لاکھوں لوگوں کے قتل عام بڑے پیمانے پر تباہی اور مصائب آلام کے طویل تھکا دینے والے دور کے بعد شاید عراق، شام، لیبیا کے لیڈروں اور عوام کی آنکھیں کھلنے لگی ہیں ۔ عراق جو کہ مرحوم تانا شاہ صدام حسین کی غیر دانشمندانہ اور جارحانہ فوجی کارروائی کی وجہ سے عالمی طاقتوں کا بازیچۂ اطفال بنا ہوا تھا ۔ آج ایک طویل عرصے کے بعد وہاں کی قیادت نے تعمیر نو اور قیام امن کی ٹھوس کوششیں شروع کی ہیں۔ جیسا کہ ان صفحات میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک چاہتے ہیں کہ عراق کے اندر امن قائم ہواور وہاں کے لوگ بھی دنیا کے دوسرے حصوں کی طرح امن وسکون کے ساتھ نارمل طریقے سے زندگی سے گزار سکیں۔ اس معاملہ میں مغربی ایشیا کے اہم ملک اردن نے فرانس کے ساتھ ایک سفارتی مذاکرتی عمل شروع کیا ہے۔ جس کے اچھے نتائج دکھائے دے رہے ہیں۔ عراق کے موجودہ وزیراعظم محمد شیعہ السوڈانی مغربی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کرکے اس سمت میں ایک مصالحتی فارمولے پر عمل کررہے ہیں۔ خیال رہے کہ عراق مغربی ایشیا کے دیگر ممالک کی معدنی اور پیٹرولیم ذخائر سے مالا مال ہے۔ شاید یہی ذخائر جو کہ اب تک اس کے مصائب کی وجہ بنے ہوئے تھے اور قرب وجوار کے ممالک اور خارجی مغربی طاقتیں ان پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ سہولت کی وجہ سے بن سکتے ہیں۔ دنیا کو محسوس ہونے لگا ہے کہ ان ممالک کے وسائل کو استعمال کرکے جہاں وہ اپنے توانائی کے مسائل بھی حل کرنے میں کامیاب ہوں گے تو اس کے ساتھ ساتھ عراق ، شام اور لیبیا کے وسائل کو استعمال کرکے بھی بنی نوع انسان کی فلاح اور سہولت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ شاید یہی توانائی کی ضرورت ان ممالک میں قیام امن کی صورت لے کر پیدا ہوئی ہے۔ پچھلے دنوں اردن کی راجدھانی میں شاہ عبداللہ ثانی اور مصر کے ارباب اقتدار اور فرانس کے صدر ایمویل میکرون نے مل کر کسی مصالحتی فارمولے پر گفتگو کی ہے۔ ان مذاکرات میں یو اے ای کا بھی بہت اہم رول ہے۔ خیال رہے کہ مسلسل خانہ جنگی غیر ملکی مداخلت اور اختلاف کی وجہ سے یہ ملک آج بدترین فاقہ کشی او ر غربت کی مار جھیل رہا ہے۔ ملک کی 42ملین آبادی جوکہ کل آبادی کا ایک تہائی ہے۔ خطہ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق ملک کی 35فیصد نوجوان آبادی بے روزگار ہے اور خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک میں لوٹ کھسوٹ کا دور جاری ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کے تازہ ترین اعداوشمار کے مطابق 180ممالک کی فہرست میں عراق کرپشن کے معاملے پر 1 57ویں مقام پر ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے نہ وہاں پر بنیادی ڈھانچہ ہے اور نہ ہی معمول کی ضرورت کے وسائل۔ ملک میں پانی اور بجلی سخت قلت ہے۔ قحط سالی کی وجہ سے سرسبز علاقے ریگستان میں بدلتے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا کے پانچ بدترین ممالک جو کہ موسم کی تبدیلی کی مار جھیل رہے ہیں۔ ان میں عراق بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے کئی ادارے چاہتے ہیں کہ حالات کا صحیح جائزہ لے کر عالمی برادری کو تعمیر نوکی کوششوں میں شامل کیا جائے۔ اس سلسلہ میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گترس نے دو روز قبل عراق کا دورہ کیا ہے اور وہاں کی سیاسی قیادت سے ملاقات کی ہے۔ انہوںنے صدر عبدالطیف راشد پارلیمنٹ کی سکریٹری محمد حلبوسی سے ملاقات کی ہے۔ 20سال پہلے جب عراق پر امریکی قیادت والے فوجی ٹولے ناٹو نے حملہ کیا تھا اس حملے کی 20ویں برسی کے موقع پر اہل عراق ایک ایسے خوشحال مستقبل کی امید دکھائی جائے جو کہ ماضی کے تلخ دور کی یادووںکو کسی حد تک معدوم کردے۔
عراق: قیام امن اور تعمیر نو کی عالمی کوششیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS