حماس – الفتح کا اتحاد کیا ہنیہ کے قتل کی اصل وجہ ہے

0

غزہ جنگ تقریباً 10 ماہ سے جاری ہے مگر اس طرح اسماعیل ہنیہ کو قتل کر دیے جانے کا اندیشہ نہیں تھا جیسے تہران میں ان کا قتل ہوا۔ کیا ایک ساتھ کئی پیغامات دینے کی کوشش کی گئی ہے؟ مثلاً : ایران میں ان کا قتل کیا جانا یہ پیغام ہو کہ ایران کی انٹلی جنس ایجنسی کی حقیقت کیا ہے۔ ایران میں ہنیہ کو قتل کیے جانے سے ممکنہ پیغام حزب اللہ کو یہ دینا ہو کہ جب ایران میں کوئی محفوظ نہیں ہے، پھر ایران کا ساتھ اسے کیسے محفوظ بنا پائے گا؟ اسماعیل ہنیہ کو مارنے کا ایک پیغام حماس اور الفتح کے لیڈروں کو یہ دینے کی کوشش کی گئی ہو کہ وہ بیجنگ کے چکر میں نہ پڑیں، بیجنگ ان کی مصالحت سے مشرق وسطیٰ میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانا چاہے گا تو یہ نہیںہونے دیا جائے گا۔ امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے یہ بات کہی ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بارے میں امریکہ ’نہیں جانتا تھا‘ اور یہ کہ اس قتل میں امریکہ ’ملوـث‘نہیں ہے۔ اس سوال کی اہمیت اتنی زیادہ نہیں ہے کہ انٹونی بلنکن کیا واقعی سچ ہی بول رہے ہیں جتنی اہمیت اس سوال کی ہے کہ ان سے ہنیہ کے قتل کے سلسلے میں وضاحت دینے کو کہا کس نے تھا کہ وضاحت کی ضرورت انہیں محسوس ہوئی؟ آخر ان کی یہ وضاحت کس کے لیے تھی؟
یہ بات جگ ظاہر ہے کہ عرب ملکوں کے ساتھ نے بھی امریکہ کو طاقتور بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اس کے بدلے عرب لیڈران ایک مسئلۂ فلسطین کو حل نہیں کرا سکے بلکہ اپنے بوتے پر حل کرنے کی کوشش کی تو امریکہ آڑے آگیا۔ عراق جنگ عرب لیڈروں کے لیے کسی حد تک چشم کشا تھی۔ اس کے بعد سے عرب ممالک دیگر طاقتور ملکوں سے مستحکم تعلقات قائم کرنے کے لیے کوشش کرنے لگے۔ امریکہ کو خوش رکھنے کے لیے اسرائیل سے بھی تعلقات استوار کرنے کے لیے جدوجہد کرنے لگے جبکہ خود اپنے جیسے ملکوں کے ساتھ مل کر ناٹو جیسی کوئی تنظیم بنانے کی پوزیشن میں کبھی نہیں آ سکے۔ باہمی رسہ کشی میں ہی ان کی توانائی ختم ہوتی رہی۔ اس صورتحال سے چین اور روس کے ساتھ دیگر ممالک بھی واقف ہیں۔ چین اور روس دونوں ایران کے کافی قریب ہیں۔ چین نے تو ایران سے اربوں ڈالر کا ایک طویل مدتی معاہدہ کر رکھا ہے مگر وہ مشرق وسطیٰ میں دائرۂ اثر بڑھانے کے لیے سعودی عرب سے بھی بہترین تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ غالباً اسی لیے اس نے گزشتہ برس ایران اور سعودی عرب میں مصالحت کرا دی۔ یہ مصالحت امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے منصوبوں پر بجلی گرانے والی تھی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا اسی لیے امریکہ غزہ جنگ جاری رکھوائے ہوئے ہے تاکہ غزہ کے سہارے وہ عرب ممالک کو یہ پیغام دے سکے کہ دوستی چین سے ہو یا روس سے جنگ اسی کے چاہنے سے رکے گی، کسی اور کے چاہنے سے نہیں؟
بظاہر یہی لگتا ہے کہ روس اور چین غزہ جنگ میں کہیں نہیں ہیں۔ مسلم ممالک نے اہل غزہ کو تنہا چھوڑ دیا ہے مگر جنگ تقریباً 10 ماہ سے جاری ہے تو یہ یوں ہی جاری نہیں رہ سکتی، کیونکہ غزہ کے ایک طرف بحیرۂ روم ہے۔ ایک طرف مصر اور دو طرف سے وہ اسرائیل سے گھرا ہوا ہے۔ اس پر سیٹیلائٹ سے نظر رکھنے کے لیے امریکہ بھی ہے۔ پس پردہ کچھ کھیل چل رہا ہے۔ ممکن ہے، یہ دائرۂ اثر بڑھانے کا کھیل ہو اور ممکن ہے، یہ دائرۂ اثر گھٹانے کا کھیل ہو۔ کون کس کا مہرہ ہے، یہ کہنا مشکل ہے۔ غزہ اور مسئلۂ فلسطین عالمی سطح پر اہمیت کے حامل نہیں ہوتے تو 23 جولائی، 2024 کو 14 فلسطینی گروہوں کے نمائندے چین کی دعوت پر بیجنگ میں جمع نہیں ہوتے، مصالحتی مذاکرات کے بعد فلسطینی قومی اتحاد کومستحکم بنانے کے لیے بیجنگ اعلامیے پر دستخط نہیں کرتے جبکہ بیجنگ میں حماس اور الفتح کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ ظاہر ہے، حماس کے نمائندے نے بیجنگ مصالحتی مذاکرات میں اسماعیل ہنیہ کی اجازت کے بغیر شرکت نہیں کی ہوگی ۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ سزا اسماعیل ہنیہ کو دے دی گئی ہے؟ مگر ہنیہ کو مار ڈالنے سے کیا اہل فلسطین کمزور پڑ جائیں گے؟ ایسا لگتا نہیں ہے۔ کیا غزہ اور مغربی کنارہ میں بٹے ہوئے فلسطین متحد نہیں ہوں گے؟ اس پر فی الوقت دعویٰ سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ لیڈر کا قتل اس کے کاز کو اور مضبوط بنا دیتا ہے اور جو اس کی زندگی نہیں کرپاتی، موت کر ڈالتی ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS