صبیح احمد
کسان ’راشٹر کی دھری‘ ہیںجس میں خون، پسینے کے دوپہیے لگ کر ملک کی ترقی کی گاڑی آگے بڑھتی ہے۔ اگر یہ ’دھری‘ (ایکسل) کمزور پڑجائے تو نہ پہیے رہیں گے اور نہ ہی ملک ترقی کی راہ پر آگے بڑھ پائے گا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے رہنمائوں کو آزادی کی 7-8 دہائیوں بعد بھی صرف اور صرف اقتدار کی فکر ہے، ملک کی خوشحالی کے لیے جی جان لگا کر محنت کرنے والوں کی کوئی فکرنہیں۔
’راشٹر کی دھری‘ کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ یہ ’دھری‘ پورے ملک کا بوجھ ڈھوتے ہوئے گھستے گھستے ٹوٹنے کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ ’راشٹر کی دھری‘ کہے جانے والے کسانوں کی حالت آج یہ ہوگئی ہے کہ انہیں اپنی ہی زندگی کی گاڑی کھینچنا بھاری پڑ رہا ہے۔ اگر ان پر برقت توجہ نہیں دی گئی تو کسی بھی وقت یہ گاڑی کہیں راستے ہی میں نہ رک جائے۔
ہندوستان میں ’کچھ بات‘ ہے جس کے سبب اس کی ’ہستی مٹتی نہیں۔‘ ان میں سے ایک بات ’خود کفالت‘ بھی ہے۔ ملک کو خودکفیل بنانے والا کوئی اور نہیں، یہی کسان ہیں لیکن انہیں کیا صلہ مل رہا ہے؟ غربت، بھکمری، بے چینی اور رسوائی! وہ اپنے سکھ چین کی فکر سے بے نیاز اور تمام آفتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ملک کا پیٹ بھرنے میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔ آندھی طوفان، سردی گرمی کسی کی پروا نہیں کرتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مارچ-اپریل کی چلچلاتی دھوپ، جولائی-اگست کی موسلا دھار بارش اور دسمبر-جنوری کی ہڈیوں تک کو کپکپانے والی سردی کی پروا کیے بغیر دن رات محنت کرکے ایک ارب سے زائد ہندوستانیوں کیلئے کھانے پینے کا مسلسل انتظام کرنے والے کسانوں کو اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرنا بھی مشکل ہورہا ہے۔ گزشتہ 60-70 برسوں کے طویل انتظار کے بعد آج بھی وہ کسمپرسی کی حالت میں جینے پر مجبور ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب کیوں نہیں تلاش کیا جاتا؟ اس کا جواب کون دے گا؟ جواب تو دینا پڑے گا۔ اقتدار کا مزہ لوٹنے والے ملک کے حکمرانوں کو تو یہ بتانا ہی پڑے گا کہ ’راشٹر کی دھری‘ کو اس حالت میں کیوں پہنچایا گیا۔
آخر وہ کون سی بات ہے جو انہیں خود کشی پر مجبور کر دیتی ہے؟ ہندوستان کے زیادہ تر چھوٹے کسان قرض لے کر کاشتکاری کرتے ہیں۔ قرض واپس کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ فصل اچھی ہو ۔ ہمارے ملک میں سینچائی کی سہولت بہت کم کسانوں کو دستیاب ہے۔ زیادہ تر کسان کھیتی کے لیے بارش پر انحصار کرتے ہیں۔ اب ایسے میں اگر مانسون ٹھیک سے نہ برسے تو فصل مکمل طور پر برباد ہو جاتی ہے۔
کسان کی ساری محنت برباد ہو جاتی ہے۔ سال بھر کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں رہتا، ساتھ میں قرض ادا کرنے کا بوجھ الگ۔ مانسون کی ناکامی، خشک سالی، قیمتوں میں اضافہ، قرض کا ضرورت سے زیادہ بوجھ وغیرہ جیسی صورتحال کسانوں کے لیے مسائل کے ایک سائیکل کا آغاز کرتی ہے۔ ایسے حالات میں وہ بینکوں، مہاجنوں، بچولیوں وغیرہ کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ کئی کسان قرض کے دباؤ کو برداشت نہیں کر پاتے اور خودکشی کر لیتے ہیں۔ ملک کے تقریباً 6لاکھ گائوں میں رہنے والے 56 ملین کسانوں کو درپیش اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک کسانوں کے مکمل طور پر مانسون پر انحصار کو ختم کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ہے جو ان کی آمدنی پر راست طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔یعنی ہمارے یہاں ابھی تک سینچائی تک کا معقول انتظام نہیں ہو پایا ہے جو کاشتکاری کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔ اناج کی قیمتوں کا مکمل طور پر انحصار موسم پر ہوتا ہے۔ اگر بارش وقت پر اور حسب ضرورت ہوئی تو فصل اچھی ہوتی ہے لیکن اگر اس کے برعکس موسم نے اپنا مزاج دکھایا تو کھیتی پر اس کا راست اثر پڑتا ہے۔
یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ فصل اگانے کے لیے کسانوں کی جو لاگت ہوتی ہے اس حساب سے انہیں اس کی قیمت نہیں مل پاتی۔ اس کے بعد کسانوں کی ناراضگی اور مایوسی مختلف ریلیوں اور مظاہروں کے طور پر دیکھنے کو ملتی ہے اور جب اس سے بھی بات نہیں بنتی ہے تو پھر ان کے چاروں طرف اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ کسانوں کے لیے کھیتی کا خرچ مسلسل بڑھ رہا ہے لیکن اس کے مقابلے کسانوں کی آمدنی کم ہوتی جارہی ہے۔ چھوٹے کسان اقتصادی تنگ حالی کی صورت میں قرض کے شیطانی چنگل میں جکڑجاتے ہیں۔
فصل بیمہ اس مسئلہ کا ایک حل ہو سکتا ہے لیکن اس حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ ایسوچیم کے ایک مطالعہ کے مطابق 80 فیصد کسانوں کو اس کے بارے میں کوئی علم ہی نہیں ہے۔انشورنس کمپنیاں بھی صرف انہی کسانوں کو فوکس کرتی ہیں جو پریمیم کی ادائیگی کے لیے تیار ہوتے ہیں یا ان کسانوں پر جو قرض لینے اور لازمی فصل بیمہ کرانے کو راضی ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ جو کسان موسم انشورنس کراتے بھی ہیں،انہیں کوئی فائدہ نہیں مل پاتا۔یہ انشورنس علاقہ کے حساب سے کیا جاتا ہے، اس لیے بھاری بارش سے اگر کچھ ایکڑ فصل تباہ ہوتی ہے تو انشورنس کمپنی صرف ایک متناسب بربادی کا معاوضہ ادا کرتی ہے۔ کسی واحد کسان کی تباہی و بربادی کا معاوضہ نہیں دیتی، خواہ اس کسان کی ساری فصل ہی کیوں نہ تباہ ہو گئی ہو۔
انہی مسائل کے سد باب کے لیے کئی سال قبل ملک کے کسان سڑکوں پر اترنے کو مجبور ہو گئے تھے۔ اس ملک گیر کسان تحریک کے سبب ہی جس میں کسانوں کو بڑی قربانیاں دینی پڑی تھیں، یہاں تک کہ بڑی تعداد میں جانوں کا نقصان بھی ہوا تھا، کسانوں کے حوالے سے مرکزی حکومت کے ’کالے قانون‘ کو واپس لینا پڑا تھا اور وعدہ کیا گیا تھا کہ کسانوں کے واجب مطالبات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا، لیکن تمام یقین دہانیوں کے باوجود ان کے مطالبات آج تک پورے نہیں کیے گئے۔ خاص طو رپر کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) طے کرنے جیسا ان کا اہم مطالبہ آج بھی زیر التوا ہے۔ ابھی حال ہی میں اپنے مطالبات کو لے کر کھنوری بارڈر پر بیٹھے سیکڑوں کسانوں کو طاقت کے زور پر وہاں سے بھگا دیا گیا۔ یہ سب کیا ایک اور کسان تحریک کا پیش خیمہ ہے؟