کیا پارلیمانی جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے؟: عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی
جمہوریت نظام گرچہ سب سے بہتر طرز حکومت نہ ہو لیکن اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ حالیہ عہد میں جمہوریت نے اپنے لیے بہتر شبیہ قائم کرلی ہے کیونکہ اس نظام کے تحت کم سے کم اہل اقتدار عوام کے سامنے روبر ہوتے ہیں اور اپنا ایجنڈا ان کے سامنے پیش کرکے ان کی حمایت طلب کرتے ہیں۔ اس حمایت کے بدلہ میں اقتدار حاصل کرنے والی پارٹی یا پارٹیاں عوامی جذبات کا نہ صرف خیال رکھنے کی کوشش کرتی ہیں بلکہ شہریوں کے حقوق کی حفاظت کا بھی دم بھرتی ہیں۔ جمہوریت کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نظام کے تحت پاور کا کسی ایک خاص ہاتھ میں سمٹ کر رہ جانے کا اندیشہ کم ہوتا ہے کیونکہ اکثریت حاصل کرکے حکومت تشکیل دینے والی پارٹی یا اتحادی پارٹیوں کے علاوہ ایک دوسری پارٹی یا پارٹیوں کا مجموعہ بھی عوام کے ذریعہ منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچتا ہے۔ اس جماعت کو حزب اختلاف یا اپوزیشن پارٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کسی بھی کامیاب جمہوری نظام میں اپوزیشن پارٹیوں کی اہمیت صاحب اقتدار پارٹی سے کسی درجہ میں بھی کم نہیں ہوتی ہے کیونکہ یہ اپوزیشن پارٹیاں ہی ہوتی ہیں جو اس نظام میں توازن کو برقرار رکھنے کی ذمہ داریاں ادا کرتی ہیں۔ اگر اپوزیشن پارٹیاں مضبوط نہ ہوں یا وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں کوتاہ ثابت ہوجائیں یا پھر اقتدار میں موجود پارٹی انہیں اتنی آزادی نہ دے کہ وہ عوام کے ذریعہ سونپی ہوئی اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکیں تو اس کو پارلیمانی جمہوری نظام کے لیے اچھا نہیں مانا جائے گا اور اس بات کا خطرہ منڈلانے لگے گا کہ جمہوریت کو کمزور کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ پاور اور قوت ایک ہی ہاتھ میں نہ جمع ہوجائے جس کے نتیجہ میں شہریوں کے حقوق متاثر ہونے لگ جائیں یا مطلق العنانی جیسے مسائل سیاسی نظام میں در آئیں۔ ایسے خطرات کے انسداد کے لیے ہی جمہوریت میں قوت کو تین الگ الگ دستوری اداروں میں تقسیم کر دیا گیا ہے یعنی قانون سازی کا ادارہ، قوانین کے نفاذ یا ایگزیکٹیو کا ادارہ اور تیسرے اہم ادارہ کا نام عدلیہ ہے جس کا مقصد یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ جو قوانین بنائے جا رہے ہیں، وہ دستوری روح سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں۔ یہ تمام ادارے باہم آزاد ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو متاثر کرنے سے باز رکھے گئے ہیں۔ البتہ مجموعی طور پر ان تمام اداروں کا کام یہ ہوتا ہے کہ شہریوں کے حقوق کی حفاظت کریں اور جمہوری نظام میں توازن کے جو اصول طے کیے گئے ہیں، ان کی پاسداری کو یقینی بنائیں۔ ہمارا ملک ہندوستان اپنے بے شمار مسائل سے جوجھتا رہا ہے اور اس کے جمہوری نظام پر بہت سے سوالات بھی کھڑے کیے جاتے رہے ہیں لیکن ان تمام دقتوں کے باوجود یہاں کے لیڈران نے ہر حال میں یہ کوشش ضرور کی ہے کہ دستور ہند کی روح کی حفاظت کی جائے اور لبرل جمہوری نظام کو ہر گزرے ہوئے دن کے ساتھ بہتر سے بہتر بنایا جائے۔ لیکن ان دنوں پارلیمنٹ جس طرح سے تعطل کا شکار ہے اور اپوزیشن پارٹیوں کے اراکین پارلیمنٹ کو جس ڈھنگ سے بات بات پر معطل کیا جا رہا ہے، اس سے عالمی برادری میں ملک کی کوئی اچھی شبیہ نہیں بن رہی ہے۔ جب سے پارلیمنٹ میں چند نوجوانوں نے دھواں دار کنستروں کا استعمال کیا ہے اور پارلیمنٹ کے اندر سیکورٹی کے سوال پر اپوزیشن پارٹیوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، تب سے اب تک 143 اراکین پارلیمان کو معطل کیا جا چکا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کا بس اتنا ہی مطالبہ ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ پارلیمنٹ کے اندر بیان دیں اور سیکورٹی کے مسئلہ پر حکومت کی ناکامی کے تئیں موقف کو واضح کریں۔ یہ مطالبہ جمہوری طرز حکومت میں ایک جائز مطالبہ ہے جس کو قبول کرنا چاہیے تھا تاکہ پارلیمنٹ کے کام اپنی مناسب ڈگر پر چل سکیں۔ کیا یہ مان لیا جائے کہ میڈیا کی طرح اراکین پارلیمنٹ کو بھی مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ بس ایک ہی نوعیت کی زبان بولیں؟ اگر ایسا ہوجائے گا تو پھر اظہاررائے اور فکر کی آزادی کا کیا ہوگا؟ آخر جس عوام نے اپنے نمائندے منتخب کرکے پارلیمنٹ میں بھیجے ہیں، کیا ان کے مسائل پر بحث کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی؟ ہمارے ملک میں پارلیمنٹ پر اس سے قبل بھی حملے ہوچکے ہیں اور اس وقت بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہی حکومت تھی۔ ایسے میں معاملہ کی حساسیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ یہ تو برسراقتدار پارٹی کے بھی حق میں تھا کہ وہ اس مسئلہ پر اپنا واضح موقف پیش کرتی اور ملک کو بتاتی کہ آخر بار بار اس ناکامی کی بنیادی وجہ کیا ہے۔ اس شفافیت سے عوام میں ان پر اعتماد مزید بحال ہوتا اور آئندہ پھر کبھی ایسے حالات پیدا نہ ہوں، اس کی یقین دہانی کرائی جاتی تو واضح پیغام پہنچتا کہ جمہوریت کا مرکز محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ لیکن اس کے برعکس اراکین پارلیمان پر پابندیاں عائد کرنے کی صورت میں جو اقدام ہوا ہے، اس سے تو عوام کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ شاید کسی بڑی کمزوری کو چھپانے کے لیے حکومت ایسے اقدامات کر رہی ہے۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ حکومت کو اپوزیشن پارٹیوں کے اراکین پارلیمان کی کسی رائے سے اختلاف تھا تو بھی رائے اور نظریہ کے اختلاف کو دور کرنے کا یہ طریقہ سرے سے ہی غیرجمہوری ہے۔ پارلیمنٹ کی عمارت کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ پیچیدہ اور حساس موضوعات پر پوری وسعت نظری کے ساتھ بحث کی جائے اور مشترکہ طور ایسا فیصلہ لیا جائے جو ملک اور سماج کے لیے مفید ہو۔ شاید پارلیمنٹ کی اسی اہمیت کو دھیان میں رکھتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے20مئی2014 کو اس کی چوکھٹ کو چوما تھا۔ اب ان کی قیادت میں ہی اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے گا تو اس سے نہ صرف عوامی رائے کی ناقدری ہوگی بلکہ خود پارلیمنٹ کے تقدس کی پامالی کا مسئلہ بھی پیدا ہوجائے گا۔ بہتر یہ ہوگا کہ اراکین پارلیمان کی معطلی کو ختم کیا جائے اور پارلیمنٹ کے اندر معقول اور موثر بحث ہو کیونکہ اپوزیشن پارٹیاں بھی اس ملک کی ترقی و سلامتی کی اسی قدر خواہاں ہیں، جس قدر برسراقتدار پارٹی اس کی دعویدار ہے۔ دونوں ہی پارٹیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کے جمہوری نظام کو خطرات سے محفوظ رکھیں اور دستوری روح کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں، ورنہ ناقدین کی یہ بات سچ مانی جائے گی کہ پاور کے نشہ میں موجودہ حکومت پارلیمانی جمہوریت کو ہی داؤ پر لگا رہی ہے۔ اگر یہ الزام درست ثابت ہوتا ہے تو اس سے ملک کا مفاد خطرہ میں پڑجائے گا کیونکہ تکثیری ثقافت والے اس ملک کو پارلیمانی جمہوری نظام کی سخت ضرورت ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS