سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
اب جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سرکردہ لیڈر اور جموں کشمیر میں چند سال سے جاری ’’منفرد سیاسی کھیل‘‘ کے ہدایتکار رام مادھو نے پھر سے کہا ہے کہ انکی پارٹی جموں کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ دینا چاہتی ہے،کشمیر میں کوئی خاص ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی جموں کشمیر میں اپنے پیر مظبوط کرنے کی چاہ میں ’’جذباتیت کا سودا‘‘ بیچنے کے فراق میں ہے تو کچھ لوگ اس سب کو بھارت-چین کشیدگی تک کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے لگے ہیں۔ایک بات تاہم واضح ہے کہ مادھو کے اس بیان پر یہاں کوئی لٹو ہوتے نہیں دکھائی دے رہا ہے اگرچہ یہاں کے لوگوں نے جموں کشمیر کے ریاست سے یونین ٹریٹری بننے کے ’’حادثہ‘‘کو دل پر لیا ہوا ہے۔
حالانکہ گئے سال 5اگست کو جموں کشمیر کی ’’خصوصی حیثیت‘‘ ختم کرکے اس منفرد ریاست کو یونین ٹریٹری (یو ٹی) میں بدل دئے جانے کے بعد سے ہی وزیرِ داخلہ امت شاہ سے لیکر چھوٹے بڑے بھاجپائیوں نے گاہے گاہے یہ تو کہا کہ نئی یو ٹی کو دوبارہ ریاست بنانا خارج از امکان نہیں ہے تاہم رام مادھو نے گذشتہ روز ایک انٹرویو میں خصوصیت کے ساتھ اس بات کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا ’’بی جے پی کا جموں کشمیر یونٹ یہ سمجھتا ہے کہ مناسب وقت آنے پر یہاں کی ریاستی حیثیت کو بحال کیا جانا چاہیئے۔ہم چاہتے ہیں کہ جموں کشمیر کو ایک مکمل ریاست کے بطور بحال کیا جائے۔وزیرِ داخلہ امت شاہ نے خود یو ٹی بنائے جانے کے دوران کہا تھا کہ بہت جلد جموں کشمیر کو ریاست بنانے کا کام کیا جائے گا۔ابھی اسمبلی کا تشکیل پانا اور یو ٹی کی نئی حد بندی ہونا باقی ہے‘‘۔
جموں کشمیر کو آئینِ ہند کی دفعہ ہند کی دفعہ 370کے تحت ایک ’’خصوصی حیثیت‘‘ حاصل تھی جسے گئے سال 5 اگست کو گویا ایک کریک ڈاون کے تحت ختم کیا گیا اور ساتھ ہی اس حساس ریاست کو یونین ٹریٹری میں بدل دیا گیا۔ یہ سب کرنے کے دوران نہ صرف جموں کشمیر میں مہینوں کرفیو نافذ رہا بلکہ یہاں کی سبھی سیاسی پارٹیوں کے جانے پہچانے سبھی چہروں کو پابندِ سلاسل کیا گیا تھا۔
پورے جموں کشمیر میں لوگوں کو جموں کشمیر سے ریاست کا درجہ واپس لئے جانے کا بہت دکھ تو ہے لیکن رام مادھو کے بیان پر کوئی خاص ردِ عمل نہیں آیا ہے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ انتہائی حد تک احساسِ بے گانگی کا شکار ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انکی منشاٗ و مرضی کی فکر کئے بغیر نئی دلی جب جو چاہتی ہے کرتی ہے۔جیسا کہ غلام محمد نامی ایک بزرگ تاجر نے کہا ’’یہ لوگ اپنے مقاصد کیلئے جموں کشمیر کے ساتھ کھیل رہے ہیں، جب آئین و قانون کی کوئی پاسداری نہ ہو تو کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ اسے یو ٹی کہیں یا ریاست‘‘۔ نصیر احمد نامی ایک نوجوان کا کہنا بھی ہے کہ مادھو کے بیان پر اچھلنے کی انہیں کوئی وجہ نہیں دکھائی دیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنی شناخت کے حوالے سے حساس نہیں ہیں اور یو ٹی کی بجائے جموں کشمیر کو ایک مکمل ریاست کی طرح نہیں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ان لوگوں پر بھروسہ بھی تو نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جنہوں نے گذشتہ سال آئین و اخلاق کی دھجیاں اڑا کر گویا جموں کشمیر کے لوگوں پر شب و خون مارا۔ کیا پتہ ان لوگوں کو ابھی جموں کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کی باتیں کرنے میں کیا مقصد ہے‘‘۔
کشمیر یونیورسٹی کے شعبۂ سیاسیات کے ایک اسکالر نے انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر بتایا ’’ایک طرف ریاست میں مختلف ادارون اور قوانین کو تاراج کیا جا رہا ہے اور دوسری جانب یہاں کی اصل حیثیت کو بحال کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں،یہ سب عجیب اور حیران کن ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ رام مادھو نے بی جے پی کے جموں کشمیر یونٹ کو کریڈٹ دینے کی کوشش کرتے ہوئے یہ اشارہ دیا ہے کہ شائد بھاجپا بھی اگلے دنوں جموں کشمیر میں جذباتی سیاست کا سودا بیچنے کی کوشش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جیسا کہ نیشنل کانفرنس نے نام نہاد اٹانومی کی بحالی کا مطالبہ کرتے کرتے لوگوں کو دہائیوں بے وقوف بنائے رکھا جبکہ اسکے لئے عملاََ کوئی اقدام نہیں کیا۔ مذکورہ اسکالر کا تاہم کہنا ہے کہ بھاجپا کو یہاں کے لوگوں کو خود پر بھروسہ کروانے میں زمانےلگیں گے۔بعض لوگ مادھو کے بیان کو بھارت-چین کشیدگی کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ایسا سوچنے والوں کا کہنا ہے کہ چونکہ حالیہ دنوں میں یہ افواہیں گردش میں رہی ہیں کہ چین جموں کشمیر کی حیثیت بدل دئے جانے پر ناراض ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے لداخ میں دراندازی کی ہے لہٰذا ہو نہ ہو بھاجپا نے جموں کشمیر کیلئے ریاست کی حیثیت بحال کرنے پر سوچنا شروع کیا ہو۔ قابلِ ذکر ہے کہ بھارت اور چین کے مابین کشیدگی آخری حدوں کو چھو رہی ہے یہاں تک کہ چین نے چند روز قبل ایک شدید جارحیت کرکے بھارتی فوج کے زائد از بیس جوانوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کردیا جبکہ دونوں ممالک کی افواج آمنے سامنے آنے کو ہیں۔ اس کشیدگی کے دوران ایک چینی تھنک ٹینک نے دعویٰ کیا ہے کہ جموں کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمہ اور اسے ریاست سے دو یونین ٹریٹریز میں بدل دئے جانے سے چین ناراض ہے۔اسکے علاوہ بھی کئی مبصرین کا ان اقدامات کے حوالے سے کہنا ہے کہ ان سے مسئلہ کشمیر ’’خواہ مخواہ‘‘ بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گیا اور کئی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔تو کیا جموں کشمیر کے ساتھ جلد ہی دوبارہ ریاستِ جموں کشمیر لکھا جائے گا،آنے والا وقت ہی بتا پائے گا۔