پچھلے شمارے میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح دو بڑی طاقتیں روس اور امریکہ مختلف ممالک کو اپنی حمایت میں لانے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم شروع کی گئی ہے، اس مہم میں امریکہ کے حلیف ممالک بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کے اعلیٰ نے افریقہ کے کئی ممالک کا دورہ کر کے وہاں اپنے پرانے حلیفوں کے ساتھ تعلقات کی تجدید کرنے کی کوشش کی ہے۔ ابھی حال ہی میں فرانس کے سربراہ ایموئل میکروں نے کئی ملکوں کا دورہ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس وقت امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن جنوبی افریقہ کانگو اور ربانڈا جائیں گے۔ خیال رہے کہ پچھلے ہفتہ ہی روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے مصر ، ایتھوپیا، یوگینڈا اور کانگو کا دورہ کیا تھا۔ روس کا الزام ہے کہ امریکہ کے اڑیل رویہ کی وجہ سے ہی ِدنیا میں غذائی اجناس کا بحران پیدا ہوا ہے۔
اس سے قبل چین کے وزیر خارجہ یاانگ لی نے ایریٹیریا ، کینیا اور کوموروس کا دورہ کیا اور اس خطہ کے ساتھ پرانے مراسم اور تعاون کے دور کی بات کہی۔ انہوں نے یاددلایا کہ چین کے اعلیٰ ترین عہدیداران افریقہ کے ممالک کے ساتھ مراسم رکھتے ہیں، خیال رہے کہ چین بڑی خاموشی اور مستقل مزاجی کے ساتھ افریقی ممالک کے ساتھ تجارتی رشتہ قائم کر رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چین کی افریقی ممالک کے ساتھ تجارت امریکہ سے کہیں زیادہ ہے، افریقہ کے ممالک نے چین سے بڑے بڑے قرضے لیے ہیں اور اس بر اعظم میں اپنے تجارتی مفادات کی توسیع کی ہے ، یہی نہیں چین نے ’بیلٹ اینڈ روڈ ‘Belt and road کے نام سے ایک مہم شروع کی ہے جس کے ذریعہ افریقی ممالک نے بنیادی ڈھانچہ کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بر اعظم افریقہ کمزرو بنیادی سہولیات کی وجہ سے معمولی اور روز مرہ کی سہولیات کے لیے مغربی ممالک پر منحصر ہے اور اسی وجہ سے چین کی حکمت عملی رہی ہے کہ وہ بر اعظم کے کمزور ممالک کو بہتر بندرگائیں ، ریلوے اسٹیشن، ہوائے اڈے وغیرہ فراہم کر کے مغربی ممالک پر ان کے انحصار کو کم کر دے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ نے اس سال کے اوائل میں کینیا کا دورہ کیا تھا ، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا چین ان ممالک کو قرضے دے کر اپنے جال میں پھنسا رہا ہے تو انہوں نے اس الزام کی تردید کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ چین کوئی قرضوں کا جال نہیں بنا رہا ہے اور اس قسم کا پروپیگنڈہ کر کے مغربی ممالک چین کی امیج کی خراب کر رہے ہیں اور بد گمانی پیدا کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ اگر افریقہ میں کوئی جال ہے تو وہ غربت کا جال ہے۔
افریقہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے اس کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ یہاں پر قدرتی اور معدنی وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے اور اندرونی خلفشار قبائلی رقابتوں اور خانہ جنگی کی وجہ سے سیاسی صورت حال کو قابو میں کرنا مشکل کام نہیں ہے۔
فرانس یہاں کے اکثر علاقوں پر ماضی میں قابض رہا ہے اور اب بھی مختلف خطوں میں مقامی تنظیمیں بنا کر سیاسی حالات پر قابوپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ میکروں نے پچھلے ہفتہ ہی بینن کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سامراج کی وجہ سے اس خطہ کی ترقی متاثر ہوئی ہے انہوں نے روس پر الزام لگایا کہ آج روس اپنے پڑوسی ممالک پر حملہ کرکے ان کو اپنے قبضہ میں لینا چاہتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کی حالیہ کوششوں کے بائوجود اس بات کا امکان کم ہے کہ افریقہ کے ملک اور حکومتیں روس کے ساتھ ترک تعلق کر لیں کیوں کہ اس علاقے میں روس اور یوکرین سے یہاں کی ضرورتوں کا 40 فیصد گندم آتا ہے۔ مصر میں بری طرح سے قیمتیں بڑھی ہیں اور لبنان جیسے ممالک بد ترین غذائی بحران کی زد میں ہیں۔ مصر جیسے ممالک تو اپنی 50 فیصد ضروریات کے لیے ان دونوں ممالک پر منحصر ہیں۔ قرن افریقہ جس کو افریقہ کا سینگ بھی کہتے ہیں ، یہاں زیادہ تر ممالک خانہ جنگی اور قحط کی وجہ سے فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں۔ اس بحران کی وجہ سے تیل کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں جس نے رہی سہی کسرپوری کر دی ہے۔
کیا چین قرض کا جال بُن رہا ہے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS