کچھ بڑی خارجی طاقتیں مغربی ایشیا میں موجودہ بحران کا فائدہ اٹھا کر اپنا پرانا حساب چکتا کرنا چاہ رہی ہیں۔ ایران جو 1979میں انقلاب کے بعد سے مغربی طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا ہے۔ اسرائیل فلسطینی تنازع میں اہل فلسطین کے ساتھ بہت دور تک آگیا ہے اور آج حالت یہ ہے کہ کئی ملکوں میں ایران کی حمایت سے لڑنے والے عسکری گروپ، ایران اور لبنان میں حزب اللہ کو ختم کردینے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں اوران کو لگتا ہے کہ اسرائیل میں تمام اوصاف موجودہیں جو مذکورہ طاقتوں کو ختم کرنے کے لیے درکار ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق عراق کے اندر امریکہ کے جو قومی اڈے میں وہاں سے کارروائی کرکے ایران کی عسکری طاقت کو بآسانی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ عراق میں ایران نواز مزاحمتی ، رابطہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ امریکہ نے اس بابت کوئی بھی حرکت کی تو وہ امریکی مفادات کے خلاف کام کرے گی اور عراق میں اس کے اڈوں کو نشانہ بنائے گی۔ رابطہ کمیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمارے نشانوں سے کوئی بھی ملک راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا ہے۔ یہ گروپ پہلے کئی مرتبہ عراق میں امریکی ٹھکانوں فوجیوں اور ماہرین کو نقصان پہنچا چکے ہیں اور امریکہ بھی ان پر جوابی حملے کرچکا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان براہ راست محاذ کھلنے کے بعد عراق کی فوج اور ایران نواز ملیشیا سرگرم ہوگئے ہیں۔ عراق کو لگتا ہے کہ اگر ایران اسرائیل تنازع بڑھتا ہے تو عراق میں بھی اس کا اثر ضرور پڑے گا۔ عراق میں اسرائیل کئی مرتبہ فوجی حملے کرچکا ہے اور مستقبل میں بھی عراق پر حملے ہوسکتے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے کھلے تصادم کے پیش نظر اگر عراق میں کوئی فوجی کارروائی ہوتی ہے تو ایران نواز ملیشیا ، جوابی کارروائی کرسکتے ہیں اور امریکہ بھی ان عسکری گروپوں پر حملہ کرسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال خطے میں حالات کو پیچیدہ ترین بانے والی ہے۔ عراق کے ارباب اقتدار کو لگتا ہے کہ اگر اسرائیل کی نیت میں پاپ آیا تو وہ اس اقتصادی اثاثوں اور تجارتی مراکز کو نشانہ بنائے گا۔ خاص طور پر پٹرولیم مصنوعات کے مراکز کو ٹارگیٹ بنا سکتا ہے۔ عراق طویل عرصہ سے چلی آرہی خانہ جنگی اور خارجی مداخلت کا شکار ہے اور اس وجہ سے اس کی معیشت کا کوئی اور مرکز اور محور نہیں ہے۔ یہ ملک ان ہی اثاثوں ،پٹرولیم مصنوعات کو فروخت کرکے گزار کررہا ہے۔ کئی ملک فرانس کے ساتھ مل کر عراق کی معیشت کو پٹری پر لانے کی کوشش اور عراق کی تعمیر نو شروع کرنے کے لیے فرانس اور اردن اورد یگر ملکوں کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے ہیں۔
پچھلے دنوں عراق کے وزیراعظم الشیعہ السوڈانی امریکہ سے اپنی فوج کو واپس بلانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کی شروعات سے قبل دونوں ملکوں میں اس بابت مذاکرات بھی چل رہے تھے۔ مگر آ ج کے بدلے ہوئے حالات میں امریکہ عراق سے اپنی افواج کو واپس بلالے، اس کا امکان نہیں ہے۔ کئی مبصرین کی تو رائے یہ ہے کہ اگر عراق نے امریکہ پر دبائو ڈال کر افواج کے انخلا پر اصرار کیا تو خود موجودہ وزیراعظم کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے اور امریکہ ا ن کی حکومت کو غیر مستحکم کرسکتا ہے۔ عراق اورایران کے درمیان اچھے تعلقات میں اول الذکر ثانی الذکر کی مدد کررہا ہے۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جب ایران کی معیشت مغربی ممالک کی پابندیوں کی وجہ سے بدترین بحران کی شکار ہے اور عراق کے ذریعہ اپنی مصنوعات منتقل کرتا ہے۔ یہ صورت حال امریکہ کو قابل قبول نہیں ہے اور وہ ایران سے دوری اختیار کرنے کی صلاح دیتا رہا ہے یہ بھی الزام ہے کہ حزب اللہ کو عراق کے ساتھ تال میل اور تعاون سے ہی مدد پہنچائی جارہی ہے۔
عراق میں ایران اور امریکہ ودیگر حلیف سرگرم ہیں اور یہ ملک اگرچہ عراق میں اپنے مفادات اورسیکورٹی امور کو مد نظر رکھتے ہوئے سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے اور اس معاملہ میں عراق کی قیادت بادل ناخواستہ تعاون کرنے سے بھی اجتناب نہیں کرسکتی ہے۔ عراق کی موجودہ قیادت کے پاس اس بات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ دونوں غیر ملکی طاقتوں اوران کے حلیفوں کے ساتھ تعاون کرے۔
ایران کے روحانی لیڈر امام خامنہ ای کے گزشتہ جمعہ کے روز کے خطاب کے بعد جس میں انہوںنے اپنے حلیف کے جانی نقصان پر رد عمل ظاہر کرنے کا اعلان کیا تھا، عراق کے وزیراعظم نے رفیق اور برادر ممالک کا تعاون کرکے صورت حال کو بہتر بنانے اور کشیدگی کو کم کرنے کی صلاح دی تھی۔ ایران حامی عسکری گروپوں کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ امریکہ اپنے قریب ترین حلیف اسرائیل کو اپنے زیر استعمال اڈوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ خیال رہے کہ کئی خلیجی ممالک نے ایران کے خلاف اسرائیل کے حملہ کی صورت میں اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت سے انکار کردیا ہے۔ یہ خلیجی ممالک ایشیا کی سب سے طاقتور عسکری اتحاد جی سی سی کے ممبران میں اسرائیل چاہتا تھا کہ جی سی سی ممالک اورناٹو میں اتحاد ہوجائے تاکہ وہ ایران کے خطرے کا مقابلہ کرسکے۔ جی سی سی ایک بہت طاقتور فوجی اتحاد ہے جو مغربی ایشیا کے امریکہ نواز ملکوں کا گروپ ہے۔ جی سی سی کو ایشیا کا ناٹو بھی کہتے ہیں۔ امریکہ بھی اس گروپ کو اپنی دفاعی ضروریات کے لیے مسلح کررہا ہے۔ جی سی سی کے بعد جدید ترین اور مواصلاتی نظام اور اسلحہ جات میں یہ گروپ کویت پر عراق کے حملہ کے بعد مغربی ممالک کے تعاون سے معرض وجود میں آیا تھا۔