کیا انقلاب کا انتظار ہے؟

0

1789 میں انقلاب سے قبل کا فرانس، جاگیرداری اور بادشاہت کے ظالمانہ تسلط اور مذہب کی آڑ میں لوٹ مار کرنے والے پاکھنڈیوںکے بوجھ سے دبا ہوا ایک تباہ حال سماج تھا۔ ریاست اور مذہب کے ناپاک اتصال نے سماج کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ آزادی، مساوات اور اخوت جیسی اقدار ناپید ہوچکی تھیں، اشرافیہ کے جبر تلے انسانیت سسک رہی تھی۔بادشاہ لوئی شش دہم شکار میں مصروف تھا، اسے عوام کی پریشانی اور مشکلات سے کوئی سروکار نہیں تھا، وہ اس بات سے بھی ناواقف تھا کہ جاگیرداروں اورحکومتی عمال کی چیرہ دستی سہنے والے عوام کے ضبط کا بندھن ٹوٹنے والا ہے۔پھر فرانس کے عوام نے ہمت جٹائی اور اپنا مقدر بدلنے کا فیصلہ خود کیا۔14جولائی1789کی شام کے وقت شروع ہونے والا انقلاب کا سفر1794تک جاری رہا۔ ان 5برسوں کے دوران فرانس میں قائم صدیوں پرانے شہنشاہی نظام کا خاتمہ ہوگیا، جاگیرداروں اور کلیسا کا طلسم پارہ پارہ ہوگیا۔ایک نئے عہد کاآغاز ہوا اور ایک ایسی دنیا وجود میں جو آج ہماری نظروں کے سامنے ہے۔
ہندوستان میں بھی آج کم و بیش یہی صورتحال ہے۔عوام آمریت میں تبدیل ہوتی جمہوریت کے دھوکہ کاشکار ہیں، ریاست پر اپنی گرفت قائم رکھنے کیلئے حکومت مذہب کااستعمال کررہی ہے، سرمایہ داروں کو لوٹ کھسوٹ کی مکمل چھوٹ ہے بلکہ حکومت بھی سرمایہ داروں کی پشت پناہی میں عوام کو لوٹنے اور تباہ و برباد کرنے میں اپنی سرگرم حصہ داری نبھارہی ہے۔ غریب اور محنت کش عوام اپنی سانسوں کی ڈور قائم رکھنے کیلئے جاں گسل جدوجہد میں مصروف ہیں۔ روز و شب کی لگاتار محنت بھی نان شبینہ کے انتظام سے قاصر ہے۔ لیکن دوسری جانب ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو عوام کی خون پسینہ سے کمائی ہوئی دولت کی لوٹ مار کررہاہے اور حکومت اس لوٹ مار کے مواقع فراہم کررہی ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ اس لوٹ کھسوٹ کی پشت پناہی اوراسے قانونی دائرہ میں لانے کی کوشش کا اعتراف کرنے میں بھی حکومت کو کوئی عار نہیں محسوس ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کے رواں سرمائی اجلاس کے دوران حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ ملک کے تجارتی بینکوں سے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں نے جو قرض لیے تھے، ان کا ایک قابل لحاظ حصہ معاف کردیاگیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں سرمایہ داروں اور صنعت کاروں نے عوام کی محنت سے حاصل ہونے والی دولت اپنے قبضہ میں لے لی ہے اور حکومت اس قبضہ کو اب جائزقرار دے رہی ہے۔
ملک کی وزارت خزانہ نے پارلیمنٹ میں جو اعدادوشمار پیش کیے ہیں، ان کے مطابق مالی سال2022-23میں تجارتی بینکوں کی طرف سے دیے جانے والے کل قرضوں کا نصف سے بھی زیادہ کا تعلق بڑی صنعتوں سے تھا اورحکومت کی ایما پر ان صنعتوں کے کل 2.09لاکھ کروڑ روپے کے قرض بینکوں نے معاف کردیے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ فیصلہ بینکوں کی مالی حالت کو بہتر بنانے کیلئے کیاگیا تھا۔اس عمل سے بینکوں کے غیرفعال قرض جسے عرف عام میں این پی اے کہاجاتا ہے، کم نظرآئے اور بینکنگ کا نظام مضبوط دکھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ قرض معافی کیلئے غریب یا چھوٹے قرض لینے والوں کو ترجیح نہیں دی گئی ہے۔ ہمیشہ کی طرح بڑے کارپوریٹس گھرانے، صنعت کار اور سرمایہ داروں کے ہی بھاری قرض معاف کیے گئے ہیں۔ یہ کارپوریٹ ادارے، سرمایہ دار اور صنعت کار بینکوں سے قرض لے کر سرکاری اداروں کے حصص خریدتے ہیں، حکومت سے زمین خریدتے ہیںاور بعد میں حکومت بینکوں کی حالت ’ مضبوط‘ ثابت کرنے کیلئے ان کا قرض معاف کردیتی ہے۔ اس الٹ پھیر سے جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ یہ ہے کہ کارپوریٹ مالکان کو مفت میں سرکاری اثاثے مل رہے ہیں، وہ صنعتیں بنا رہے ہیں، بینک قرضوں سے اپنا کاروبار بڑھا رہے ہیں۔ اب تک کی رپورٹ کے مطابق پورے مودی دورِحکومت میں کارپوریٹ گھرانوں کے کل15.23لاکھ کروڑ روپے کے قرض معاف کیے جاچکے ہیں جن میں سے 10.6لاکھ کروڑ روپے صرف گزشتہ پانچ برسوں میں معاف کیے گئے ہیں۔یہ کہنا غیر ضروری ہے کہ بینکوں سے یہ بھاری رقم لینے والے ادائیگی کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن وہ ادا کرنے کے خواہش مند نہیں ہیں۔
حکومت کی ایما اور سفارش پر کارپوریٹ گھرانوں، سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کو بینک جو رقم بطور قرض دیتے ہیں، وہ دراصل عام لوگوں کی محنت سے جمع کی گئی ہوتی ہے۔لیکن عوام کو اس رقم کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ حکومت ایک سہولت کا ر کا کردار ادا کرتے ہوئے سرمایہ داروں کی لوٹ مار کو تحفظ فراہم کررہی ہے۔
اس صورتحال کو انقلاب سے قبل کے فرانس کی معاشی صورتحال کے مماثل قراردینا غلط نہیں کہاجاسکتا ہے۔اگر اب بھی حکومت نے عوام کی ضرورتوں کا دھیان نہیں رکھا اور ریاست کو مذہب اور جارحانہ قوم پرستی کی آمیزش و آویزش سے الگ نہیں کیا توکچھ عجب نہیں کہ ’انقلاب‘ کی دستک ہندوستان کی سماعت پر کوہ گراں بن کر گرے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS