کیا امریکہ ٹرمپ کو مزید 4 سال دینے کو ہے تیار؟

0

صبیح احمد

امریکی صدارتی انتخابات 2024 کے لیے ری پبلکن نامزدگی کی دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں کئی بڑے نام اس پر ہجوم (انتخابی) میدان میں شامل ہوگئے ہیں۔ سبھی دعویدار موجودہ فرنٹ رنر سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو میدان سے باہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو قومی رائے عامہ کے جائزوں میں اپنا غلبہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ حتمی فاتح اگلے سال نومبر کے عام انتخابات میں ڈیموکریٹک امیدوار صدر جو بائیڈن کو چیلنج کرے گا۔ جن ری پبلکن دعویداروں نے ڈونالڈ ٹرمپ کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ان میںمائیک پینس، رون ڈی سینٹس، ٹم اسکاٹ، نکی ہیلی، ڈوگ برگم کے نام اہم ہیں۔
دریں اثنا سابق امریکی صدر ڈونالڈ نے اپنے مخصوص انداز میں ایک غیر متوقع اعلان کیا ہے کہ وہ رواں ہفتہ ریپبلکن ڈبیٹ (مباحثہ) میں حصہ نہیں لیں گے، کیونکہ امریکی شہری انہیںاچھی طرح جانتے ہیں۔ ٹرمپ نے خود ستائی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عوام جانتے ہیں کہ میں کون ہوں اور میں کتنا کامیاب صدر رہا ہوں، اس لیے میں مباحثہ میں شمولیت اختیار نہیں کروں گا۔اور یہ کہ انہیں اپنے حریفوں کے ساتھ مقابلے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹرمپ نے معاونین کو یہ بھی بتایا ہے کہ وہ فاکس نیوز کے زیر اہتمام ہونے والے ایونٹ کو چھوڑ کر اپنے حریفوں کو آگے بڑھنے کا موقع دے رہے ہیں۔ 2024 کی ریپبلکن صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں ریپبلکن امیدواروں کی پہلی بحث بدھ کو امریکی ریاست وسکونسن کے شہر ملواکی میں شیڈول ہے۔ ٹرمپ کا یہ انداز جہاں انہیں انفرادی حیثیت فراہم کرتا ہے، وہیں یہ جمہوری روایات اور اقدار سے انحراف کا واضح نمونہ ہے۔ امریکہ جیسے ملک کے سابق صدر اور اگلی صدارتی دوڑ میں شامل ٹرمپ اس طرح اپنے مداحوں اور حامیوں کو تو خوش کر سکتے ہیں، لیکن ملک کی جمہوری اقدار کو نہیں لگتا ہے کہ اس سے کوئی فائدہ پہنچنے والا ہے۔ ٹرمپ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ ریپبلکن میدان سے بہت آگے ہیں۔ اس طرح کا بیان ایک سپر پاور ملک کے صدارتی امیدوار کو کیسے زیب دے سکتا ہے؟ بہرحال 7 دیگر امیدواروں نے بحث کے لیے کوالیفائی کیا ہے جن میں ریاستی گورنرس ڈی سینٹیس اور ڈوگ برگم، سابق نائب صدر مائیک پینس، ٹرمپ کے دور کی اقوام متحدہ کی سفیر نکی ہیلی اور جنوبی کیرولینا کے سینیٹر ٹم اسکاٹ شامل ہیں۔ ان میں سب سے اہم نام مائیک پینس کا ہے جو ٹرمپ کے نائب کے طور پر 4 سال کام کر چکے ہیں۔ حالانکہ ٹرمپ حسب دستور بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ 2024 کا صدارتی الیکشن لڑ سکیں گے؟ کیونکہ امریکہ کے سابق صدر کو 100 کے قریب فوجداری اور سول الزامات کے تحت مقدمات کا سامنا ہے۔ ان سب کے باوجود دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ملک کے اگلے صدر بننے کے لیے ریپبلکن پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ ان کی عوامی مقبولیت میں بھی بظاہر کوئی کمی نظر نہیں آرہی ہے لیکن اگر وہ امریکہ کے صدارتی الیکشن 2024 کے لیے ریپبلکن پارٹی کے امیدوار بنتے ہیں تو وہ یہ مقابلہ جیل سے لڑیں گے یا ٹرمپ ٹاور سے؟ امریکہ کی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص اتنے مقدمات کے بعد صدارتی امیدوار بنا ہو لیکن کیا معلوم، ٹرمپ جیسے اب تک کئی روایات توڑ چکے ہیں تو شاید اب بھی وہ کوئی روایت توڑنے میں کامیاب ہو جائیں!
ٹرمپ پر ایک پورن اسٹار کو زبان بند رکھنے کے لیے پیسے دینے سے لے کر ریاست جارجیا میں انتخابی نتائج تبدیل کروانے کی سازش تک کئی طرح کے الزمات ہیں۔ اب تک ان پر 100 کے قریب الزامات میں فرد جرم عائد ہوچکی ہے۔ اگر وہ ان تمام الزامات میں قصور وار ٹھہرائے جاتے ہیں تو انہیں 700 برس سے زیادہ قید ہوسکتی ہے۔ اگر آئندہ انتخابات سے قبل ڈونالڈ ٹرمپ کو ان الزامات میں سے کسی الزام کے تحت سزا ہو بھی جاتی ہے تو انہیں شاید الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جا سکتا کیونکہ امریکہ میں صدارتی الیکشن لڑنے کے لیے صرف 3 شرائط ہیں: اول عمر کم از کم 35 برس، دوم پیدائشی امریکی ہونا، سوم 14 برس تک امریکہ میں مستقل رہائش۔ بعض قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کانگریس کسی بھی امیدوار کا مواخذہ کرکے اسے سرکاری عہدے کے لیے نا اہل قرار دے سکتی ہے، مگر کسی عام قانون کے تحت مجرم قرار پانے والے شخص پر امریکی دستور کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ 2023 ڈونالڈ ٹرمپ کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ وہ نہ صرف صدارتی ٹکٹ کی مہم چلا رہے ہیں بلکہ امریکہ کی تاریخ کے پہلے صدر بھی ہیں جن پر فراڈ سمیت کئی مقدمات کی فرد جرم عائد ہوچکی ہے۔ ٹرمپ کو ان کے خیالات کی وجہ سے امریکہ کے اندر اور باہر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بظاہر ان کی مقبولیت میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے۔ لگتا ہے کہ ٹرمپ کی حمایت میں کمی آئے گی بھی نہیں۔ ان کی جماعت ریپبلکن کے اندر بھی ایسے بہت سے سپورٹرس ہیں جو ’ڈونالڈ ٹرمپ سپورٹرس‘ کہلاتے ہیں کیونکہ وہ پارٹی کو نہیں بلکہ ٹرمپ کو سپورٹ کرتے ہیں۔ ان حامیوں کے دماغ میں ہے کہ ٹرمپ کوئی غلط کام نہیں کرسکتے۔ وہ سوچتے ہیں کہ ٹرمپ نے ہمیشہ امریکہ کے لیے کام کیا، امریکہ کی جمہوریت کے لیے کام کیا۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مقدمات صرف اس لیے قائم کیے جا رہے ہیں کیونکہ لوگ ٹرمپ کے خلاف ہیں۔
ٹرمپ کی سیاسی زندگی خاصی دلچسپ رہی ہے۔ ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی الیکشن لڑنے کی پہلی کوشش جون 2000 میں ریفارم پارٹی کے پلیٹ فارم سے کی تھی۔ جون 2015 میں ارب پتی ڈونالڈ ٹرمپ نے نیویارک سے ریپبلکن پارٹی کے صدارتی ٹکٹ کی مہم شروع کی اور اگلے برس جولائی تک تمام پیش گوئیوں کے برخلاف ریپبلکن پارٹی کا صدارتی ٹکٹ حاصل کر لیا۔ نہایت تجربہ کار سیاست داں ہلیری کلنٹن کے مقابل ڈونالڈ ٹرمپ نے ’امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں‘ کے نعرے پر اپنی مہم چلائی۔ اس نعرے نے سفید فام بالادستی کے علمبردار انتہائی دائیں بازو کے حامیوں کے دل جیت لیے اور نومبر 2016 میں ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے 45ویں صدر بن گئے۔ بحرانوں، انتظامی افراتفری اور تنازعات سے بھرپور 4 برس کی صدارت کے بعد ٹرمپ 2020 کا الیکشن جیت نہیں سکے لیکن انہوں نے نتائج کو متنازع بنانے کی پوری کوشش کی۔ جنوری 2021 میں ان کے حامیوں نے امریکی کانگریس کی عمارت پر دھاوا بول دیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ پر ان افراد کو بغاوت پر اکسانے کا الزام ہے۔ امریکہ کا ’ٹرمپ معاملہ‘ انتہائی انوکھا ہے۔ وہ ایسے لیڈر ہیں جو امریکہ کی 400 سالہ جمہوری روایات سے بظاہر متصادم نظر آتے ہیں۔
ڈونالڈ ٹرمپ امریکی سیاست کے وہ کردار ہیں جو سیاست کے کئی مروجہ اصولوں کو نہیں مانتے۔ ان کے نقاد کہتے ہیں کہ انہوں نے امریکی جمہوری اقدار کو نقصان پہنچایا لیکن ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکہ میں مراعات یافتہ طبقہ کی سیاست میں دراڑیں ڈالی ہیں۔ امریکی قوم ٹرمپ کے معاملے میں منقسم ہے۔ بظاہر وہ بہت مقبول ہیں اور شاید ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کا مقابلہ جیت جائیں لیکن کیا امریکہ ٹرمپ کے اقتدار کے مزید 4 برسوں کے لیے تیار ہے، اس کا جواب ابھی کسی کے پاس نہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS