ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
گزرے ہوئے سال کا جنوری اور فروری بھی احتجاج کی نذر ہو گیا تھا ،جو احتجاج دسمبر 2019 میں شروع ہوا تھا وہ مارچ میں کووڈ کی مہربانی سے ختم ہوا ، اگرچہ اسے ختم کرنے کے لیے منصوبہ بند فساد برپا کیا گیا، مکان توڑے گئے، املاک تباہ کی گئیں، دکانیں لوٹی گئیں اور انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا، پوری کارروائی پولیس کی نگرانی میں ہوئی پھر بھی مقدمات مظلومین پر ہی قائم ہوئے جبکہ مجرم آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں، اس کے باوجود خاص بات یہ تھی کہ وہ احتجاج ختم نہ ہو سکا تھا بالآخر اسے وبائے عام نے ختم کیا جس سے کہیں نہ کہیں حکومت نے بھی چین کی سانس لی اور احتجاجیوں کو بھی راحت ملی۔
وہی سرکار ہے اور اس سال بھی وہی موسم ہے، دسمبر2020 میں احتجاج شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے، بس فرق یہ ہے کہ اس بار احتجاج میں مسلمان پیش پیش تھے اس بار ملک کا ہر طبقہ اورہر قوم شریک ہے، یہ الگ بات ہے کہ پنجاب کے سکھ آگے ہیں، اس احتجاج میں قیادت کا فقدان تھا،کیوں تھا اس پر پھر کبھی بات ہو گی، لیکن کسانوں کے احتجاج میں قیادت ہی اصل کردار ادا کر رہی ہے، اسی متحدہ قیادت اور منصوبہ بند احتجاج کا نتیجہ ہے کہ حکومت نے کسانوں سے بات کرنا گوارا کیا۔
یہ قیادت کی حکمت عملی تھی کہ حکومت نے ابتدا میں ہی پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی، مگر کسانوں نے کامیاب نہ ہونے دیا، جب تک احتجاج میں شامل سبھی تنظیموں کے لیڈروں کو بات چیت کے لیے نہیں بلایا گیا تب تک بات چیت پر راضی نہ ہوئے ، بالآخر 11 دورکی بات چیت کرکے حکومت اس پر آگئی کہ ڈیڑھ سال کے لیے ہم ان قوانین کو مؤخر کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر سڑک پر اترنے والے اس قدرسنجیدہ ماحول میں ایسا مذاق کیوں قبول کرتے! بالآخر حکومت نے اس بار بھی اس آندولن کو کچلنے کا ویسے ہی جال بُنا جیسے گزشتہ سال ہم دیکھ چکے ہیں۔ تفصیلات سے قطع نظر 27جنوری کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ آندولن بہت کمزور ہو گیا ہے اور28کی شام کو تو یوں محسوس ہونے لگا کہ اب چند لمحوں میں اس آندولن کو اکھاڑ پھینکا جائے گا، ویسے بھی جمہوریت سے جس قدر گزشتہ 6سالوں میں مذاق ہوا ہے شاید ہی کبھی کیا گیاہو، اور جمہوریت کا مذاق بنانے میں جمہوریت کے چوتھے ستون یعنی میڈیا نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس پورے عرصے میں میڈیانے آندولن کو اتنا کوریج نہیں دیا جتنا 26اور28 کو دیا، 26 کو بھی کسانوں کی پُرامن ریلی نہیں دکھائی جب کہ پہلے سے ہی یہ آئی ٹی او اور لال قلعہ کے مناظردکھانے کے لیے وہاں موجود رہا جو اپنے آپ میں ایک بڑا سوال ہے، خیر کبھی کبھی شر سے ہی خیرکا کوئی پہلو پیدا ہوجاتا ہے،28کی شام کو جب بعض میڈیا کسانوں کی پٹائی اور ان کا آندولن ختم کرنے کے مناظر دکھانے کو بے چین تھا تبھی ایک کسان نیتا رو پڑے۔ انہوں نے روتے ہوئے یہ بھی پردہ اٹھا دیا کہ جس کا انہوں نے ساتھ دیا تھا، جس کے لیے انھوں نے سب کچھ کیا تھا آج اسی کے لوگ انہیں بے دردی سے پیٹنے اور گھسیٹ کر اٹھانے آئے تھے، اس بے وفائی پر آنسو چھلکنا فطری بات ہے، انہوں نے یہ پیغام بھی دیا کہ اس بر سرِاقتدار پارٹی کے لوگ کسی کے وفادار نہیں۔
سوچئے ذرا گزشتہ 14مہینوں سے پورا ملک سراپا احتجاج ہے، ہر طرف بے روزگاری ہی بے روزگاری ہے، تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں، کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں، ایک ایسے ملک میںاور ایسے وقت میں یہ احتجاج ہو رہے ہیں جبکہ ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، 560 بلین ڈالر کا مقروض ہے، 20بلین ڈالر صرف 2020 میں حکومت نے لیا ہے، پانچ بلین ڈالر ایسی وبا میں دیے گئے ہیں،طُرفہ یہ ہے کہ پھر بھی 20ہزار کروڑ کے صرفہ سے نئی سنسد تعمیر ہو رہی ہے جسے ایک تاریخی کار نامہ بتایا جارہا ہے۔
بہرحال کسان لیڈر کے آنسو کی ویڈیو عام ہوئی تو پورے ملک میں کہرام مچ گیا، مغربی یوپی کے علاقوں میں بڑی بڑی پنچایتیںہونے لگیں، لوگ اپنے گھروں سے نکل کر دہلی چل پڑے،آندولن کو پھر نئی روح مل گئی۔ قیادت اگر سڑک پر بیٹھنا جانتی ہو، اگر سامنے آکر قیادت کا ہنر معلوم ہو، اگر سردی گرمی برداشت کرنے کی طاقت ہو، اگر اسے جیل جانے اور گولی کھانے کا خوف نہ ہو تو یقین جانیں عوام قیادت کو تنہا نہیں چھوڑتے خواہ قائد کے دامن پر داغ ہوں، ماضی اچھا نہ ہو مگر سامنے رہ کر سب کچھ جھیلنے اور مورچہ پر ڈٹے رہنے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ عوام سر نہیں جھکنے دیتے۔
اس کے برعکس ہمارے یہاں اس کا فقدان ہے، لوگ کسی ایک نقطے پر متفق نہیں ہوتے، متفق ہو بھی جائیں تو نمائش کے لیے ہر کوئی آگے رہنے کو تیار ہوتا ہے لیکن قربانیاں دینے کے لیے سڑک پر اترکر مسائل حل کرانے کے لیے اور صعوبتیں برداشت کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ہمارے یہاں اول تو اس بے جگری سے حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے اور پھر اپنی قوم کے لٹنے کے خدشے سے آنسو بہانے والے ہیں ہی نہیں اور بالفرض اگر رو بھی دیں تو افسوس کہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جنھیں قوم کی رہبری کا تمغہ دیا جاتا ہے وہ سب میدان سے غائب ہوتے ہیں، ہاںاگر عوام کی قربانیوں سے سجے ہوئے اسٹیج پر آنا ہو تو منظر قابل دِید ہوتا ہے۔ کسان لیڈر کے آنسوؤں کی فریاد پر ہر قوم اور ہر برادری کے لوگ دلی کی طرف چل پڑے، کیا ان کے یہاں آپس میں انتشار نہیں، برادری واد نہیں ،سیاست کی کارفرمائی نہیں؟ جاننے والے جانتے ہیں کہ خوب ہے، مگر ہم ان سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ ہمارے کسی ادارے اور تنظیم پر آنچ آجائے تو دوسرے پہلے ہی دامن جھاڑتے نظر آئیں گے کہ یہ تو ہمارا آدمی نہیں اس کا عمل و عقیدہ درست نہیں، وہ جانے اور اس کا کام جانے، اس کی مثالیں ماضی قریب میں ہی مل جائیں گی ، اب تو مسلک و تنظیم سے آگے بڑھ کر گروپ بندیاں ہیں۔ سیاسی اور ملکی مسائل میں بھی ایک ساتھ آنے سے مسلکی، نظریاتی اور شخصی وابستگی مانع ہوتی ہے۔ دوسری طرف ستر سال سے نفرت کی جو کھیتی ہو رہی تھی وہ اب شباب پر ہے۔ ہمارے یہاں آپس کی بحث و تکرار سے فرصت نہیں ملی اور انہوں نے پورے ملک کی آبادی کو اپنے ساتھ ملا کر ہندو بنا لیا، وہ انہیں مندر میں بھلے ہی نہ جانے دیں مگر یہ سمجھانے میں کامیاب ہوئے کہ وہ ہندو ہیں۔ ہم نے اس جانب توجہ ہی نہیں کی، اگر چہ ہم یہ کہتے رہتے ہیں کہ ہم داعی امت ہیں، دعوت کو چھوڑئیے سماجی و سیاسی نقطہ نظر سے بھی کبھی توجہ نہیں کی،گزشتہ سال کے احتجاج میں اس کے نتائج خوب دیکھے گئے۔
واقعہ یہ ہے کہ آج ہمارے پاس رونے والے نہیں رہے اور جو کچھ ہیں ان کے آنسوؤں پر رحم کھانے والے نہیں رہ گئے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ حل کیا ہے؟ خود ہی دیکھ لیں کہ آپسی انتشار اور گروپ بندی کو کنارے کرکے ملکی تناظر میںکسی ایک مشترکہ نکتہ پر اتحاد کیسے ہو سکتا ہے اور منصوبہ بند طریقے سے آگے کیسے بڑھا جا سکتا ہے۔ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جب تک عوام قیادت کے لیے اسٹیج سجاتے رہیں گے تب تک مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے رہیں گے جب ایسی قیادت مل جائے جو خود گولیوں کے نشانے پر رہ کر بھی عوام کو دعوت انقلاب دینے کی ہمت رکھتی ہو تو مسائل حل ہونے کی ابتدا ہوجائے گی، جتنی جلدی یہ بات سمجھ میں آئے گی اتنی جلدی مسئلہ حل ہوجائے گا ور نہ آئندہ نسلیں یہی سوال کریں گی کہ کیا ہمارے آنسوؤں میں کوئی طاقت نہیں؟ کیا ہمارے آنسوئوں کی کوئی حیثیت نہیں؟
[email protected]
کیا ہمارے آنسوؤں میں بھی طاقت ہے؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS