں تو تیرے پاس میں
نا میں دیول،نا میں مسجد، نہ کعبے کیلاس میں
میر کہتے ہیں:
میر کے دین و دھرم کو کیا پوچھو ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
غالب کہتے ہیں:
نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ میخانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انسان نہ جانے کہاں جاتے
اقبال کہتے ہیں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
دراصل کبیر کا منکا اور اقبال کی خودی یہی تو سمجھا رہی ہے کہ خدائوں کو برتری ثابت کرنے کے لیے خود کو برتر اور عظیم بنانا ہوتا ہے۔ جب انسان خود ہی انسان نہ بن پائے، وہ خدائوں کا کیا پاس رکھ سکتا ہے؟ جب تک انسان یہ سمجھ پائے کہ انسان کی سہولت کے لیے ہوئی ایجادیں انہیں آسانیاں تودے سکتی ہیں، مگر سکون کے لیے انہیں اپنے اپنے خدائوں کے ہی پاس جانا ہے تب تک خدائوں کی لڑائی جاری رہے گی۔
دھرم و مذہب کا سہارا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے نہیں بلکہ تمام مخلوق کو اونچا کرنے کے لیے کیا جانا چاہیے۔ بین مذاہب اجلاس میں ارشد مدنی نے درست کہا جسے جین منی سمجھ ہی نہیں پائے اور جس طرح ان کا ردعمل تھا اس سے یہ سمجھنے میں دیر نہیں ہوئی کہ یہ پہلے سے ہی ایسا کچھ منصوبہ بن چکا تھا۔ سوال آدم اور منو کا نہیں، سوال اللہ اور اوم کا بھی نہیں، سوال ان کے پیروکاروں کا ہے کہ خدا نے انہیں جھگڑے ختم کرنے کے لیے بھیجا ہے مگر وہ خدائوں کے لیے جھگڑا کر رہے ہیں۔ کوئی بھی مذہب اپنی اصلی شناخت کھوتا جائے گا، مذہبی طور پر نہیں بھی تو کم از کم سماجی اور تہذیبی طور پر۔ سیتا رام کا نعرہ جے شری رام میں بدل گیا، اسلام کا اتحاد مسلکی انتشار میں تبدیل ہو گیا۔ بدھ کی اہنسا ظلم کا روپ لے گئی۔ عیسائیوں نے انسانی حفاظت کے لیے کروسیڈ کا استعمال کیا۔ کیا یہ سب مذہبوں کے اصول تھے، قطعی نہیں تھے، مگر بدل گئے۔
آج ہم اوم اور اللہ کو ایک سمجھانے میں لگے ہیں، آج ہم عصری تعلیمات کو ناگزیر کہنے پر تیار ہوئے ہیں، آج سعودی عرب کی خواتین کوڈرائیونگ کی اجازت مل رہی ہے۔ آج ہمیں بینکنگ کے سودی نظام سے پریشانیاں نہیں ہو رہی ہیں۔ آج ہم اہل وطن کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں، ان کے رسوم و رواج کو اپنا رہے ہیں تو کیا یہ غیر اسلامی ہے اور اگر نہیں تو اب تک اسے کیوں بڑھاوا نہیں دیا گیا۔ کاش دشمنان اسلام کی دہائی دینے والے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ سکتے تھے کہ اس نے خدا کا بھرم رکھنے کے لیے اپنے آپ کو کتنا تیار کیا ہے۔ اقبال نے صاف طور پر کہا تھا کہ
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہ بنتا نہ بن اپنا تو بن
ہر انسان اگر اپنا بن جائے تو خدائوں کے جھگڑے یوں ہی ختم ہو جائیں گے۔ اس کے لیے بھگتی کی ضرورت ہے، دنیا کے لیے اپنے دل کو کھول دینے کی ضرورت ہے اور اسی لیے جب سوامی لکشما آچاریہ نے رگھوپتی راگھو راجا رام لکھا تو اس میں خدائوں کو ایک کرنے کے لیے ایک مصرعہ تبدیل کیا گیا، جسے گاندھی نے اپنی زندگی کا نغمہ بنا لیا تھا اور وہ مصرعہ تھا
ایشور اللہ تیرو نام، سب کو سمّتی دے بھگوان
مگر یہی ایشور اور اللہ کا ساتھ جین منی کو برداشت نہیں ہوسکا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]