کیا اپوزیشن یہ موقع گنوا رہی ہے: عبدالعزیز

0

عبدالعزیز

اپوزیشن پارٹیوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی نے ہر طرح کے حربے اور وسائل و ذرائع استعمال کئے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کو ہر طرح سے ستانے اور پابند سلاسل کرنے میں کوئی کمی نہیں کی۔ دو وزرائے اعلیٰ انتخاب سے پہلے ہی سلاخوں کے پیچھے کر دیئے گئے۔ کانگریس کا بینک اکاؤنٹ بھی منجمد کردیا گیا۔ الیکشن کے دوران نریندر مودی ’’ہندو مسلمان‘‘ کرتے رہے، نفرت کا بازار بھی گرم کرتے رہے اور اس قدر زبان وبیان کے لحاظ سے نیچے اتر آئے کہ غیر تو غیر اپنے بھی حیرت کرتے رہے۔ انتخاب کے سارے ضابطے توڑتے رہے مگر الیکشن کمشنر نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے چار سو سے زائد شکایتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ان سب کے باوجود اپوزیشن پارٹیوں کا ’انڈیا‘ اتحاد نے غیر معمولی کوششیں الیکشن میں کیں ، ساتھ ساتھ عوام نے بھی اپوزیشن پارٹیوں کا ساتھ دیا۔ دستور ہند اور ریزرویشن کو بچانے کی کوششوں میں کوئی کمی نہیں کی۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ الیکشن کی لڑائی میں عوام کا کردار قابل تعریف تھا۔ عوام نے کھل کر آمریت، فسطائیت اور نفرت کو ختم کرنے میں اپوزیشن کا بھرپور ساتھ دیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو نعرے ’’اپوزیشن مکت بھارت‘‘ اور ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ دھرے کے دھرے رہ گئے۔ انڈیا اتحاد کو 234سیٹوں پر کامیابی ہوئی۔ مودی کی بی جے پی کو 240 سیٹوں پر سمٹنا پڑا۔ اکثریت حاصل کرنے سے بی جے پی محروم رہے۔

اس وقت ملک میں جو صورت حال ہے اسے قابل اطمینان نہیں کہا جاسکتا۔ انتخابی نتائج کے بعد اپوزیشن نے بھی راحت کی سانس لی تھی اور عوام و خواص نے بھی اطمینان محسوس کیا تھا کہ موجودہ حکومت بی جے پی یا مودی حکومت کی نہیں بلکہ این ڈی اے حکومت ہوگی۔ کمزور حکومت ہوگی ۔ دو بیساکھیوں پر مودی کو انحصار کرنا پڑے گا، لیکن دو بیساکھیاں چندر بابو نائیڈو اور نتیش کمار جن پر تکیہ تھا وہ پتے بہت جلد ہوا دینے لگے۔ نتیش کمار کا کردار تو بہت ہی خوشامدانہ نظر آیا۔ وہ اپنے بیانوں میں اور مودی کے سامنے جھکنے اور رینگنے میں عجیب و غریب انداز دکھاتے رہے۔ مودی کے پیر بھی چھونے لگے اور مودی کے سامنے یہ کہنے لگے کہ ’’اپوزیشن کے لوگ اس بار تو بہت سی سیٹوں پر کامیاب ہوگئے لیکن دوسری بار اتنی بھی سیٹیں حاصل نہیں کرسکیں گے۔ سب پر ہار جائیں گے۔ یہ سب خواہ مخواہ کی بکواس کرتے ہیں۔ آپ ہی پھر کامیاب ہوں گے‘‘۔ جہاں تک چندر بابو نائیڈو کے کردار کی بات ہے ۔ انہوں نے کسی قسم کا بیان بھی نہیں دیا مگر اپنی پارٹی کے لئے کسی بڑی وزارت کا مطالبہ بھی نہیں کیا جو معمولی قسم کی دو وزارتیں ملیں اس پر اکتفا کیا۔

عام طور پر یہ سمجھا جارہا تھا کہ لوک سبھا کے اسپیکر کا جب انتخاب ہوگا تو چندر بابو نائیڈو اپنی پارٹی کے لئے اسپیکر کا پوسٹ مانگنے میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ اب تک کی جو خبر ہے اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ چندر بابو نائیڈو بھی شاید ہی اسپیکر کے عہدے کے لئے اصرار کریں۔ معاملہ یہ بھی ہے کہ نائیڈو اور نتیش اگر مل کر آواز نہیں اٹھائیں گے تو کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے اس کا وزن مسٹر مودی دینے کے لئے تیار نہیں کیونکہ کسی ایک کے الگ ہونے سے حکومت گرنے سے بچی رہے گی لیکن اگر دونوں الگ ہوجاتے ہیں تو این ڈی اے کے ممبروں کی تعداد 264 ہوجائے گی یعنی اکثریت سے 8سیٹیں کم ہوجائیں گی۔ ایسا بھی لگتا ہے کہ مودی اور شاہ نائیڈو اور نتیش میں اتحاد کی جگہ تفرقہ پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ غالباً یہ دونوں کام دونوں کے لئے شروع کردیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے دونوں بیساکھیوں میں کمزوری نظر آرہی ہے۔

جب اٹل بہاری واجپئی کی حکومت قائم ہوئی تھی تو چندر بابو نائیڈو کی پارٹی تیلگو دیشم اٹل بہاری واجپئی کی حکومت کی حمایت کر رہی تھی۔ حمایت کے بدلے چندر بابو نائیڈو نے اسپیکر کی پوسٹ اپنی پارٹی کے لئے مانگی تھی واجپئی جی نے ان کی مانگ کو مان لیا تھا۔ لوک سبھا کا اسپیکر تیلگو دیشم کا تھا۔ واجپئی کی پہلی بار حکومت اسپیکر کے فیصلے کی وجہ سے ایک ووٹ سے گرگئی تھی ۔ چندر بابو نائیڈو کو اسپیکر کا مرتبہ و مقام اچھی طرح سے معلوم ہے کہ وہ کیا کرسکتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ مودی اور شاہ دوسری پارٹیوں کو تقسیم کرنے، ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپوزیشن کی حکومتوں کو بھی چین سے رہنے نہیں دیتے، اسے بھی توڑنے اور گرانے کی ہر طرح کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ آٹھ، دس حکومتیں مودی اور شاہ گراچکے ہیں اور کئی پارٹیوں کو تقسیم بھی کرچکے ہیں۔ اگر لوک سبھا میں اسپیکر کا عہدہ بی جے پی کے کسی فرد کا ہوگا تو مودی اور شاہ کو نائیڈو اور نتیش کی پارٹیوں کو توڑنے میں اور توڑ کر ان پارٹیوں کے ممبران کو اپنی پارٹی میںملانے میں ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اگر مودی اور شاہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں ، نائیڈو اور نتیش مات کھا جاتے ہیں تو مودی کی 2014ء اور 2019ء میں جو پوزیشن تھی اس کی واپسی ہوجائے گی۔

یہ کہا جارہا تھا کہ بی جے پی کی سیٹوں میں جب کمی آئے گی اور مودی میجک ناکامی سے ہمکنار ہوگی تو بی جے پی کے اندر سے مودی کے خلاف آواز اٹھے گی۔ ایسا کچھ ہوا نہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بتائی جاتی ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد نریندر مودی نے بی جے پی کی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ ہی منعقد نہیں کرائی۔ مودی کو بھی شبہ تھاکہ پارلیمانی پارٹی میں بھی ان کے خلاف آواز بلند ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے جو انھوں نے بی جے پی کی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ نہیں بلائی۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے اپنی پارٹی میں لیڈر چنا جاتا ہے۔ پھر کوئی سیاسی اتحاد ہوتا ہے تو اس کی میٹنگ میں لیڈر کا انتخاب ہوتا ہے۔ مودی جی نے مصلحتاً این ڈی اے کے ممبران پارلیمنٹ کی میٹنگ بلائی اور اس میں لیڈر منتخب ہوگئے۔ اپنی پارٹی کی میٹنگ بلانے سے پرہیز کیا۔ بی جے پی کے اندر سے تو مودی کے خلاف آواز بلند نہیں ہوئی لیکن اتحادی پارٹیوں کی طرف سے مودی کے خلاف آواز ضرور اٹھنی شروع ہوگئی ہے۔ مخالفت کی پہلی آواز این سی پی (اجیت پوار) کے لئے لیڈر پرفل پٹیل کی طرف سے بلند ہوئی۔ ان کی پارٹی کو وزیر مملکت کا عہدہ دیا جارہا تھا انھوں نے یہ عہدہ لینے سے انکار کیا اور کہاکہ وہ کابینہ کے وزیر رہ چکے ہیں، وزیر مملکت کی وزارت نہیں لیں گے۔ مہاراشٹر ہی سے شیو سینا (شنڈے) کے لیڈر اور وزیر اعلیٰ مہاراشٹر ایکناتھ شندے نے مودی کے خلاف پہلی بات تو یہ کہی کہ این ڈی اے میں جس پارٹی کا ایک ممبر پارلیمنٹ ہے اسے کابینہ درجے کی وزارت دی گئی اور ان کی پارٹی کے سات ممبران پارلیمنٹ ہیں ان کو وزیر مملکت کا عہدہ سونپا جارہا ہے جو سراسر ناانصافی ہے۔ دوسری بات انھوں نے یہ کہی کہ این ڈی اے کی ہار چارسو پار کے غلط نعروں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ مہاراشٹر میں این ڈی اے کی زبردست ہار ہوئی ہے جس کی وجہ سے مہاراشٹر کی حکومت میں اور مہاراشٹر میں این ڈی اے کی پارٹیوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ دیوندر فڈنویس مہاراشٹر میں این ڈی اے کی ہار کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ تک کی پیش کش کی ہے۔ اجیت پوار کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ این ڈی اے میں گھٹن محسوس کرنے لگے ہیں ممکن ہے وہ این ڈی اے سے الگ ہوجائیں۔ مہاراشٹر میں تین مہینے بعد اسمبلی کا الیکشن ہے ۔ ’مہا وکاس اگھاڑی‘ جس میں کانگریس، این سی پی (شرد پوار) اور شیو سینا (اودھو ٹھاکرے) جیسی پارٹیاں شامل ہیں۔ مہا وکاس اگھاڑی اگر متحد رہتی ہے اور اپنی جدوجہد میں کمی نہیں کرتی ہے تو اسمبلی الیکشن میں بھی لوک سبھا کے الیکشن کی طرح بڑی کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔

مودی جی کے لئے اپنی پارٹی کے اندر سے تو آواز نہیں اٹھی لیکن جو ان کی مدر آرگنائزیشن ہے آر ایس ایس اس کے سنچالک موہن بھاگوت کی طرف سے نریندر مودی کے خلاف سخت قسم کی آواز بلند ہوئی ہے۔ شری بھاگوت نے مودی کو اپنے بیان میں گھمنڈی اور مغرور تک کہا اور بتایاکہ سیوک (خدمت گزار) گھمنڈی نہیں ہوتا۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ الیکشن کے دوران بہت ہی پست درجے کی زبان استعمال کی گئی۔ ان کا اشارہ مودی کے بیانوں کی طرف تھا۔مودی نے الیکشن کے دوران سڑک چھاپ تقریروں اور بیانات سے کام لیا۔ اس پر موہن بھاگوت نے کھل کر اعتراض کیا ہے۔ یہ بھی کہاکہ الیکشن جنگ نہیں ہوا کرتی ۔ اپوزیشن کے لوگ دشمن نہیں حریف ہوتے ہیں۔ خلاف توقع موہن بھاگوت نے ہر طبقے کا احترام، ایک ساتھ رہنے اور تکثیریت کی عزت کی بات بھی کی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان گھس پیٹھیا (درانداز) نہیں بلکہ بھائی ہیں۔ مودی نے اپنی ایک تقریر میں مسلمانوں کو درانداز اور زیادہ بچے پیدا کرنے والا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ کانگریس کی سربراہی میں اگر اتحاد کامیاب ہوتا ہے تو عورتوں کے منگل سوتر کو بھی چھین کر مسلمانوں کے سپرد کردیا جائے گا۔ موہن بھاگوت نے منی پور جو ایک سال سے خونریز فسادات کا شکار ہے۔ فساد کی وجہ سے منی پور جل رہا ہے اس کا بھی انھوں نے تذکرہ کیا۔ اس کے بارے میں یہ بات صحیح کہی جارہی ہے کہ موہن بھاگوت نے تو ایک سال تک خاموشی برتی لیکن ایک سال کے بعد مودی پر حملہ کرنے کے لئے منہ کھولا۔ آر ایس ایس کے ایک بڑے لیڈر اندریش کمار نے بھی کم و بیش موہن بھاگوت کی طرح ہی مودی کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ آر ایس ایس کے ترجمان ’آرگنائزر‘ کے ایڈیٹر رتن شاردا نے آرگنائزر کے ایک مضمون میں مودی کے غرور و گھمنڈ کے بارے میں لکھا ہے کہ مودی اس خوش فہمی میں ہیں کہ وہ بہت بڑے سیاست داں ہیں اورآر ایس ایس کے لوگ سیاست میں ناتجربہ کار ہیں۔

عام طور پر اس سلسلے میں دو باتیں کہی جارہی ہیں۔ جو لوگ آر ایس ایس اور بی جے پی کے رفوگر ہیں اور اندھ بھکت ہیں وہ چاہے پڑھے لکھے ہوں یا جاہل ہوں شری موہن بھاگوت کی باتوں کو مودی کے خلاف کہنے کے بجائے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ موہن بھاگوت نے عام لوگوں کے بارے میں نصیحت کی ہے۔ اندھ بھکت رتن شاردا اور اندریش کمار کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس طرح کی باتیں کہہ رہے ہیں۔ اور یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ عین الیکشن کے دوران بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’بی جے پی جب کمزور تھی تو اس وقت آر ایس ایس کی ضرورت محسوس کرتی تھی لیکن اب بی جے پی مضبوط ہوگئی ہے وہ اپنا کام خود انجام دے لیتی ہے۔ اب آر ایس ایس کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔

موہن بھاگوت نے بند کمرے میں یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے بھی بات چیت گورکھپور میں جاکر کی ہے۔ ان چیزوں سے ظاہر ہورہا ہے کہ آر ایس ایس موجودہ صورت حال کے بارے میں مطمئن نہیں ہے لیکن آر ایس ایس میں اس قدر مضبوطی یا طاقت نہیں ہے کہ مودی کی جگہ بی جے پی کے کسی دوسرے شخص کو وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھاسکے۔

الیکشن کے نتائج سے جو بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہندستانی ووٹروں نے اپنے کردار سے یہ اجاگر کیا ہے کہ انھیں کم اہمیت نہیں دینا چاہئے۔ وہ گھر کی مرغی دال برابر نہیں ہیں۔ وہ حکومتوں کو بدل سکتے ہیں اور اپوزیشن کو مضبوط کرسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن اپنے آپ پر نہ فخر کرے اور نہ ہی انتخابی نتائج سے مطمئن ہو۔ ابھی سخت جدو جہد کا دور باقی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS