شاہنواز احمد صدیقی
غزہ بحران کے بعد مغربی ایشیا کی جو صورت حال ہے اس میں سب سے اہم ایشو یہ نکل کر آیاہے کہ کیااس خطہ کا سماجی اور کئی اعتبارسے گلدستہ کی طرح مہکتا ملک لبنان اپنا وجود برقرار رکھ پائے گا یا نہیں؟ یاآج کے حالات میں بالکل منتشراور منقسم ہوکر مختلف طاقتوں کا نوالہ بن جائے گا۔ اسرائیل اوراس کے سرپرست اس عظیم ملک کو نوچ، کھسوٹ کر اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کریں گے۔
اس ایشو کو لے کر فرانس ایک اعلیٰ مشاورتی کانفرنس کررہاہے، جس میں لبنان کی موجودہ صورت حال پر غور کیا گیا اور مستقبل کے لائحہ عمل کی تجاویز زیر غور آئیں۔ اس کانفرنس میں70ملکوں اور 15فلاحی اور رضاکار اداروں نے شرکت کی ہے۔ اورلبنان کو بحیثیت ملک اہمیت دینے کی کوشش کی ہے۔ ظاہرہے کسی تنازع سے بچنے کے لیے ایک اتفاق رائے بنانے کی غرض سے ایران واسرائیل کو مدعو نہیں کیاگیا اور کئی ممالک نے بھی اس مشاورتی اجلاس میں زیادہ بڑے پروفائل کے عہدیداروں کو شرکت سے دور رکھا۔ مگر فرانس اورخطے کے دیگراہم ممالک کی دلچسپی کی وجہ سے اس کانفرنس کے مقاصد اور طریقہ کار کی زبردست پذیرائی ہورہی ہے۔ فرانس کو لگتاہے کہ وہ اس بدترین وقت میں جب اسرائیل بدترین جارحیت کا مظاہرہ کررہاہے، قیام امن، تعمیرنو اور اسی طرح کی تعمیری کاموں کو زیادہ ضرورت ہے۔ خیال رہے کہ فرانسیسی صدر اورفرانس بحیثیت ریاست باقی دیگر مغربی ممالک کے مقابلے قدرے مثبت رخ اپنائے ہوئے ہے۔ ہرقسم کی شدت پسندی اور رجعت پسندی کے خلاف یہ عظیم ملک اپنی پالیسی میں نہ صرف توازن برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ مظلوموں کے تئیں اس کے دل میں زیادہ فکرہے۔ جارحیت پسندوں کے تئیں اس کا موقف عملی اورقابل قدر ہے۔ فرانس کے صدر دیگر مغربی ممالک کے برخلاف اسرائیل کے خلاف اسرائیل کی سپلائی پرپابندی کی بات کرکے یہ ثابت کرچکے ہیں کہ ان کا ملک آزادانہ طورپرسوچ سکتاہے۔ ماضی کے پنجرے کو توڑ کر بدلے ہوئے حالات میں بدلتے ہوئے تناظرمیں بڑے فیصلے لینے کے بھی قابل ہے۔
دراصل منفی اور تخریبی طاقتیں خراب حالات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں بالکل اسی طرح جس طرح صہیونیت پسند کررہے ہیں مگر فرانس نے کارٹون تنازع، دہشت گردانہ حملوں کے بعد پیدا ہونے والے زبردست بحران میں بھی اپنے ملک کو صہیونی عزائم سے بچانے اور براہ راست یا بالواسطہ کسی فریق کا دم چھلہ بننے سے بچائے رکھا۔
پوری دنیا پر اپنی من مانی تھوپنے والے نتن یاہو اس صورت حال سے بڑے پریشان ہیں اور ہر غیرجانبدار، انسانیت پسند کو وہ لگاتار مغلظات سنارہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ ترین عہدیداروں، اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے سربراہان، اسپین، ناروے اور دیگر غیرجانبدار ملکوں کی طرح فرانس کے صدر سے بھی سخت الفاظ اورغیرشائستہ لہجہ میں بات کررہے ہیں۔
اسرائیل کی جارحیت نے لبنان کے سیاسی اور اقتصادی بحران کو اس قدر شدید اورسنگین بنادیاہے کہ فی الحال اس بحران سے چھٹکارا مل جائے، یہ ممکن نہیں ہے۔ کئی سپرپاور لبنان کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے کئی سطحوں پر مذاکرات کررہی ہیں، مگر فی الحال اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے آگے فرانس، برطانیہ اورامریکہ بے بس ہیں۔ ان تینوں ممالک میں اول الذکر کی کوشش ہے کہ اسرائیل فوراً جارحیت کو ختم کرے اورامن مذاکرات کی میز پربیٹھے۔
لبنان میں صورت حال پیچیدہ اس لیے بھی ہے کہ وہاں کوئی باقاعدہ سرکار،فوج اس قدر موثرنہیں ہے اور نہ ہی لبنان اقتصادی طورپر اس قدر مستحکم ہے کہ وہ اپنی فوج کو تنخواہیں اداکرسکے یاان حملوں کے اخراجات کو برداشت کرسکے۔ یہی وہ چند اسباب ہیں جو لبنان میں خارجی مداخلت کا راستہ ہموارکرتے ہیں۔
فرانس کے معاشرے اورفرانسیسی زبان کے گہرے اثرات کالبنان میں امریکہ سے زیادہ رول ہے، اس کے باوجود نقارخانہ میں طوطی کی طرح فرانس کے رول پر کوئی اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ مبصرین کا کہناہے کہ زمینی سطح پر فرانس کے نظریات اور اصول اترتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی رشتے بھلے ہی ہوں مگر آج کے تناظرمیں ان رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایک اور الزام یہ ہے کہ فرانس عرب ملکوں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر اقتصادی مسائل کوحل کرنا، زخمیوں، بے گھر لوگوں کوراحت فراہم کرکے ذمہ داری سے سبکدوشی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لبنان میں جنگ چھڑنے کے بعد سے اب تک تقریباً دوہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 13 لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے ہیں اور مختلف مقامات پر زیادہ تر کیمپوں اور عارضی راحت کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ یہ بڑی آبادی بنیادی اشیاء کی فراہمی کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ لبنان کے نمائندے برائے پیرس کانفرنس کاکہناہے کہ ان کے ملک کو ہرماہ 250ملین امریکی ڈالر کی مدد درکار ہے۔ بین الاقوامی برادری جو مدد فراہم کرارہی ہے وہ متاثرین کی مجموعی تعداد کا 20فیصد حصہ کے لیے بھی ناکافی ہے۔
عالمی برادری کے سامنے صرف موجودہ متاثرین کو راحت پہنچانانہیں ہے بلکہ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگراس جنگ کا دائرہ وسیع ہوتاہے تو عام لبنانی شہری کی حالت کیاہوگی؟ کیونکہ اسرائیل حزب اللہ کے مقامات پرحملہ کرنے پر اکتفانہیں کررہاہے بلکہ بیروت سمیت شمالی لبنان میں بھی فوجی کارروائیاں کررہاہے۔ لوگ اسرائیلی فوج کے حملے کی وجہ سے اپنے گھربار چھوڑ کر دوسرے مقامات پر پناہ لینے جارہے ہیں۔ لبنانی انتظامیہ نے سلاٹرہاؤس، سبزی منڈیوں، پھل منڈیوں جیسے مقامات کو عوامی پناہ گاہوں میں تبدیل کردیا ہے۔
لبنان امریکہ اورفرانس کی سیاسی رقابت میں بھی پھنس گیا ہے۔ فرانس نے ایران اور نہ ہی اسرائیل کو اس کانفرنس میں مدعو کیاہے۔ فرانس کی قربتیں سعودی عرب سے زیادہ ہوگئی ہیںاورکہاجاتاہے کہ وہ لبنان کے لیے جو امدادی پیکیج کا منصوبہ بنارہے ہیں اس کے پس پشت خلیجی ممالک خاص طورپرسعودی عرب ہے۔ لبنان پر طلب کی گئی کانفرنس میں 20سے زائد ممالک اور 15بین الاقوامی فلاحی ادارے اورایجنسیاں شرکت کررہے ہیں۔
فرانس اورامریکہ جیسی دوبڑی طاقتوں کے درمیان لبنان پر کچھ بنیادی اختلافات ہیں امریکہ بہرطور حزب اللہ کو نیست ونابود کرنے کاخواہش مند ہے اوریہی مقصد اسرائیل کا بھی ہے۔ اسرائیل کو امریکہ کی بے روک ٹوک امداد جاری ہے۔ غزہ پر اس کا نقطہ نظر اسرائیل سے قدرے مختلف ہے مگر حزب اللہ پر دونوں ملکوں اسرائیل اور اس کے سرپرست اعلیٰ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن پیرس نہ جاکر قطر چلے گئے اور ان کے نائب نے فرانس میں لبنان کانفرنس میں شرکت کی۔ سعودی عرب بھی شاید امریکہ کو نظرانداز کرکے فرانس کے کارزار میں کودنانہیں چاہتا ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی عدم موجودگی بھی کچھ اسی طرح کے اشارے دے رہی ہے۔